تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     29-08-2015

ملین مین مارچ

جس دن لوئس فراخان (Farrakhan Louis )کی اپیل پر واشنگٹن میں افریقی‘ امریکی مردوں کا اجتماع ہوا‘ میں بطور اخبار نویس نیشنل مال کے اس اکٹھ میں موجود تھا۔اس اجتماع کو ملین مین مارچ کہا گیا اور مقصد اس کا یہ بتایا گیا کہ اس میں کالے مردوں سے ذمہ داری کا عہد لیا جائے گا۔امریکہ کے چاروں جانب سے سیاہ فام مرد بسوں‘ ٹرینوں‘ ہوائی جہازوں اور اپنی موٹر گاڑیوں میں کشاں کشاں قومی دارالحکومت آئے اور توبہ اور استغفار میں شریک ہوئے۔میرے نزدیک یہ پہلا بڑا بین المذاہب اجتماع تھا‘ جس میں مسلمان اورمسیحی شامل ہوئے اور یہود نے مدعو نہ کئے جانے کی شکایت کی۔خواتین بھی اس اجتماع کے دائرے سے خارج تھیں؛ چنانچہ انہوں نے متوازی اپنا اکٹھ کیا اور اپنے شوہروں کا ساتھ نبھانے کا حلف تازہ کیا۔مجھے اس میں سیاست کی کچھ کار فرمائی بھی دکھائی دی ۔ایک سال پہلے ری پبلکن پارٹی نے وائٹ ہاؤس اور کانگرس میں غلبہ حاصل کیا تھاجب کہ بیشتر سیاہ فام امریکی روایتی طور پر ڈیموکریٹ ہیں۔ وہ ''انصاف‘‘ مانگ رہے تھے۔
بیاسی سالہ فراخان اگلے روز شکاگو سے واشنگٹن آئے اور ایک بار پھر انہوں نے افریقی امریکیوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا اور خزاں میں ملین مین مارچ کی بیسویں سالگرہ منانے کا اعلان کیا۔اس مطالبے اور اعلان کے پیچھے چارلسٹن ‘ ساؤتھ کیرولائنا کے ایک گرجا گھر میں ایک گورے کے ہاتھوں نو کالوں کا قتل اور سیاہ فام امریکیوں کے دکھ درد کے دوسرے واقعات کام کرتے دکھائی دیتے تھے۔امریکہ کا کالا صدر اپنی غیر جانبداری سے قطع نظر اپنی کمیونٹی سے ہمدردی کرنے پر مجبور تھا۔اتفاق سے صدر بارک حسین اوباما کی طرح ساؤتھ کیرولائنا کی گورنر نکی ہیلی Haley) Nikki ((نمریتا رندھاوا) بھی تارکین وطن کی اولاد ہیں اور اس واقعہ کے بعد وہ کولمبیا میں قانون ساز ادارے کی چھت سے کنفیڈریسی کا سرخ و سیاہ پرچم اتارنے کی ایک مہم کی قیادت کر رہی تھیں ۔ ان کے خیال میں یہ علمِ بغاوت‘ جو چار سال جنوب کے ہاتھ میں رہا‘ نسلی افتراق کی جڑ تھا۔وہ دوسری انڈین امریکن ہیں جو ریاست کے چیف ایگزیکٹو کے منصب کے لئے چنی گئی ہیں۔ نسلی اعتبار سے وہ سکھ ہیں۔ ان کے والدین‘ اجیت سنگھ رندھاوا اور راج کور‘ ضلع امرتسر سے آئے تھے۔امریکی خانہ جنگی انہی کی ریاست سے شروع ہوئی تھی۔ اپنی پارٹی کے موقف کے خلاف وہ یہ کہتی ہیں کہ کنفیڈریشن کا جھنڈا ہٹانے کے فیصلے میں '' یہ سوال شامل تھا کہ میں بیم برگ کہاں سے آئی تھی‘ میں اپنے بچوں کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتی تھی تاوقتیکہ یہ پرچم اوپر ہے۔‘‘ ان کے کام میں ایک کالی خاتون اور ایک گورے مرد نے ہاتھ بٹایا۔خاتون نے وہ جھنڈا اتار دیا اور مرد نے اس میں ان کی معاونت کی مگر وہ دونوں پکڑے گئے۔گورنر صاحبہ پرچم اتارنے کا قانون منظور کرانا چاہتی تھیں جو اس واقعہ کے تین ہفتے بعد کثرت رائے سے منظور ہوا۔ 
