گزشتہ پیر 24اگست کو اکتوبر1987ء کے بعد سٹاک مارکیٹ کا بدترین کریش ہوا۔ اسے 'سیاہ سوموار‘ قرار دیا جا رہا ہے جس نے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی کمزوری کو پھر سے عیاں کر دیا۔2008ء کے بعد اب ایک نئی عالمی کساد بازاری کاخطرہ منڈلا رہا ہے۔گزشتہ سات برسوں میں اگر کوئی معاشی بحالی ہوئی بھی ہے ، تو وہ بہت نحیف اور معیشت دانوں کے مطابق عوام کے لیے آسودگی اور نئے روزگار سے عاری ہے۔ساری دنیا کی سٹاک منڈیوں میں بہت گراوٹ دیکھنے میں آ ئی جن میں کراچی کی سٹاک مارکیٹ بھی شامل ہے جو نام نہاد ملکی معیشت پر عالمی منڈی کی جکڑ کا واضح ثبوت ہے۔پیر کے دن کے ایس ای انڈیکس 1,419پوائنٹس یا4.11فیصد نیچے گر کے33,100پر آ گیا اور اس عمل میں کارپوریٹ پاکستان کے270ارب روپے ہوا میں اڑ گئے۔
سٹاک مارکیٹ کے جواریوں کے لیے یہ خاصا برا دن تھا کیونکہ لٹے ہوئے مال کی واپسی کے امکانات معدوم ہیں۔ بینکنگ کمپنیوں، سیمنٹ اور کیمیکل سمیت ہر شعبے کے سٹاک گر رہے تھے ، بیوپاری خوف زدہ اور پریشان، اور ایس سی انڈیکس کے 100شیئرز میں سے بیشتر اپنی کم ترین 'لوئر سرکٹ‘ قیمت تک گر گئے۔یہ کراچی سٹاک ایکس چینج کی تاریخ میں ایک دن میں ہونے والی سب سے بڑی گراوٹ تھی‘ جو پیر کے روز دنیا بھر میں ہونے والی سرمائے کی بڑے پیمانے کی گراوٹ کا شاخسانہ تھا۔ اس بربادی میں بھی کراچی کے سٹاک بروکر سرمایہ کاروں کو گھیرنے کی کوشش میں یہ کہہ رہے تھے کہ ''جب بازار میں مندی ہو تو یہ مال خریدنے کا وقت ہوتا ہے‘‘۔
کنسلٹنسی کیپیٹل اکنامکس کے چیف گلوبل اکانومسٹ جولیان جیسپ کے مطابق :''اس گراوٹ کا ماخذ بنیادی طور پر چین ہے‘‘۔2013 ء میں چین کی 'کمیونسٹ پارٹی‘ کے اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا کہ ''وسائل کی تقسیم میں منڈی کی قوتوں کو 'فیصلہ کن کردار‘ ادا کرنے دیا جائے گا‘‘۔ چینی حکومت نے سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے قواعد و ضوابط خاصے نرم کر دیے ، خصوصاً مارجن ٹریڈنگ کے لیے جو اپنی بچت کی بجائے قرض کے پیسے سے سٹاک خریدنے کا ایک خطر ناک طریقہ ہے۔قواعد و ضوابط میں یہ نرمی چینی حکومت کی وسیع البنیاد اور طویل مدتی معاشی لبرلائیزیشن کے لائحہ عمل کا حصہ ہے جس کا مقصد قوانین کو اب چین کی معیشت پر غالب سرمایہ دارانہ رشتوں کی حقیقت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ چینی حکومت اندرونی کھپت کو بڑھا کر معاشی بحران سے، جو سرمایہ داری میں زائد پیداوار کا بحران ہے، نکلنا چاہ رہی ہے۔اسی غرض سے لو گوں کے لیے قرضہ لینا اور سٹے بازی کو آسان بنایا گیا ہے۔
