تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-08-2015

الزامات تو پھر یہ بھی ہیں !

جسٹس کاظم علی ملک کی شہرت کو داغدار کرنے کیلئے داغے جانے والے مسلم لیگی وزراء اور ان کے لیڈران کے بیانات پڑھنے اور سننے کے بعد کسی کو ان (جسٹس کاظم) کی شخصیت اور کردار کے بارے میں کچھ جاننا ہے‘ اگر ان کی ایمانداری اور انصاف پسندی کے معیار کو جانچنا ہے تو سیالکوٹ کے محلہ حاجی پورہ کے ان دو نوجوانوں کو بربریت سے قتل کئے جانے کے منا ظر کو سامنے رکھنا ہو گا‘ جب ساری دنیا کا میڈیا اٹھارہ سالہ مقتول حافظ محمد مغیث سجاد اور اس کے چھوٹے بھائی پندرہ سالہ محمد منیب سجاد کی الم ناک موت پر کئی دن تک تبصرے کرتا رہا تھا۔ جب ہر طرف سے‘ ہر گھر سے انصاف انصاف کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ بھاری ذمہ داری کس جج کو سونپی تھی؟ وہ جج تھے جناب کاظم علی ملک‘ جن کے بارے میں سپریم کورٹ کو یقین تھا کہ یہ ایک ایماندار جج ہیں‘ جو سوائے خدا کے نہ تو کسی کے آگے جھکتے ہیں اور نہ ہی بکتے ہیں اور اگر کسی کو فرصت ہو تو چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم سے سوؤموٹو نمبر14/2010 کی جسٹس کاظم علی ملک کے ہاتھوں لکھی گئی انکوائری رپورٹ پڑھے۔ اس رپورٹ کے آغاز میں وہی الفاظ لکھے گئے‘ جو حلقہ این اے122 کے فیصلے میں لکھے گئے ہیں۔ سیالکوٹ کے ان دو بھائیوں کے قتل کی انکوائری رپورٹ کے آغاز میں لکھتے ہیں: ''خدا کے سامنے جوابدہ ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے۔ جب میں یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کروں گا تو مجھ پر الزامات کی بھرمار ہو گی لیکن میرا خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ‘‘ اور جب یہی الفاظ بائیس اگست کو فیصلہ دیتے وقت لکھے گئے تو کہا گیا کہ انہیں خود نمائی کی عادت ہے ۔ اﷲ کو جوابدہ ہونے کا اقرار کرنا شاید کچھ لوگوں کے نزدیک خود نمائی کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس کاظم علی ملک پر جس قدر دبائو اور دنیاوی لالچ سیالکوٹ کے محلہ حاجی پورہ کے دو بھائیوں مغیث اور منیب کے قتل کے ملزمان اور بعض اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے تھا‘ اس کا اندازہ عام انسان کر ہی نہیں سکتا۔
اپنی زندگی میں قدم قدم پر دولت کے انبار ٹھکرا نے والے منصف کی کردار کشی بعض لوگوں کی عادت اور سیا ست کا حصہ ہے۔ ابھی ایک سال قبل ہی سکندر ذوالقرنین ایڈو وکیٹ کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے جو فرائض سر انجام دیے وہ سب ریکارڈ پر ہیں لیکن ایک سال بعد انہیں اس لئے کنفرم نہیں ہونے دیا گیا کہ وہ کچھ لوگوں کی مرضی اور پالیسیوں کی بجائے قانون اور آئین کے مطا بق فیصلے دیتے رہے۔ یہ ان لوگوں کے انصاف کا پیمانہ ہے کہ اپنے سے تھوڑا سا بھی اختلاف رکھنے والے جج کو گھورنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج جو حال جسٹس کاظم علی ملک کا کیا جا رہا ہے‘ وہی حال جسٹس علی باقر کا کیا گیا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ماڈل ٹائون میں قتل ہونے والے چودہ افراد کا خون پینے سے انکار کرتے ہوئے قاتلوں کی نشاندہی کر دی تھی۔ اور اس ملک کے مایۂ ناز اور قابل ترین جج منصور علی شاہ کی گزشتہ سال پنجاب میں آنے والے سیلاب کے بارے میں رپورٹ کا جو حال کیا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں تو جسٹس منصور علی شاہ کی لکھی گئی اس رپورٹ میں جن لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ان کو اب تک سزا نہ دلانا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے‘ لیکن ان کو (جسٹس منصور علی شاہ) اس جرم کی سزا دینے کیلئے پنجاب سے اسلام آباد بھیجنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ' 'میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ حکمرانوں کی عادت دیرینہ ہے۔ زندگی میں دو ہی عدالتی فیصلے ان کے خلاف ہوئے توپہلے فیصلے پر سپریم کورٹ کی دھلائی کر دی اور دوسرے فیصلے پر میڈیا پر جسٹس کاظم علی ملک کو متعصب اور لالچی کہنا شروع کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ یہی وہ جسٹس کاظم علی ملک ہیں‘ جو اس سے پہلے مسلم لیگ نواز کے
