پاکستان انشاء اللہ سرخرو ہوگا۔ وقت کا دھارا اس کے حق میں بہہ رہا ہے۔
سوزن رائس پاکستان تشریف لا رہی ہیں۔ دو ایٹمی ملکوں میں کشیدگی پر ایک عالم پریشان ہے۔ وہ زمانے گزر گئے‘ جب ہندوستان میں سکھ اور مرہٹے تاخت و تاراج کرتے پھر رہے تھے اور امریکی عوام نئی آزادی کا لطف اٹھا رہے تھے۔ برصغیر غلامی کی زنجیریں پہن رہا تھا اور ترک افواج آسٹریا اور ہنگری میں فتح کے علم لہرا رہی تھیں۔ آج تمام کرۂ ارض کی تجارت اور صنعت باہم جڑی ہے۔ شنگھائی کا سٹاک ایکسچینج گرتا ہے تو کراچی سے نیویارک تک بہت سے زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ یوکرائن میں جنگ چھڑتی ہے تو مغرب کو توانائی کے قحط کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ اس ماحول میں بھارتی قیادت ایک عجیب کھیل کھیلنے کی کوشش میں ہے۔
نریندر مودی نے حال ہی میں جتنے بھی غیرملکی سفر کیے‘ ان کا ہدف پاکستان تھا۔ یہ اڑھائی ہزار پہلے کے تخریب کار مفکر چانکیہ کا فلسفہ ہے: دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے اور دشمن کا پڑوسی بھی۔ ہمسایے کے باب میں چانکیہ کا مشورہ یہ ہے کہ اسے کبھی چین سے رہنے نہ دیا جائے۔ ایک کے بعد اس کے لیے دوسرا مسئلہ تخلیق کرتے رہنا چاہیے۔ چینی مدبر چواین لائی کا کہنا تھا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو چانکیہ کی کتاب کا ایک نسخہ سرہانے رکھا کرتے۔ زندگی اور انسانوں کو یہ کتاب یکسر منفی انداز میں دیکھتی ہے‘ خاص طور پر سیاست میں۔ چانکیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کارِ سیاست میں جوڑ توڑ اور سازش ہی سب کچھ ہے۔ غلبے کی انسانی جبلت کو وہ حتمی سمجھتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ ہمسایہ ملک میں اگر استحکام ہو‘ اس کی فوج اگر منظم ہو اور معیشت فروغ پاتی ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ بھارتی سیاستدانوں کے لیے یہ کتاب بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ ہزار سالہ غلامی نے بھارتی سماج کو قوم پرستی کا ولولہ بخشا ہے۔ مگر اس کی کوکھ شکوک و شبہات‘ نفرت اور اندیشوں سے بھر دی ہے۔
شک اور سوال اچھی چیز ہے۔ اس کے بغیر آدمی سطحی زندگیاں جیتے‘ تجسس ان کا ادھورا ہوتا اور وہ دوسری جہات نہ دیکھ سکتے۔ انسانی زندگی کا تنوع بے مثال ہے۔ معاشروں میں ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ تاریخی تجربات کو ملحوظ رکھا جائے تو دو سبق حاصل ہوتے ہیں۔ حیات کو اس کی رنگارنگی کے ساتھ گوارا کرنا چاہیے۔ ثانیاً‘ مختلف اور متحارب گروہوں کے درمیان قانون کی بالاتری‘ عدل اور بے تعصبی سے توازن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمسایہ داری کے اصول ہیں اور عالمی سیاست کے بھی۔ جیو اور جینے دو۔ قرآن کہتا ہے: کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے۔
کتاب یہ بھی کہتی ہے کہ انسان بہرحال باہمی عداوت کا شکار ہوں گے۔ جو آزمائشیں مقدر کر دی گئیں‘ یہ ان میں سے ایک ہے۔ کتاب کہتی ہے: ''تمام زندگیوں کو ہم نے نخلِ جان پر جمع کیا‘‘۔ زندگی اپنی حفاظت کے لیے بہت ہی ضدی ہوتی ہے۔ آدم زاد کا مسئلہ غلبے کی آرزو سے بڑھتا ہے‘ عناد کے سبب جب اس میں انتقام کی خُو شامل ہو جائے تو وہ وحشت میں ڈھلتی اور خوں ریزی پہ اکساتی ہے۔ بھارت کا مسئلہ یہی ہے۔ افراد اور اقوام ناکامی کا شکار ہوں تو خودترسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ خرابی کے اسباب داخل کی بجائے‘ وہ خارج میں تلاش کرتے ہیں۔ کوئی کسی کی ناکامی کا ذمہ دار ہوتا ہے اور نہ ظفرمندی کا ذریعہ۔ ایک ہزار سال پہلے کا بھارت بٹا ہوا تھا‘ خودشکنی کا شکار‘ عام آدمی ظلم کا شکار۔ پڑوسیوں کے بارے میں بدگمانی کا شکار۔ اگر وہ متحد ہوتے۔ آدھی آبادی کو شودر بنا کر نہ رکھتے۔ اگر ایک ہزار برس پہلے لاہور کا ہندو حاکم آنند پال‘ اگر غزنی کی سلطنت پہ پیہم یلغار نہ کیا کرتا تو ہند پر غلامی کا دروازہ بھی شاید نہ کھلتا۔
اسلام سے بھارت کی نفرت کے اور بھی اسباب ہیں۔ ہر وہ مذہب جو ہندوستان تک پہنچا‘ بالآخر ہندو مت کا حصہ ہو گیا۔ بدھ مت تحلیل ہو گیا‘ جین مت الگ سے پہچانا نہیں جاتا۔ سکھوں کو بھی اکثر رام کر لیا گیا۔ اسلام کا معاملہ مختلف تھا۔ اس میں کوئی شخصیات نہ تھیں‘ جن کے بت بنائے جا سکتے۔ کوئی مائی تھالوجی تخلیق کی جا سکتی۔ اس میں توحید کا تصور اتنا گہرا تھا کہ اسے الگ ہی رہنا تھا۔ وہ مائع نہ تھا کہ ایک نیا رنگ شامل کر کے ندی کے خروش میں تحلیل ہو جاتا۔ لکڑی اور لوہے کی طرح اس کا وجود برقرار رہنا تھا۔
ہندو لیڈروں کے دل پر یہی ایک زخم نہیں کہ سات صدیوں تک مسلمانوں نے ان پر حکومت کی بلکہ یہ بھی کہ ان کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہو گیا۔ اسی لیے وہ شمشیر کی طاقت کا رونا روتے ہیں؛ حالانکہ خلق خدا صوفیا کے سبب مسلمان ہوئی۔ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری سے لے کر اورنگزیب عالمگیر تک‘ کسی حکمران کی وجہ سے کم ہی کسی نے اسلام قبول کیا۔ ٹیپو سلطان ایک استثنیٰ ہے۔ اس قدر انصاف پسند‘ ایسا ایثار کیش اور ایسا نرم خو کہ ہزاروں لوگوں نے اپنے سلطان کا عقیدہ اختیار کر لیا۔ وہ بھی ایک طرح کا صوفی تھا۔
بھارت کے باطن میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ہندو لیڈروں اور دانشوروں نے پیہم اسے بھڑکائے رکھا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے بھارتی اخبارات دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔ چیخ چیخ کر وہ کہتے ہیں کہ سرحدوں پر اشتعال انگیزی پاکستان کے طفیل ہے۔ پاکستان کیوں ایسا کرے گا؟ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں اسے تخریب کاروں کا سامنا ہے‘ بھارت جن کا مددگار ہے۔ پاکستان جنگ کی آرزو کیوں کرے گا۔ اعدادو شمار سے بھی آشکار یہی ہے‘ صرف سیالکوٹ کی سرحد پر 70 سے زیادہ افراد زخمی اور 11 شہید ہو چکے۔ جنرل راحیل شریف کے الفاظ میں بھارت‘ حد سے گزر گیا۔ پاکستانی فوج کو وہ پست کرنا چاہتا ہے۔ مذہبی جنونیوں سے تیرہ سالہ جنگ نے جسے بہترین فوج بنا دیا ہے اور دنیا بھر میں اس کی تحسین ہے۔ جو ایک عظیم قوت بن کر ابھری ہے اور قومی سلامتی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ پاک فوج خاموش رہے تو بزدلی کا طعنہ سنے‘ جنگ پر آمادہ ہو تو جارح کہلائے۔ بھارت ایک محدود جنگ کا آرزو مند ہے۔ خدانخواستہ اس کا بس چلا تو اس جنگ میں وہ چین سے پاکستان کا زمینی رابطہ کاٹنے کی کوشش کرے گا۔ برہمن کی خواہش ہوگی کہ شمالی علاقوں کو روند کر ازبکستان یعنی وسطی ایشیا کا پڑوسی بن جائے۔ عشروں تک اس کی حکمت عملی یہ رہی کہ راجستھان سے حملہ کر کے کراچی اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو پاکستان سے الگ کردیا جائے۔ ''جناح پور‘‘ اسی کا شاخسانہ تھا۔ یہ ''را‘‘ کا منصوبہ تھا‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جسے اعتماد بخشا‘ جس کے بعد سندھی قوم پرستوں اور کراچی کے تخریب کاروں کو بھارت نے عسکری تربیت دی۔ اب بھی دے رہا ہے۔ پختونستان کے نعرے کو بھی اس کی تائید حاصل رہی۔
پختونستان اور سندھو دیش کے نعرے تو کب کے ختم ہو چکے۔ افغانستان کو پاکستان سے صف آرا کرنے‘ کراچی اور بلوچستان کو کاٹنے کی سازشیں بھی ناکامی سے دوچار ہیں۔ مودی جنون کا شکار ہیں۔ جیسا کہ ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے کہا۔ طالبان اور فرقہ پرستوں کی مدد سے پاکستان میں شورش وہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین گئے تاکہ پاکستان سے اسے بدگمان کر سکیں۔ اکٹھے 41 عدد معاہدے۔ متحدہ عرب امارات گئے اور 75 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا پیمان۔ یمن میں یک طرفہ طور پر تائید نہ کرنے سے عرب ناخوش ہیں اور انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ اپریل میں صدر اشرف غنی کو بھی اسی لیے مدعو کیا۔ اسی غرض کے لیے مئی میں قازقستان گئے؛ حالانکہ اس سے تجارت کا حجم بہت کم ہے۔
اپنے گھوڑے تیار رکھنے کے علاوہ‘ اپنا مضبوط مقدمہ پاکستان کو عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ایک سفارتی یلغار کہ نوبت جنگ تک ہرگز نہ پہنچے۔ پروپیگنڈے کی بھرمار نہیں بلکہ دنیا کو حقائق سے آگاہ کرنے کی مہم۔
دو باتیں بنیادی ہیں۔ اوّل یہ کہ سچائی بہرحال نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جھوٹ اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ ثانیاً دنیا امن کی آرزو مند ہے۔ ایٹمی جنگ کی وہ تاب نہیں لا سکتی۔ پاکستان انشاء اللہ سرخرو ہوگا۔ وقت کا دھارا اس کے حق میں بہہ رہا ہے۔