پچھلے روز میں نے محبی جمیل یوسف کے حوالے سے اقبال ساجد کے مصرعے کا ذکر کیا تو موصوف کا فون آیا کہ انہوں نے کہا تھا کہ یہ مصرعہ ان کا ہے اور یہ غزل ''جنگ‘‘ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہو چکی ہے جس پر میں نے کہا تھا کہ اب گیند اقبال ساجد کے کورٹ میں ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے‘ بلکہ انہوں نے گول مول جواب ہی دیا تھا‘ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں اپنا موقف مجھے لکھوانا چاہتے ہیں جس پر میں نے ٹالتے ہوئے کہا کہ ابھی میں مصروف ہوں‘ فارغ ہونے پر آپ کو فون کردوں گا جو کہ میں نے ضروری نہ سمجھا۔ اس دوران انہوں نے جناب احمد نور طائر سے فون پر کہا کہ وہ ظفر اقبال کو خط لکھ کر صورت حال واضح کر دیں گے حالانکہ وہ پہلے بھی کچھ ایسی غیر واضح نہیں تھی۔ نہ ہی یہ بات اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ اسے اتنا طول دیا جاتا۔ پھر‘ اصل بات یہ ہے کہ اگر وہ مصرعہ واقعی جمیل یوسف کا تھا تو انہیں اقبال ساجد کو اس پر چیلنج کرنا چاہیے تھا جو کہ انہوں نے نہیں کیا۔ علاوہ ازیں اگر جمیل یوسف نے اقبال ساجد کا مصرعہ اُڑا بھی لیا تھا تو ایسی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ وہ جمیل یوسف کے مقابلے میں ایک بامعنی شاعر تھا۔ اہم بات تو تب ہوتی اگر اقبال ساجد جمیل یوسف کے مصرعے پر ہاتھ صاف کرتا۔
اقبال ساجد ایک دلیر ‘ مُنہ پھٹ اور بدلحاظ آدمی تھا۔ بڑے بڑوں کو اس نے چیلنج کر رکھا تھا‘ حتیٰ کہ مجھے بھی معاف نہیں کیا۔ فرماتے ہیں ؎
سمجھ میں کچھ نہیں آتا گُرو گھنٹال کیا شے ہے
کوئی بتلائو آخر یہ ظفر اقبال کیا شے ہے
سو‘ اقبال ساجد جو مجھ پر پھبتی بھی کس لیتا تھا‘ اس کے باوجود جتنا وہ تھا ‘میں اس سے انکار کیسے کر سکتا ہوں جبکہ جمیل یوسف جو بعض اوقات میری تعریف بھی کر جاتے ہیں وہ جتنے نہیں ہیں‘یہ خانہ پُری میں نہیں کر سکتا‘ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اگلے روز الیاس بابر اعوان نے میرے ادبی کالموں کے حوالے سے حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد میں مضمون پڑھا تو جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے جناب محمد حمید شاہد کے ساتھ جمیل یوسف بھی وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ مجھے یہ اس لیے بھی اچھا لگا کہ جو لوگ آپ کا نوٹس لیں یا آپ کو درخورِ اعتناء سمجھیں ‘ آپ کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ یہاں ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا بھی ایک ادبی خدمت سمجھا جاتا ہے۔
سو ہمعصروں کے درمیان محبت اور نفرت کا یہ سلسلہ چلتے رہنا چاہیے کیونکہ اختلاف رائے ہی سے ادب میں حرکت اور برکت بھی رہتی ہے ورنہ قبرستان کی خاموشی ہی سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آپ مجھے حاجی کہیں تاکہ میں آپ کو ملاّ کہہ سکوں۔ساتھ ساتھ اختلافی پھلجھڑیاں بھی چھوٹتی رہتی ہیں جو بہرحال زندگی کی علامت ہے۔ کون چھوٹا ہے اور کون بڑا‘ اس کا فیصلہ آپ کا عصر نہیں کر سکتا کیونکہ تعصبات اور لحاظ داریوں کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اصل اور حتمی صورتحال آپ کے مرنے کے پچاس سال بعد جا کر واضح ہو گی کہ آپ کتنے پانی میں ہیں کیونکہ وقت کی چھلنی میں سے چھلنے کے بعد جو کچھ باقی رہ جائے گا‘ اصل حقیقت وہی ہو گی۔ آپ کا عہدہ یا مجلسی زندگی میں آپ کی جو اہمیت ہے وہ یہیں رہ جائے گی اور دیکھا یہی جائے گا کہ کاغذ پر آپ کس حد تک زندہ یا قابل اعتناء ہیں۔