حق میں22 فیصلے دے چکے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ ان کے باس نے تو جسٹس کاظم علی ملک کی کار کردگی پر خوشی سے بے قابو ہو کر انہیںپیش کش کر دی تھی کہ وہ انہیں پنجاب کا ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن لگانا چاہتے ہیں‘ لیکن حیرانی ہے کہ اس ''متعصب اور لالچی جج‘‘ نے اتنی اہم اور طاقتور پوسٹنگ کو ٹھکرا دیا اور جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے بعض اہم شخصیات ان سے ذاتی طور پر رابطہ کرکے اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی بات کرتی رہیں تو جسٹس کاظم ملک صاحب پھر بھی تیار نہیں ہوئے۔ اس پر وزیر قانون یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جناب یہ بہت ہی سر پھرا شخص ہے‘ یہ ہمارے قابو نہیں آئے گا‘ اس کی جگہ کسی اورکو پوسٹ کر دیں۔ ''اوئے ہمارے خلاف کون فیصلہ دے سکتا ہے ‘ کسی میں ہے یہ ہمت‘‘ یہی وہ الفاظ تھے جن کی روشنی میں ٹربیونل کے دفتر کے باہر نواز لیگ مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر آئی تھی اور یہی وہ سوچ تھی‘ جس نے سردار ایاز صادق کے گھر منوں کے حساب سے مٹھائی اور لاکھوں روپے کی آتش بازی لانے پر مجبور کیا۔ کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ فیصلہ مسلم لیگ نواز یا سردار ایاز صادق کے خلاف آ سکتا ہے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہمیشہ کی طرح یہ فیصلہ نظریہ ضرورت کا شکار نہ ہو سکا اور جیسے ہی فیصلہ سامنے
آیا سب دنگ رہ گئے۔ ایک مشہور ٹی وی چینل کی اینکر جب بریکنگ نیوز دیناشروع ہوئی تو اس سے الفاظ ہی صحیح طرح سے ادا نہیں ہو رہے تھے اور سامعین و ناظرین کو اس کی باتوں سے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ حلقہ این اے122 کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ کئی سیکنڈ کے بعد اس کی زبان سے نکلا کہ فیصلہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے حق میں آ گیا ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان اور دنیا بھر میںا یک دھوم سی مچا دی کیونکہ مئی2013ء کے انتخابات کے ذریعے معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا کسٹو ڈین ہی انتخابی بے ضابطگیوں کی وجہ سے اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہا تھا۔ ابھی اس حوصلہ شکن فیصلے کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ وزیر اعظم کے مرکز اور پنجاب کے طاقتور وزیر جناب پرویز رشید اور جناب رانا ثنا اﷲ مختلف قسم کے الزامات سے لیس ہو کر یہ فیصلہ سنانے والے ٹربیونل کے جج جسٹس کاظم علی ملک پر الزامات عائد کرنا شروع ہو گئے۔ کہا گیا کہ جج صاحب نے اپنے ایک بیٹے کے لیے میاں نواز شریف سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ مانگا تھا لیکن میاں صاحب نے انکار کر دیا‘ یہی وجہ ہے کہ وہ نواز لیگ سے بغض رکھنے لگے ہیں۔ 
رانا ثنا اﷲ صاحب نے جسٹس کاظم علی ملک کے بارے میں جو کچھ بھی فرمایا‘ وہ سب نے سنا ہے اور رانا صاحب کے بارے میں چوہدری شیر علی نے جو کچھ کہا‘ وہ بھی سب نے سنا ہے۔ جناب والا! الزامات تو پھر الزامات ہوتے ہیں!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved