ایک خاتون لکھتی ہیں کہ 20 سال تک اپنی ساس کے ساتھ میرے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔ اس کے بعد ہماری ملاقات ہو گئی۔ شاعر احمد ساقی کے ساتھ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ کوئی پچیس تیس برس پہلے جب گورنمنٹ کالج پتوکی میں تعینات تھے تو ہم اوکاڑہ سے وہاں مشاعرہ پڑھنے جایا کرتے تھے جبکہ غائبانہ تعلق پھربھی برقرار رہا۔ یہ تو کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے کہ محبی علی اکبرناطق نے جن کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہے، اسلام آباد سے مجھے فون کیا کہ ان کی زبردست خواہش ہے کہ اوکاڑہ میں میرے ساتھ ایک یادگار شام منائی جائے‘ جس میں کشورناہید اور دیگر اہم لوگ بھی شامل ہوں۔ میں نے اسے کہا کہ اب میں اس عمر میں اپنی شام منواتا کچھ اچھا لگوں گا۔ تم یوں کرو کہ ظفراقبال کے ساتھ چائے کیلئے شام کا اہتمام کرلو، میرا اس میں شامل ہونا کیا ضروری ہے کہ اس طرح لوگوں کو میرے بارے کھل کر بات کرنے کا موقع ملے گا لیکن وہ نہ مانا۔ چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا، میں بھی اوکاڑہ پہنچ گیا جہاں مسعود احمد کوہمارا میزبان ہونا تھا۔ مسعود احمد اور احمد ساقی کے درمیان کوئی شکررنجی چلی آ رہی تھی، تاہم وہ خود صاحب موصوف کے پاس جا پہنچے جہاں وہ ایک کالج کے پرنسپل تھے۔ لیکن انہوں نے یہ دعوت نہ صرف یہ کہ قبول نہ کی بلکہ ایک اور بہت اچھے شاعر کاشف مجید کو بھی آنے سے روک دیا جو ان کے ماتحت تھے۔ تقریب تو خیر ہوگئی لیکن احمد ساقی کا یہ رویہ مایوس کن تھا، میرے لئے بھی اور دونوں دیگر میزبانوں کے لئے بھی۔ چنانچہ ہم اسی انتظار میں تھے کہ ان کا یہ حساب برابر کرنے کا موقع ہمیں کب ملتا ہے۔
خدا مسبب الاسباب ہے۔ اگلے روز موصوف کا خود ہی فون آ گیا کہ میری کتاب چھپ گئی ہے، اگر اجازت ہو تو بھجوا دوں؟ میں نے کہا ضرور (تمہارے منہ میں گھی شکر) چنانچہ دو دن کے بعد ''کھنکتی خاک‘‘ کے نام سے ان کا مجموعہ کلام موصول ہوا تو جیسے سوکھے دھانوں پانی پڑا اور اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی کہ موصول کو بتایا جائے کہ ایک شریف آدمی کی تقریب کا بائیکاٹ کس طرح کیا جاتا ہے۔ نیک کام میں چونکہ دیر نہیں کرنی چاہیے‘ اسی لئے باقی سارے کام چھوڑ کر اس کارخیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ کتاب پر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر خورشید رضوی، عباس تابش اور قمر رضا شہزاد کی توصیفی آراء بڑے زوروں سے موجود تھیں۔ لیکن ہم ان سے ذرا بھی مرعوب نہیں ہوئے کہ یہ حضرات تو ہر کسی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے کیلئے ہر وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ کتاب کا انتساب طوعاً و کرہاً پسند کرنا پڑا جو اس طرح سے تھا...