مالیاتی بحران کی حقیقی وجہ زائد پیداوار کا بحران ہے، جس میں چین کی معاشی ترقی کا اہم کردار ہے۔چند ہاتھوں میں بہت زیادہ دولت اور پیداواری صلاحیت مرتکز ہو چکی ہے، اس کے نتیجے میں باقی عوام کے پاس اتنے پیسے اور قوتِ خرید نہیں جس سے اس تمام پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے۔سرمایہ داری کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں‘ اور نہ ہی اس سے بچا جا سکتا ہے‘ لیکن جس عالمی پیمانے پر یہ بحران رونما ہوا ہے‘ چین کی مرکزیت اس میں ایک نیا عامل (فیکٹر) ہے۔بیجنگ حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کی پریشانی کو دور یا کم کرنے اور چینی معیشت میں عالمی اعتماد کو بڑھانے کی کوششوں کے باوجود گزشتہ کئی ہفتوں سے چینی سٹاک مارکیٹ تیزی سے گرتی چلی جا رہی ہے۔ جون کے وسط تک بارہ ماہ کے دوران چین میں شیئرز150فیصد اوپر گئے جس کی بنیادی وجہ انفرادی سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی منڈی میں سرمایہ کاری تھی جو اکثرقرض پر مبنی تھی۔ سات برسوں میں بلند ترین سطح کے بعد شیئرز کی غیر حقیقی مالیت اور معاشی سست روی کے آثار کے انتباہ میں یہ سارا سلسلہ اچانک رک گیا۔ ''سیاہ سوموار‘‘ کو ہونے والی گراوٹ کے بعد اب چین کی سٹاک مارکیٹ میں اس سال ہونے والا تمام اضافہ واپس ہو چکا ہے۔رواں ماہ کے دوران چینی کرنسی یوان کی قدر گھٹانے کے حیران کن اقدام سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے بارے خدشات مزید گہرے ہو گئے۔چینی معیشت نہ صرف ایک بیمار عالمی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے بلکہ خود بھی قرضے اور دوسرے کئی امراض کا شکار ہے۔چین میں قرض کا حجم جی ڈی پی کا250فیصد ہے جومنصوبہ بند معیشت (1949-78ء)میں صفر تھا۔
چین کے ساتھ ساری دنیا کی سٹاک منڈیاں گرتی چلی گئیں، امریکہ میں ڈا ئو ابتدائی چند منٹوں میں ہی 1,089پوانٹس گر گیا۔ لندن میں ایف ٹی ایس ای100میں74ارب پائونڈ کی کمی آئی۔ایشیا میں سٹاک اسی طرح سے گرتے چلے گئے۔11اگست کو چین کے جانب سے کرنسی کی قدر گھٹانے کے غیر متوقع فیصلے کے بعد سے اب تک عالمی سرمائے میں5کھرب ڈالر کی کمی آ چکی ہے۔ تیل کی قیمت 40ڈالر فی بیرل سے کم ہونے سے تیل اور گیس کے بڑے سٹاک خطرے کے نشان سے نیچے جا چکے ہیں۔دنیا میں خام مال کے سب سے بڑے صارف (چین) میں طلب میں کمی کے آثار کی بنا پر تیل اور تانبے جیسی اجناس کی قیمت بھی کئی برسوں کی کم ترین سطح تک گر چکی ہے۔ایشیا کی 'ابھرتی معیشتوں‘ کی کرنسیاں بھی کمزور ہوئی ہیں کیونکہ سرمایہ کاروں کے نزدیک وہ غیر محفوظ ہو چکی ہیں؛ تاہم سونے اور کچھ حکومتی بانڈوں کی طلب برقرار ہے جنہیں برے حالات میں محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔
سٹاک مارکیٹوں کی حالیہ گراوٹ امریکہ میں لیمن برادرز بینک کے انہدام کے وقت ہونے والے واقعات سے خاصی مماثلت رکھتی ہے۔ یورپی انڈیکس ایف ٹی ایس ای300میں 2008ء کے بعد ایک دن میں ہونے والی یہ سب سے بڑی یعنی5.4فیصد کی گراوٹ تھی۔ شنگھائی کمپوزیٹ انڈیکس میںپیر کو 8.5فیصد کی کمی ہوئی، جو فروری2007ء کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے۔سنجیدہ معیشت دانوں کی اکثریت پریشان اور نا امید ہے۔