بعض اوقات جب آپ کسی فرد کو کسی جرم میں سخت سزا دیں تو آپ اُسے زندگی بھر کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض معاشروں میں سخت سزائوں سے اجتناب کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کے کریمینل جسٹس کے تحت سزا پانے والا مجرم دوبارہ معاشرے کا فعال اور ذمہ دار شہری بن جائے۔ اس طرح مجرموں کو ملنے والی سزا اُنہیں اپنے ماضی پر پچھتاتے ہوئے اصلاح کا موقع دیتی ہے۔
بہرحال یہ ایک تھیوری ہے، اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے قید کی سزا کسی شخص، جس سے بعض حالات میں کوئی جرم سرزد ہو گیا تھا، کو عادی مجرم بنا دیتی ہے اور رہا ہونے کے بعد وہ جرم کے راستے پر چل نکلتا ہے؛ تاہم اس طریقے سے کم از کم امید کا ایک پہلو نکلتا ہے کہ قانون شکنی کا ارتکاب کرنے والا، خاص طور پر اگر وہ کوئی نوجوان ہو، دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ اصول کی بات بھی یہی ہے کہ جب کوئی مجرم اپنے کیے کی سزا پا لے تو اُسے بہتر راہوں پر چلنے کا موقع ملنا چاہیے۔
غلط راہوں پر چلنے والے کھلاڑیوں پر بھی اسی منطق کا اطلاق ہونا چاہیے، لیکن کچھ ریٹائرڈ کھلاڑیوں، جیسا کہ جاوید میانداد اور رمیز راجہ‘ کا موقف ہے کہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث ہونے کی پاداش میں اپنی اپنی سزائیں بھگت لینے والے سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر ہر قسم کی کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جائیں۔ یہ موقف آئی سی سی کی طرف سے ان کھلاڑیوں پر عائد کردہ پانچ سالہ پابندی، جو اب ختم ہو چکی، کے برعکس ہے۔ اس کے علاوہ یہ تینوں کھلاڑی جیل بھی بھگت چکے ہیں۔ جب معاشرے میں اتنے سارے قاتل اور اچکے کھلے عام پھر رہے ہوں‘ تو ایسے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کے حوالے سے اتنے سخت موقف، کہ اُنہیں زندگی بھر کے لیے کھیل کے میدانوں سے دور کر دیا جائے، سے منتقم مزاجی کی غمازی ہوتی ہے۔
ان مذکورہ کھلاڑیوں کے کھیل میں واپس آنے کی مخالفت کرنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملک کا نام بدنام ہوا۔ اگر انصاف کا یہی کڑا معیار ہے تو پھر آج کتنے ہی پاکستانیوں کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ بدعنوان سیاست دانوں، طالع آزما جنرلوں، سرکاری افسروں، ٹیکس چور کاروباری افراد اور نفرت اور تشدد کی کھلے عام تبلیغ کرنے والے ملاّئوں نے پاکستان کی ساکھ اُس سے کہیں زیادہ مجروح کی ہے‘ جتنی ان تین کھلاڑیوں کی وجہ سے ہوئی۔ میرے نزدیک ان تینوں کرکٹروں کے خلاف مہم دہرے رویوں، بلکہ کسی قدر منافقت کی غماز ہے۔ جب رمیز راجہ اور جاوید میانداد ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے تھے تو اُس وقت بھی میچ فکسنگ، جیسا کہ اب سپاٹ فکسنگ، کی افواہیں عروج پر تھیں۔ اگرچہ ہمارے سابق کپتانوں پر کسی غلط سرگرمی
میں ملوث ہونے کا کبھی الزام نہیں لگا‘ لیکن وہ اپنے کچھ ساتھیوں کی مشکوک سرگرمیوں سے تو واقف ہوں گے؛ چنانچہ یہ بات حیران کن ہے کہ وہ خود کو انتہائی پارسا اور نیکوکار ''مسٹر کلین‘‘ قرار دے کر دوسروں کے عیب، جس کی وہ سزا بھی بھگت چکے، معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ جانتے ہوں گے جب کوئی لڑکا گلی محلے کی کرکٹ سے نکل کر عالمی میدانوں میں قدم رکھتا ہے‘ تو اس پر مالی دبائو کس قدر ہوتا ہے۔ ان تینوں میں صرف سلمان بٹ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے، دوسرے دونوں کھلاڑی غریب ماں باپ کی اولاد ہیں۔