اپنی شریک رنج و راحت کے نام جس نے ہمیشہ مجھے خوش رکھنے کی کوشش کی۔
ایک بار پھر ملی تو بصد شوق و افتخار
ہم وہ بھی تیرے ساتھ گزاریں گے زندگی
یہی سوچا کہ ایک غلط آدمی غلطی سے کوئی اچھا کام بھی کرسکتا ہے۔ اس کے بعد مٹھیاں بھینچ کر اوراللہ کا نام لے کر ایک نفرت بھری نظر سے کتاب پڑھنا شروع کردی۔ شروع شروع میں دو تین اشعار پر بھاری دل کے ساتھ پسندیدگی کا نشان بھی یہ سوچ کر لگانا پڑا کہ کوئی بات نہیں، کتاب میں چند شعر نکل بھی آئیں تو کونسی بڑی بات ہے۔ لیکن مایوسی تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھی کیونکہ خلاف توقع بلکہ خلاف خواہش اچھے اشعار نکلتے ہی چلے آ رہے تھے۔ پہلے تو یہی خیال گزرا کہ اس نے یہ کتاب کسی سے لکھوائی ہے کیونکہ اتنی اچھی شاعری کم از کم احمد ساقی تو نہیں کرسکتا۔ خیال تو یہی تھا کہ اس کے ایسے بخیے ادھیڑوں گا کہ مسعود
احمد اورعلی اکبرناطق بھی خوش ہو جائیں گے اور محسوس کریں گے کہ ان کی پوری پوری حق رسی ہوگئی ہے اور وہ داد بھی دیں گے کہ تلافی ٔ مافات اسے کہتے ہیں، لیکن اب ان سے بھی یہی کہوں گاکہ دل چھوٹا نہ کریں۔ اللہ میاں ایسا کوئی پُرسعادت موقع پھر فراہم کریں گے کہ آخر احمد ساقی نے خراب شاعری بھی تو کرنی ہے جیسے کہ ہر شاعر کرتا ہے اور میری روشن مثال سب کے سامنے ہے۔ یار زندہ صحبت باقی، دنیا امید پر قائم ہے اور مایوس ہونا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی بقول ناصر کاظمی ؎
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
موصوف نے کتاب کے ٹائٹل پر بھی اپنے نام کے سامنے پروفیسر کا لاحقہ لگا کر رکھا ہے جس پر بھی اچھی خاصی تنقید کی جاسکتی تھی لیکن یہ مبارک کام بھی آئندہ کسی موقع کیلئے اٹھا رکھتے ہیں کہ اللہ میاں اپنے نیک بندوں کی امیدوں پر پانی نہیں پھیرتے، تاہم الیکام پبلشرز اوکاڑہ نے اگر یہ کتاب چھاپ ہی دی ہے تو ان سے توقع ہے کہ وہ مصنف کی بُری کتاب بھی ضرور چھاپیں گے۔ چنانچہ جن اشعار پر نہ چاہتے ہوئے بھی نشانات لگائے تھے، دل پر پتھر رکھ کر قارئین کے متھے مار رہے ہیں، اللہ معاف کرے۔
میری زندگی تو یوں کھڑے کھڑے ہی کٹ گئی
بیٹھنے دیا گیا نہ راستا دیا گیا
پشتے میں باندھتا رہا اپنے وجود پر
لیکن مرے بدن کی کٹائی نہیں گئی
پرانے ساحلوں پر اس لئے آتا ہوں میں ہر روز
کسی بوڑھے سفینے کو سمندر سے نکلنا ہے
یہ کیسی تیرگی پھیلی ہوئی ہے
میں کیسی روشنی میں آ گیا ہوں
کون کہتا ہے کہ تصویریں ہوئی ہیں معدوم
اب یہ دیوار کے پیچھے ہیں جو دیوار پہ تھیں
عید کے چاند کا اعلان ہوا تھا جس دم
اس گھڑی آنکھیں مری سامنے دیوار پہ تھیں
حوصلہ دیکھیے دیوار کا احمد
کس طرح ہوئے وہ مسمار کھڑی ہے
جن کو میں توڑ کے بت خانے میں پھینک آیا تھا
وہی پتھر مرے کعبے سے نکل آئے ہیں
گر رہا ہے جسم کا ملبہ مسلسل
اب مکیں جانے لگا ہے اس مکاں سے
میں تیری دسترس و اختیار میں ہوں فقط
وہیں پہ رکھ مجھے تیری جہاں ضرورت ہے
کارہجرت بھی تو سرکار نہیں ہے بس میں
اب تو مجھ سے مرا سامان سفر اٹھتا نہیں
یہاں کوتاہ قد لوگوں نے اپنے
سروں پر آسماں باندھے ہوئے ہیں
ہماری دھوپ کے باعث یہاں پر
ہر اک دیوار کے سائے ہوئے ہیں
اسی لئے تو وہ اب تک تری گرفت میں ہے
ترے بدن سے جو دامن چرا کے نکلا تھا
یہ لفظوں میں بیاں ہوتی کہاں ہے
محبت کی زباں ہوتی کہاں ہے
باپ کا دیوار سے اونچا نہیں تھا حوصلہ
صحن میں دیوار کی تعمیرتک زندہ رہا
سفر میں پیاس کی شیرازہ بندی کرتا ہوں میں
مجھے معلوم ہے رستے میں دریا آنے والا ہے
ہمیں کیا دھوپ سے لڑنا سکھاتا
کسی کی چھائوں میں بیٹھا ہوا شخص
دیار غیر بھی دستک طلب ہے دیکھیے تو
ہمارا دشت بھی دیوار و در ہونے لگا ہے
دل کو مت روک جدھر جاتا ہے جانے دے اسے
اورکچھ ٹھوکریں کھائے گاسدھرجائے گا
مجھ کوبانکا گیا جب ضرورت پڑی
قرض کی طرح مجھ کو اتارا گیا
پہلے بھی کہاں اتنی بلندی پہ کھڑا ہوں
کیا مجھ کو ملے گا مجھے نظروں سے گرا کر
دھوپ میں اس لئے کھڑا ہوں میں
کوئی سایہ میری پناہ میں ہے
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں‘ ظفرؔ
کہاں سے دور ہے دنیا کہاں سے دور نہیں