دیکھتے ہی دیکھتے‘ وقت کیسے بدلتا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی معاشرے کی سوچوں‘ طرزعمل‘ طرزسیاست‘ سماجی رشتوں کی نوعیت غرض یہ کہ بہت کچھ بدل کے رکھ دیا تھا۔ وہ کروڑوں عوام کے ہیرو تھے۔ ان کے لئے لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر خود کو آگ لگائی‘ کوڑے کھائے اور ایسی اذیت ناک سزا سہتے ہوئے ‘کئی جیالے ہر کوڑے پر بھٹو کا نعرہ بھی بلند کرتے تھے۔میں نے اپنے ہوش میں‘ پاکستان کا کوئی ایسا لیڈر نہیں دیکھا‘ جس کے جیل جانے اور پھانسی لگنے پر عوام نے اس طرح ماتم کیا ہو۔ مگر یہ ڈاکٹر عاصم حسین کون ہیں؟ پیپلزپارٹی‘ ان کے لئے جنگ تک لڑنے کو تیار ہے۔ کوئی عام آدمی نہیں‘ قومی سطح کے رہنما قمرزمان کائرہ ‘اتنے غیظ و غضب میں تھے کہ انہوں نے اعلان جنگ فرما دیا ''اگر ڈاکٹر عاصم کو رہا نہ کیا گیا‘ تو پھر جنگ ہو گی۔‘‘ کاش! اتنے پُرجوش شیدائی بھٹو صاحب کے بھی ہوتے۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہ کون سے عظیم لیڈر ہیں جو گرفتاری کے بعد اچانک دریافت ہوئے کہ پیپلزپارٹی کے رہنما ہیں۔ان کے بارے میں رئوف کلاسرا جو کچھ لکھتے رہے‘ اس سے زیادہ میرے علم میں کچھ نہیں اور رئوف کلاسرا کی تحریریں پڑھ کر ‘ کم از کم مجھے تو اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ پیپلزپارٹی ‘ انہیں قید میںرکھنے پر‘ جنگ کے لئے تیار ہے اور وہ بھی پارٹی کے لیڈر آصف زرداری نہیں‘ ان کے ایک مصاحب ۔ میں نے پیپلزپارٹی کے بہت سے لیڈروں سے پوچھا کہ یہ ڈاکٹر عاصم صاحب کون ہیں اور یہ پیپلزپارٹی کے لیڈر کب بنے تھے؟ ان کے کیا کارنامے ہیں؟ پارٹی کے لئے انہوں نے کونسی خدمات انجام دی ہیں؟ اتنا ضرور سنا ہے کہ یہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنے عظیم دوست آصف زرداری جیسی شہرت پائی۔ خود زرداری بھی برسوں جیلوں میں رہے‘ مگر ان کے لئے بھی پیپلزپارٹی کے کسی لیڈر نے اعلان جنگ نہیں کیا۔ مجھے واقعی اپنی لاعلمی پر افسوس ہوا کہ اتنی بڑی اور عظیم ہستی سے میں بے خبر کیوں رہا۔ گرفتاری سے پہلے‘ ان کے بارے میں کبھی کبھار اخبار کے کسی کونے میں ‘چھوٹی موٹی خبر دیکھنے کو مل جاتی۔ مگر اتنی اہمیت کے ساتھ نہیں کہ مجھے یاد رہ جاتی۔ ان کی کہانیاں بہت سننے میں آتی تھیں‘ مگر ان کہانیوں کو سن کر تو ایان علی جیسا کوئی کریکٹر ہی ذہن میں آتا تھا ۔
کچھ دنوں سے ڈاکٹر عاصم حسین کی خبریں پڑھ رہا ہوں اور موازنہ بھی کر رہا ہوں۔ شہرت تو موصوفہ کی بھی بہت سنی‘ لیکن میڈیا کوریج میں وہ ‘ڈاکٹر عاصم حسین سے کہیں زیادہ مقبول ثابت ہوئی۔ اس کے عدالتوں میں آنے جانے کی سرگرمیاں ‘ٹی وی چینلز سے لے کر ‘ اخباری صفحات تک نہایت نمایاں دکھائی دیتی تھیں۔ بلکہ اس کے شائقین کا ایک بہت بڑا ہجوم اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے موجود رہتا‘ جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کی خاص کوریج نظر نہیں آئی۔ بہت تھوڑا عرصہ ‘وہ عدالت میں پیشی کے لئے آتے جاتے نظر آئے۔ گلیمر بھی کوئی خاص نہیں کہ کائرہ صاحب جیسا سینئر پارٹی لیڈر‘ ان کے لئے آمادۂ جنگ ہو جائے۔ میرا خیال ہے‘ کائرہ صاحب کے اشتعال کی وجہ دہشت گردی کا الزام ہے۔ مخدوم امین فہیم پارٹی کے بہت بڑے لیڈر تھے اور انہوں نے ہر اچھے برے وقت میں پارٹی کا ساتھ بھی دیا۔ ان کے وارنٹ تک نکل گئے۔ لیکن کائرہ صاحب ‘ان پر لگائے گئے الزام سے مشتعل نہیں ہوئے۔ غصے میں تو بالکل بھی نہیں آئے۔ دوسرے مخدوم یوسف رضا صاحب بہرحال ملک کے منتخب وزیراعظم تھے۔ ان کے وارنٹ جاری ہونے پر بھی‘ کسی نے اعلان جنگ نہیں کیا۔ اور بھی بہت سے لیڈروں پر الزامات لگے ہیں مگر کوئی اس طرح آپے سے باہر نہیں ہوا جیسے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر پارٹی کے لیڈر ہوئے ہیں۔ حالانکہ نہ انہیں کسی بھی مرحلے پر پارٹی کی جدوجہد میں شامل ہوتے دیکھا‘ نہ مجھے عدالت میں ان کی آمدورفت کے موقع پر ہی شائقین اور پارٹی کارکنوں کا ہجوم نظر آیا۔ میں حیران تھا کہ جس شخصیت کو ایان علی جتنی کوریج بھی نہیں مل رہی‘ اس نے ایسے کونسے عظیم کارنامے انجام دیئے ہیں کہ جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میں جب ان دو شخصیتوں کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا تو زیادہ معلومات ایان علی کے بارے میں ملیں۔ ہمارا معاشرہ کتنا غیرسیاسی ہو گیا ہے؟ جستجو کے دوران ایک حیرت انگریز خبر یہ ملی کہ ایان علی کی وکالت پیپلزپارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کر رہے تھے۔ جب موکل کی ضمانت ہو گئی توپارٹی کے سینئر ترین لیڈر نے گائے کا صدقہ دیا‘ لیکن وہ رہائی کے فوراً ہی بعد کراچی روانہ ہو گئی اورصدقہ ہونے والی گائے کو رسماً بھی ہاتھ تک نہ لگایا۔ اس سے بھی بڑا دردناک واقعہ یہ ہوا کہ عید میں ایک دن باقی تھا اور سردار صاحب کو علم تھا کہ ان کی موکل کو عید کی خریداری کے لئے وقت نہیں ملے گا؛ چنانچہ انہوں نے مختلف سٹورز سے‘ نئے فیشن کے کپڑے منگوا کر اپنے گھر کے ایک بڑے کمرے میں شو روم کی طرح سجا دیئے۔ مگر افسوس کہ اسے کراچی جانے کی جلدی تھی۔ وہ ملبوسات کو دیکھے بغیر ہی سفر پہ نکل گئی۔ اس زمانے میں تو اپنے لیڈروں کے لئے بھی کوئی اپنا وقت اور پیسہ اس طرح برباد نہیں کرتا‘ جیسے ایان علی کے لئے کیا گیا۔ پھر یہ ڈاکٹرعاصم حسین‘ پیپلزپارٹی کے اتنے محبوب لیڈر کیسے ہو گئے کہ انہیں عدالت اور جیل جاتے ہوئے‘ وہ زبردست پذیرائی اور میڈیا کوریج نہیں ملی‘ جو مذکورہ ماڈل کو نصیب ہوئی۔
ایسا بھی نہیں کہ عاصم حسین کوئی معمولی آدمی ہیں۔ ان کے دادا ‘سر ڈاکٹر ضیاالدین احمد تھے‘ جو اپنے زمانے کی مشہور سیاسی شخصیت تھے۔ انہوں نے تعلیمی اور سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ان کا شمار سرسید احمد خان کے قریبی رفقا میں ہوتا تھا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا خاندانی پس منظر اور تعلیمی قابلیت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں‘ نمایاں حیثیت کے مالک ہوں گے‘ لیکن سراغ لگانے کے بعد بھی ان کی سماجی حیثیت کا پتہ نہیں چل سکا۔ سوائے اس کے کہ وہ جناب آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں۔ اویس مظفر ٹپی صاحب بھی ‘ان کے قریبی ہم نشینوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آج کل وہ مفرور ہیں۔