بہرحال یہ سب کچھ کہتے ہوئے میں ان کے جرائم کا جواز پیش نہیں کر رہا۔ یقینا سلمان بٹ اور آصف کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس کے مستحق تھے، بلکہ بٹ پر بطور کپتان زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ آصف بھی کافی عرصے سے کرکٹ کے عالمی میدانوں میں موجود تھا اور اُسے بہت کچھ علم تھا۔ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ اُسے یو اے ای کے ایئرپورٹ پر روک لیا گیا تھا‘ جب اُس سے کوئی ممنوعہ شے برآمد ہوئی تھی‘ لیکن نوجوان محمد عامر کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرنا فطری بات ہے۔ وہ بھرپور ٹیلنٹ کے ساتھ اوائل نوجوانی میں تھا‘ اور اُس کے سامنے ایک شاندار کیریئر تھا۔ کرکٹ کی بدولت وہ اُس افلاس زدہ ماحول، جس میں اُس نے آنکھ کھولی تھی، سے دور ہو رہا تھا۔ اس لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ جب اُس کے کپتان نے اُسے کہا ہو گا کہ وہ جان بوجھ کر کچھ نو بال کرائے تو اُس نے اپنے کپتان کو ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا ہو گا۔
اس سے پہلے کہ ہم تقدیس کے لبادے زیب تن کرکے فیصلے صادر کرنے لگیں، ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ اگر ہم نوجوان عامر کی جگہ ہوتے تو ہم کیا کرتے۔ یاد رہے، اُسے یہ نہیں کہا جا رہا تھا کہ وہ میچ ہرا دے۔ ایک نوجوان کھلاڑی بھی جانتا تھا کہ میچ فکسنگ کتنا بڑا جرم ہے‘ لیکن اُسے چند ایک نو بال کرانے سے انکار کرتے ہوئے اپنا کیریئر دائو پر لگانا حماقت دکھائی دیا ہو گا۔ اس طرح وہ بھی اُس جال میں پھنس گیا‘ جو ایک شاطر صحافی، مظہر مجید نے سلمان بٹ کو پھانسنے کے لیے بچھایا تھا۔ اور پھر عامر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے حقیقی پچھتاوے کا اظہار کیا تھا، جبکہ دوسرے دونوں کھلاڑی عدالت میں غلط بیانی سے کام لے کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جیل سے رہائی کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں محمد عامر نے اپنے کیے پر پچھتاتے ہوئے بتایا تھا کہ اُس نے کس طرح شروع میں اس گڑھے میں گرنے سے بچنے کی کوشش کی تھی، لیکن اُس دن جو کچھ اُس نے میدان میں کیا، اُس کا کوئی جواز پیش کیا اور نہ اپنی بے گناہی کی رٹ لگائی۔ حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے عامر نے بہت زور دے کر نہیں کہا کہ اُسے لازمی طور پر قومی ٹیم میں جگہ بنانی ہے، بلکہ اُس نے نہایت عاجزانہ انداز میں کہا کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے قومی ٹیم میں آنے کی کوشش کرے گا۔ امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جسمانی فٹنس پر توجہ دے۔
اس دوران ہمیں کچھ اور باتوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک فاسٹ بالر کا کیریئر دیگر کھلاڑیوں (بلے باز، سپن بالر اور وکٹ کیپر) کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ جسمانی مسائل اُسے میدانوں سے دور کر دیں، وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما لے۔ بہرحال یہ بھی اس کے کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا جواز نہیں۔ آخر میں، ان تینوں کو کرکٹ سے دور کرنا‘ اُن سے روزی کمانے کا واحد ہنر چھیننے کے مترادف ہو گا‘ جو وہ جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے زیادہ تر افراد نے نوجوانی میں ایسے کام نہیں کیے جن پر ہمیں بعد میں پچھتانا پڑا؟ چنانچہ پہلا پتھر وہ مارے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