گارڈین کے مطابق ''چین میں معاشی سست روی سرمایہ کاروں کو پریشان کرنے والے عوامل میںسے صرف ایک عامل ہے، جن میں یورو زون میں مسلسل سیاسی مسائل، عالمی معاشی بحالی کی کمزوری اور برازیل جیسی کمزور ابھرتی معیشتوں میں سے بڑی مالیت کے سرمائے کا اخراج شامل ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ پالیسی سازوں کے پاس انہیں حل کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں‘‘۔ بہت سے ماہرین کی رائے میں یہ کیفیت کہیں زیادہ بد تر ہو سکتی ہے۔امریکہ کے سابق وزیرِ خزانہ لیری سمرز نے شرحِ سود میں اضافے کی بجائے مالیاتی پالیسی میں نرمی کا عندیہ دیا ہے۔
شرح سود پہلے کی ریکارڈ کم سطح پر ہے اور مرکزی بینک کئی سالوں سے نوٹ چھاپ رہے ہیں جو کئی ماہرین کی رائے میں حالیہ مسائل کی وجہ ہے؛ چنانچہ اس مرتبہ عالمی معیشت کو بحران سے نکالنے کے زیادہ راستے موجود نہیں ہیں۔ایچ ایس بی سی کے ماہر معیشت سٹیفن کنگ نے مئی میں انتباہ کیا تھا کہ : ''عالمی معیشت ایک بحری جہاز ہے جس میں ہنگامی حالت میں جان بچانے والی کشتیاں موجود نہیں‘‘۔ سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون کے مشیر ڈیمیئن میک برائڈ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ''آنے والے بحران کے لیے مشورہ: ابھی سے نقدی کسی محفوظ مقام پر رکھ دو، یہ مت فرض کرو کہ بینک اور کیش پوائنٹ کھلے ہوں گے، یا بینک کارڈ کام کریں گے‘‘۔
سٹاک مارکیٹ میں ہیجانی اتار چڑھائو بیماری نہیں بلکہ گلتے سڑتے سرمایہ دارانہ نظام کی علامات ہیں۔بعض اوقات سٹاک بہت اوپر جا رہے ہوتے ہیں جب کہ حقیقی معیشت برباد ہوتی ہے۔منڈی کی اندھی قوتوں کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔ زمین سے لے کر انفو ٹیک، ہر چیز پر سٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی ہوتی ہے اور سرمایہ کاروں کے بدلتے موڈ اور افواہوں کی بنا پر پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیات تباہ کن واقعات کو جنم دے سکتی ہیں۔ بڑھتے ہوئے بحران میں سٹہ باز شیئرز اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بلبلے جنم لیتے ہیں ، جس کی ایک مثال پراپرٹی کا بلبلہ تھا۔ایک مرحلے پر جا کر یہ پھٹ جاتے ہیں جس سے معاشی زوال، کساد بازاری اور مالیاتی انہدام جنم لیتے ہیں۔اس عمل کی رفتار اور شدت اب بہت بڑھ چکی ہے جو بطور عالمی نظام سرمایہ داری کی شکستگی کا ثبوت ہے۔سٹاک مارکیٹ کا کریش عالمی سرمایہ داری کی بیماری اور اس کے نامیاتی بحران کا اظہار ہے ۔ یہ بیورو کریٹک احکامات یا ریاستوں کی جانب سے بحرانوں پر 'پابندی‘ لگانے سے حل نہیں ہو سکتا۔اس کا خاتمہ صرف اور صرف دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جمع بے پناہ دولت کو ضبط کرنا ہے، تاکہ محنت کش طبقہ شعوری اور جمہوری منصوبہ بندی کے تحت‘ اس تمام دولت کو سماج کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر سکے۔