کل اگر وہ بھی پکڑے گئے‘ تو امید ہے کہ ان کی میڈیا کوریج‘ ڈاکٹر عاصم سے زیادہ ہو گی۔ کیا کریں؟ آج کل ہمارے سیاسی ستارے ہی گردش میں ہیں۔ گلوبٹ تو عالمی شہرت یافتہ شخصیتوں میں آ گئے ہیں۔ سنا ہے ان کا نام آکسفورڈ ڈکشنری میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اللہ کی شان ہے‘ قائد اعظمؒ کے بنائے ہوئے پاکستان میں کیسے کیسے لائق فرزند شہرت پا رہے ہیں؟
میں پیپلزپارٹی کی طرف سے اعلان جنگ سن کر بہت پریشان ہوں۔ ایک طرف بھارتی وزیراعظم مودی نے ہماری فوج کو سرحدوں پر الجھا رکھا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی طرف سے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ داعش نے الگ اپنے پنجے پھیلانے شروع کر دیئے ہیں۔ را کے ایجنٹ ہماری جان نہیں چھوڑتے۔ اب پیپلزپارٹی نے بھی للکار دیا ہے۔ ہماری فوج ‘کس کس سے جنگ لڑے گی؟اور تو اور ہمارے سندھ کے سوسالہ ‘جواں سال وزیراعلیٰ نے بھی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے شدیدردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ''سندھ میں رینجرز کے کمانڈر میرے ماتحت ہیں‘ لیکن انہوں نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے متعلق مجھے بھی کچھ نہیں بتایا۔ یہ کوئی ریاست ہے یا جنگل کا قانون؟‘‘ سندھ کے سو سالہ وزیراعلیٰ نے ‘تو وزیراعظم کو بھی آنکھیں دکھا دیں اور صاف کہہ دیا کہ ''سندھ پر حملہ کیوں کیا گیا؟‘‘ وزیراعظم نے اس اچانک حملے پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہو گا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا‘ لیکن اخباری رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مجھے مزید جستجو کرنا پڑے گی کہ رینجرز نے سندھ کی اتنی بڑی ہستی پر ہاتھ ڈال دیا اور ملک کے وزیراعظم بھی ان کی گرفتاری پربے خبری کا اعلان کر رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے‘ وہ سندھ کے وزیراعلیٰ کو طیش میں دیکھ کر ڈرگئے ہوں۔کہتے ہیں کہ سیدقائم علی شاہ کو‘ کسی نے اتنے جاہ و جلال میں نہیں دیکھا‘ جس میں وہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر آئے۔ ابھی تک ایسی کوئی خبر دیکھنے میں نہیں آئی کہ رینجرز کے ڈی جی سے وزیراعلیٰ نے سختی کے ساتھ جواب طلبی کی ہو‘ مگر جتنے جاہ و جلال میں انہوں نے کل بیان دیا‘ اس سے تو یوں لگتا ہے کہ رینجرز والوں کی بھی خیر نہیں۔ میں دو تین گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد ‘ڈاکٹر عاصم کے سیاسی مقام و مرتبے کے بارے میں پوری طرح نہیں جان سکا۔ آپ جانتے ہیں کالم کے لئے زیادہ وقت نہیں ہوتا‘ مگر میں رات کو بیٹھ کر انٹرنیٹ پر سراغ لگائوں گا کہ شاید ڈاکٹر عاصم کے سیاسی مقام و مرتبے کا پتہ چل جائے۔ ''وکی پیڈیا ‘‘ تو میں دیکھ چکا ہوں‘ اس میں ڈاکٹر عاصم کے سیاسی مقام و مرتبے کا خصوصی ذکر نہیں ہے۔ ایان علی میں مجھے خاص دلچسپی نہیں ۔ ضرورت پڑی‘ تو سردار لطیف کھوسہ صاحب سے پوچھ لوں گا۔ ڈر صرف یہ ہے کہ سردار صاحب ‘اسے اپنے نجی معاملات میں مداخلت نہ سمجھ لیں۔