ان سے پہلے پنجاب ہی کے ہندوئوں کا ایک بچہ بابی جندل (Jindal(Bobby) Piyush)جو صدارت کے لئے ری پبلکن ٹکٹ کے تیرہ امیدواروں میں شامل ہے‘ ریاست لوزی آنا کا گورنر منتخب ہوا تھا۔ ان کے والدین ‘ امر اور راج جندل کا تعلق ملیر کوٹلہ سے ہے جو بٹوارے کے وقت مشرقی پنجاب میں مسلم اکثریت کی واحد پرنسلی سٹیٹ تھی۔انہوں نے ہم جنسوں کی شادی کے حق میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر‘ جسے اکثریت نے ''لینڈ مارک‘‘ کہا‘ نکتہ چینی کی مگر ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ ان کی ریاست اس کی تعمیل کرے گی۔وہ دونوں اپنی اپنی امریکی ریاستوں میں پیدا ہوئے تھے اور اعلیٰ تعلیم پائی۔اب مسیحی ہیں اور ان کے نصف اول یا دوم سفید امریکی۔
مسٹر فراخان ‘ نیشن آف اسلام کے بانی‘ الائجامحمد کے شاگرد ہیں۔ محمد کا ایک بیٹا بھی تھا جس نے مذہبی تعلیم حاصل کی اور سعودی عرب نے انہیں امریکی مساجد اورمستحقین میں رقوم کی تقسیم کیلئے '' امین‘‘ مقر رکیا۔ انہوں نے باپ کے ورثے کو کئی نام دیے اور رفتہ رفتہ اسے ایک فرقہ وار جماعت بنا دیا۔ 2008ء میں وارث دین محمد کی وفات پر یہ جماعت دوسری دینی تنظیموں میں ضم ہو گئی مگر ''نیشن‘‘ برقرار اور فراخان اس کے سربراہ رہے۔ ان کا موقف تھا کہ امریکی مسلمانوں کو امریکی مسائل در پیش ہیں جن کے حل کے لئے انہیں اپنا تشخص قائم رکھنا چاہیے۔ 1995ء میں مسٹر فراخان نے ملین مین مارچ کی کال دی اور اجتماع میں کالے مسلمان اور مسیحی شریک ہوئے۔ ریلی کی انٹر فیتھ نوعیت کے با وصف خوش الحان فراخان نے کا رروائی کاآغاز سورہ آلِ عمران کی تلاوت سے کیا‘ جو ایتھوپیاکے عیسائی بادشاہ نجاشی کے دربار میں اوّلین مہاجرسیدنا جعفرؓ نے پڑھ کر سنائی تھی اور جس میں یہود اور مسیحی عقائد کو چیلنج کیا گیا ہے۔اس وقت کئی مسیحی لیڈر سٹیج پر تشریف فرما تھے‘ جو اب بھی فراخان کے ساتھ ہیں۔ ملک کی اکتیس کروڑ آبادی میں تیرہ فیصد سیاہ فام ہیں۔ وہ اگرچہ صدر مملکت کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج اور فوج کے جرنیل کے منصب تک پہنچے ہیں اور ہالی وڈ پر چھائے ہوئے ہیں‘ مگر ان میں قیدو بند کی شرح گوروں کی نسبت زیادہ ہے۔