اس لیے میرے سمیت‘ کسی کو اس سلسلے میں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے‘ حتیٰ کہ کسی کی گُڈی اگر چڑھی بھی ہوئی ہے تو کل اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا‘ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا‘ اس لیے ایک تخلیق کار کو نہ صرف یہ کہ اپنے کام سے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ اپنے بارے میں شک شبے ہی میں مبتلا رہے اور انکساری اختیار کرے۔تعلّی سے پرہیز کرے اور خود تنقیدی کو شعار بنائے‘ اگرچہ اس کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ لیکن جو کام دوسروں اور وقت نے کر دینا ہے اس کی داغ بیل آپ خود کیوں نہ رکھ دیں؟
نیز یہ کہ آدمی کو زیادہ بڑھ چڑھ کر نہیں‘ بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق بات کرنی چاہیے جبکہ یہ حیثیت بنانی پڑتی ہے‘ دوسروں پر بے معنی نکتہ چینی کر کے نہیں بلکہ مثبت کام کے ذریعے اور یہ جو میں کبھی کبھی ہدایت نامہ جاری کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ بھی مناسب نہیں ہے‘ نہ ہی یہ میرا منصب ہے تاہم‘ پہلوان بوڑھا ہو جائے تو دائو بتانے سے باز بھی نہیں آتا‘ خواہ وہ دائو کتنے بھی آئوٹ آف ڈیٹ اور اور ازکا ررفتہ ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ اس بات کی پروا بیشک نہ کریں لیکن یہ نظرمیں رکھیں کہ ع
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
بات تو اقبال ساجد کے مصرعے سے شروع ہوئی تھی حالانکہ ایک دوسرے پر کھینچا مارنا آجکل کچھ زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے ستم رسیدہ مصرعوں‘ اشعار‘ حتیٰ کہ ایک ناول کے حوالے سے بھی پہلے بات ہو چکی ہے‘ چنانچہ اب ایک مضمون یا تبصرے کے حوالے سے بھی ہو جائے۔ محیط اسمٰعیل اگلے روز بتا رہے تھے کہ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ڈاکٹر انور سدید روزنامہ ''خبریں‘‘کے ادبی ایڈیشن کے انچارج ہوا کرتے تھے ۔ انہوں نے منصورہ احمد کی کتاب ''طلوع‘‘ پر تبصرہ لکھ کر بھیجا جو موصوف کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اپنے نام سے چھاپ لیا۔ محیط نے شور مچایا تو ایڈیٹر کو اگلے ایڈیشن میں معذرت شائع کرنا پڑی۔ دروغ برگر دنِ راوی‘ اور یہ معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے‘ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک روز فارسی کے معروف شاعر انوری بازار کی طرف نکلے تو ایک جگہ لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ قریب گئے تو دیکھا کہ ایک شخص مجمع میں ان کا کلام پیش کر رہا ہے۔ انوری نے حاضرین میں سے ایک سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے‘ تو اسے جواب ملا کہ یہ اپنا نام انوری بتاتا ہے۔ انوری لکھتے ہیں کہ شعر چورسُنا تھا ‘ شاعر چور آج دیکھ بھی لیا! اس لیے برادرم جمیل یوسف کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اقبال ساجد اس مصرعے کے بغیر بھی ایک صاحب طرز اور مسلمہ شاعر ہے اور آپ اس مصرعے کے ہوتے ہوئے بھی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے اوربقول ہمارے دوست پروفیسر مظفربخاری‘ گستاخی معاف۔
تاہم‘ اس تمام تر دماغ سوزی کے باوجود ہر طرف دو نمبری کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اگر دو نمبر شاعر کثرت سے ہیں تو اتنی ہی کثرت سے انہیں دو نمبر قارئین بھی دستیاب ہیں۔ اسی طرح دو نمبر مزاح‘ دو نمبر فکشن اور دو نمبر ٹی وی شوز کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اور ‘ لطیفہ یہ ہے کہ دو نمبر مال کو ایک نمبر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ایک نمبر کے لیے یہ دوہری مصیبت ہے کہ نہ تو وہ خود دو نمبر بن سکتا ہے اور نہ ہی دو نمبر کے ہجوم میں کچھ زیادہ پہچانا جاتا ہے‘ یعنی ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں
آج کا مقطع
یہ روز روز کی الجھن تو ختم ہوگی‘ ظفرؔ
جواب کچھ تو ملے گا‘ سوال کر لینا