عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جیب خالی ہو‘تو بڑے سے بڑا پہلوان بھی‘ حاضرین کی للکاریں سن کر سرجھکا دیتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جیب میں کچھ نہ ہو‘ تو کسی کی للکار کا جواب دینا مناسب نہیں ہوتا‘ کیونکہ جواب میںایک دھکا ‘ ایک مکا‘ ایک لات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ایسے ماحول میں طاقتور سے طاقتور لوگ بھی نگاہیں اِدھر ادُھر کر کے‘ وقت گزارتے ہیں۔ سچ پوچھئے‘ تو موجودہ حکومت کے لئے بھی یہ وقت گزارنے کا ہی موقع ہے۔ ہمارے وزیرخزانہ‘ دنیا کے واحد وزیرخزانہ ہیں‘ جو قرض میں ڈوبتے جا رہے ہیں‘ لیکن ان کا نخرہ ہے کہ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ جب بھی ہماری کمر پہ قرض کا نیا بوجھ پڑتا ہے‘ وہ مزید اکڑ جاتے ہیں اور قوم کو جتاتے ہیں کہ ہمارا ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔فرماتے وہ درست ہیں۔ترقی معکوس بھی ہو‘ تو بہرحال ترقی ہوتی ہے۔ ایسی ترقی کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جس ملک میں ٹیکس توقع سے کہیں زیادہ کم وصول ہو رہا ہو اور قرضوں کی مد میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہو‘ تو اسے ترقی نہیں کہتے۔ پاکستان میں لوگ صرف 0.3 فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں یہ شرح اس سے 10گنا یعنی پورے 3 فیصد ہے۔ ٹیکس نہ دینے کا رجحان ہمارے ہاں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر ‘بڑے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیں‘ لیکن اصل میں یہ جتنے زیادہ بلند آواز ہوتے ہیں‘ اتنے ہی کمرتوڑ۔ ہمارے ڈار صاحب کے کیا کہنے! جیسے ہی قرض کی کوئی نئی قسط ملتی ہے‘ وہ بڑھک لگا دیتے ہیں کہ ہماری معیشت مضبوط ہو گئی‘ حالانکہ جیسے جیسے ٹیکس کی آمدنی میں کمی ہوتی ہے‘ معیشت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ جیسے ہمارے وزیراطلاعات‘ اپنی پارٹی کی ہر وکٹ گرنے پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے ‘ مخالفین کو للکارتے ہیں کہ ''اب کے آئو!‘‘ یوں سمجھ لیں کہ حریف کا مکا کھا کر کوئی زمین پر گرے اور پھر کھڑے ہو کر مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے للکارے کہ ''اب کے آئو!‘‘ ان دنوں وہ کچھ ایسی ہی کیفیت میں ہیں۔ وہ پے درپے انتخابی اعداد و شمار میں پٹ رہے ہیںاور ہر شکست کے اعلان پر نعرہ لگاتے ہیں ''اب کے آئو!‘‘
یہ نعرہ وہ‘ عمران خان کو نیچا دکھانے کے لئے لگاتے ہیں۔ نہ جانے وہ اپنی ہر پٹائی پر سراونچا اٹھا کے بڑھک کیوں لگاتے ہیں؟ عمران خان نے گزشتہ عام انتخابات کے بعد 4حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ صرف یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے یہ حقیقت سامنے آجائے کہ اصل میں زیادہ ووٹ کس کو ملے تھے اور کس کی شکست کا اعلان کیا گیا۔ انہیں یہ بات منوانے کے لئے 2سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا‘ حالانکہ یہ صرف تیس چالیس دن کا کام تھا۔ حکومت چاہتی‘ تو فوراً ہی چیلنج قبول کر کے‘ دوبارہ گنتی کا اہتمام کرتی۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ سب سے پہلے خواجہ سعد رفیق شکنجے میں آئے اور ثابت ہو گیا کہ و ہ الیکشن میں فتح یاب نہیں ہوئے تھے‘ مگر وہ فوراً ہی سپریم کورٹ گئے اور سٹے آرڈر لے کراپنی وزارت بچا گئے۔ اندازہ یہ ہے کہ وہ حکومت کا باقی عرصہ سٹے آرڈر میں گزار جائیں گے اور تین سال پورے ہونے پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے ‘ عمران خان کو چھیڑیں گے کہ میں نے توہار کے بھی 5سال حکومت کر لی‘ اب ''رو عمران رو‘‘۔یہ عجیب و غریب پارٹی ہے کہ اپنی شکست کا نیا ثبوت ملنے پر‘ جیتنے والے سے کہتی ہے''روعمران رو‘‘۔ جیتنے والے کو رونے کی دعوت دینا‘ ہمارے ہی بس کا کام ہے۔ خواجہ سعد رفیق میں طویل سیاسی تجربے کے بعد کافی پختگی آ گئی ہے۔ اب وہ ہر شکست پر فتح کے نعرے نہیں لگاتے‘ بلکہ خاموشی سے اپنی کرسی بچاکر پھر سے بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں ایک بات کا پتہ ہوتا ہے کہ جیت کرخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ہار کے افسوس کا۔ ن لیگ کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں۔ وہ ہر نئی ہار پر تازہ بڑھک لگاتی ہے ''اب کے آئو!‘‘۔عمران خان جیت جیت کر ہانپ گئے ہیں‘ مگر ن لیگ ہار ہار کے بھی ‘نئے عزم اور نئے ولولے کے ساتھ‘ اگلی ہار کے لئے تازہ دم ہو جاتی ہے۔ اوسان خطا ہونے کی نشانی یہ ہے کہ آدمی غیرمتوقع حرکات کرنے لگتا ہے۔ شکست ہو‘ تو فتح کے نعرے لگاتا ہے اور کامیابی مل جائے‘ توبڑھکیں لگا لگا کے بیہوش جاتا ہے۔
بے تحاشہ بولنے والے ایک وزیرصاحب کو تیسری وکٹ گرنے کا اتنا صدمہ ہوا کہ وہ بار بار تحریک انصاف کو للکارتے ہیں کہ ''اب کے آ کر دیکھو!‘‘۔ عمران نے اپنا ٹارگٹ صرف 4نشستوں تک محدود رکھا تھا۔ ان میں سے 3نشستوں پر ‘ن لیگ شکست خوردہ ثابت ہوئی۔ اصولی طور پر کوئی فریق دو تہائی درست ثابت ہو‘ تو اسے جیتا ہوا سمجھا جاتا ہے‘ لیکن ن لیگ یہ بات نہیں مانتی۔ وہ کہتی ہے پورے کے پورے جیت کر دکھائو‘ حالانکہ جب تین چوتھائی شکست ہو جائے‘ تو باقی ماندہ 25فیصد کا انتظار کوئی نہیں کرتا۔ وہ حریف کی فتح کا اعلان کر دیتا ہے۔ لیکن یہاں کا حساب الٹا ہے۔ وہ شکست کے نعرے لگاتا لگاتا‘ جیتنے والے کو گھر تک چھوڑ کر آتا ہے۔
اصولی طور پر دیکھا جائے‘ تو نتائج اپنے حق میں نکال کر مسلم لیگ نہ صرف کامیاب ہو چکی ہے بلکہ حکومت بھی کر رہی ہے۔ دو تہائی اکثریت والی جماعت ‘ تین چار نشستوں پر دوبارہ گنتی کرا کے ہار بھی جائے‘ تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ لیکن ن لیگ کا بگڑتا ہے۔ جس پارٹی میں اعتماد ہوتا ہے‘ وہ صرف ایک سیٹ زیادہ ہونے پر بھی‘ اعتماد سے حکومت بنا کر بیٹھ جاتی ہے اور اپنے پانچ سال پورے کرتی ہے۔ن لیگ کو دو تہائی اکثریت لے کر بھی تسلی نہیں ہوتی۔ وہ بار بار گنتی کرا کے دیکھتی ہے کہ کیا واقعی اس کی جیت ہو گئی ہے؟ جس شخص کو اپنے آپ پر بھروسہ ہو‘ وہ تھوڑے سے پیسوں میں بھی پورے بھروسے کے ساتھ‘ بازار میں جاتا ہے اور جسے خود پر اعتماد نہ ہو‘ وہ بار بار جیب سے روپے نکال کر گنتا ہے اور اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میری پونجی پوری ہے۔ ن لیگ واحد جماعت ہے‘ جسے اپنے آپ پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اسے ہر وقت یہی وہم رہتا ہے کہ ''میرے پاس پونجی پوری بھی ہے یا نہیں؟‘‘ اور ہوتا یوں ہے کہ بار بار کی گنتی کرتے ہوئے‘ وہ ایک آدھ عدد ‘گنوا بیٹھتی ہے اور ایک دن سچ مچ اس کا حساب گڑبڑ ہو جاتا ہے۔ آپ ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں۔ ن لیگ نے جب بھی حکومت بنائی‘ اس کے پاس فیصلہ کن اکثریت موجود تھی۔ بیشتر اوقات تو وہ دو تہائی اکثریت سے آئی‘ مگر اس کے اضطراب کی حالت یہ ہے کہ اپنے آپ پر یقین نہیں آتا اور خو ف ہی خوف میں وقت پورا ہونے سے پہلے حکومت گنوا بیٹھتی ہے۔ اس بار وہ جلد ہی اچھے بھلے بحران کا شکار ہو گئی تھی۔ اسے بیہوشی کے دورے پڑنے لگے ۔ بُرے بُرے خواب آنے لگے تھے۔ ٹھنڈے پسینے چھوٹ رہے تھے اور ایک بار تو جناب وزیراعظم کے ایک ساتھی نے گھبراہٹ کے عالم میں کہہ دیا تھاکہ اب ہم نہیں بچیں گے‘ لیکن جاوید ہاشمی نے آزمودہ بیوفائوں کے ساتھ وفا کر کے‘ ان کے بچائو کا بندوبست کیا۔ جس حکومت کو وہ جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے‘ اسے سنبھال کر جاوید ہاشمی نے‘ دوبارہ ان کے ہاتھ مضبوط کر دیئے اور مخالفین کو بھی یقین ہو گیا کہ اب ن لیگ کی حکومت تمام خطرات سے باہر آ گئی ہے اور اب وہ اپنی مقررہ میعاد پورے اعتماد سے مکمل کرے گی۔ لیکن وہ ن لیگ ہی کیا‘ جو اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالے۔ دوتہائی اکثریت رکھنے والی پارٹی کے نزدیک تین حلقوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ ان میں دوبارہ گنتی کے امتحان پر گھبرانا ہی نہیں چاہیے‘ لیکن وہ مسلم لیگ ہی کیا ہوئی جو یقینی کامیابی پر بھی گھبراہٹ کا شکار نہ ہو۔ معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی سمجھ لیتا ہے کہ یہ تینوں سیٹیں ہار کے بھی‘ نہ میری حکومت کا کچھ بگڑے گا اور نہ میرے حریف کا کچھ بنے گا۔ اس کے باوجود دوبارہ گنتی کے سوال پر ن لیگ مورچہ لگا کے بیٹھ گئی۔ بہت شور مچایا۔ زبردستی مقابلے کی فضا پیدا کی اور صرف 3نشستوں پر ہار کے نڈھال ہو کر بیٹھ گئی۔ خود پر عدم اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ہر چار منٹ بعد ''بولتاوزیر‘‘ چیلنج دے کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ ''میدان میں رہنا۔ چھوڑ کے مت بھاگنا۔ ہم سے ٹکرا کے دیکھو۔ تمہیں سمجھ آ جائے گی۔‘‘ خدا کے بندے کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ٹکرا کر وہ جیت بھی گئے‘ تو انہوں نے پھر اپوزیشن میں ہی رہنا ہے اور یہ پھر بھی حکومت میں رہیں گے۔مقابلے کا میدان لگانے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن وہ مسلم لیگ ہی کیا ہوئی جو بلاوجہ کی ٹکر مار کے اپنی یقینی کامیابی پر اعتماد قائم رکھ سکے۔ اسے ٹکر مارنا ہوتی ہے۔ چوٹ کھا کے دیکھنا ہوتا ہے اور چوٹ سے بچنے کے بعد خود حیران ہونا ہوتا ہے کہ ''مجھے تو چوٹ لگنی ہی نہیں تھی۔ میں نے ٹکر کیوں ماری؟‘‘ ابھی بھی‘ ن لیگ کے پاس تین سال باقی ہیں۔ وہ چاہے تو اطمینان سے اپنا عرصہ پورا کر سکتی ہے‘ لیکن دیکھ لیجئے گا‘ یہ پھر ٹکر مارے گی اور پھر سوچے گی کہ میں نے ٹکر کیوں ماری؟