یونین ٹمپل بپٹسٹ چرچ کے پادری ولی ولسن نے ایک پْر ہجوم پریس کانفرنس میں بتایا کہ منتظمین نے ہفتہ دس اکتوبر کو مال پر اجتماع کے لئے ضروری پرمٹ حاصل کر لئے ہیں۔یہ اجازت نامے نیشنل پارک سروس نے جاری کئے ہیں‘ جس نے ملین مین مارچ کے بعد حاضرین کا شمار کرنا ترک کر دیا تھا۔منتظمین کو اصرار تھا کہ انہوں نے دس لاکھ انسانوں کو مال پر لانے کا وعدہ پورا کر دکھایا جب کہ پارک سروس کے اعداد و شمار اسی ہزار تک جاتے تھے۔اس پر منتظمین اور سروس کے درمیان ایک جھگڑا پیدا ہوا‘ جس کے نتیجے میں سروس نے مجمع کی ضخامت کا رجسٹر بند کر دیا۔یہ سروس ایک وفاقی محکمہ ہے‘ جو ملک بھر میں کھلی سرکاری زمینوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔اس کے بعد پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ملین مین مارچ کی نقالی کی گئی مگر دس لاکھ کے عدد کو کوئی بھی نہ پہنچ سکا۔اس اجتماع کے دروازے ہر رنگ و نسل کے لوگوں پر کھلے ہوں گے۔
میٹرو پولیٹن افریقن میتھوڈسٹ ایپسکوپل چرچ بیس سال پہلے مارچ کا میزبان تھا‘ اور اب بھی ہے۔فراخان نے اے ایم ای چرچ کے بانیوں کو آزادی کے لئے افریقن امریکن جدوجہد کے لیڈر کہا مگر انہوں نے اعتراض کیا کہ گھرجا گھر کے راہنما نو افراد کے قاتل کو معاف کرنے کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں‘ کیونکہ پہلی بات یہ کہ '' اس نے معافی کے لئے کہا نہیں ہے۔‘‘ فراخان بولے: ''وہ سانپ ہمارے گرجا گھروں میں آ گھسا اور آپ جانے کہ ہم کیسے ہیں؟ اگر یہ آدمی کالا ہو تا اور خاص طریقے سے بال بنا کر اور کھلی پتلون میں چرچ آتا تو ہم ''دروازے پر اس سے ملے ہوتے‘‘ (یعنی روک لیتے) فراخان نے کنفیڈریٹ فلیگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پرچم سے‘ جو ہمیں انصاف نہیں دلواتا‘ وفاداری کا فائدہ کیا؟ اس سے پہلے خطیبِ بے بدل لوئی فراخان نے ایک بیان میں کہا: ''اگر روح کو اندھیرے میں چھوڑ دیا جائے تو گناہ سرزد ہوں گے‘‘ پھر انہوں نے فلسفی وکٹر ہو گو کا ایک شعر نقل کیا‘ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:انصاف کے لئے جمع ہو کر ہم روشنی کرنے کے لئے اکٹھے ہو تے ہیں۔
اس اجتماع کو ریلی برائے انصاف کا نام دیا گیا ہے۔ پادری جیمز برائنٹ کہتے ہیں: بیس سال پہلے جو لوگ اکٹھے ہوئے وہ ہمارے سیاہ فاموں کے وقار کی خاطر ایسا کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف اور مساوات کی ضرورت کہیں زیادہ ہے اور بہت سے پس منظروں کے لوگوں کو حقیقی تبدیلی درکار ہے۔ جو نسلی تفریق و امتیاز آج ہے‘ ساٹھ سال پہلے‘ جب انسانی حقوق کی تحریک شروع ہوئی‘ نہیں تھا۔ سوئے اتفاق اس سال جس طرح گورے سپاہیوں نے کالے جوانوں کو مارا اور بیشتر پولیس والے قانون کی زد سے بچ نکلے وہ اس زمانے کی تلخ یاد دلاتا ہے جب سیاہ فاموں کو درخت سے باندھ کر تکہ بوٹی کر دیا جاتا تھا۔اس قتل عام میں مسلک کا کوئی فرق نہیں۔ہر مسلک کے مسلمان اور مسیحی پکڑے جاتے ہیں۔ ان کا سیاہ فام اور مشکوک ہونا شرط ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved