تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     30-08-2015

والدین کی ذمہ داری

اولاد انسان کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اولاد کی قدر صحیح معنوں میں وہ لوگ پہچانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم ہیں۔ اولاد کی عدم موجودگی میں گھر ویران ہو جاتا ہے اور اولاد کی وجہ سے گھر میں رونق اور بہار آجاتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر اولاد سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں ۔ اولاد کو بہتر مستقبل کی علامت اور بڑھاپے کا سہارا تصور کیا جاتا ہے ۔ والدین کے اولاد پر بہت زیادہ احسانات ہوتے ہیں اور ان کو اولاد سے اچھی امیدیں اور توقعات وابستہ کرنے کا حق بھی ہے ۔ لیکن ان توقعات کی تکمیل کے لیے والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہوگا ۔ دور حاضر کے والدین اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہ احساس نہیں کرتے‘ ان کی غفلت کی وجہ سے جب اولاد ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو اس وقت ان کو کف افسوس ملنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اولاد کی مثال پیدائش سے قبل بیج اور پیدائش کے بعد پودے جیسی ہے۔ پودے کی جتنی زیادہ رکھوالی کی جائے گی وہ اتنا ہی زیادہ تناور درخت کی شکل اختیار کرے گا اور کاشت کاری کرنے والا اس شجرِ سایہ دار کی چھاؤں سے تادیر مستفید ہوتا رہے گا ۔ 
اولاد کی ولادت سے قبل ہی والدین کو ان کے بارے میں نیک تمنائیں رکھنی چاہئیں۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ اور حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ ان تمام ہستیوں نے نیک اولاد کی تمنا کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صالح بیٹے کی دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو یوں پورا فرمایا کہ آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں ایک حلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے ان کی پیدائش سے قبل نذرمانی کہ اللہ تعالیٰ ان کو جو اولاد عطا فرمائیں گے اسے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کر دیں گی اور ساتھ ہی آپ نے یہ بھی کہاکہ میں اس کو اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں شیطان مردود کے شر سے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس نذر کو قبول فرمایا۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی پاک اولاد کی دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ان کو حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسی فرمانبردار، نیک اور صالح اولاد عطا فرما دی۔ گویا اولادکی ولادت سے قبل ہی والدین کویہ دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا فرمائے۔ 
والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے اچھے نام رکھیں ۔ مسلمانوںکو انبیائے کرام ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ کے خاندان اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں پر نام رکھنے چاہئیں۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ''عبداللہ اور عبدالرحمن‘‘ بہترین نام ہیں۔ حدیث پاک کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض نام اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں جن میں سرفہرست 'شہنشاہ‘ ہے۔ ان ناموں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے جن میں شرک کی آمیزش ہو یعنی کسی بت یا غیراللہ کے ساتھ نسبت کی گئی ہو۔ نام رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے تکلیف دور کرنے کے لیے ساتویں دن بچے کا عقیقہ بھی کرنا چاہیے۔ عقیقے کے بعد رضاعت بھی بچے کا بنیادی حق ہے۔ صحت مند ماں کو اپنے بچے کو کسی بھی طور پر اس سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ والدہ کو دو برس تک رضاعت کی مدت مکمل کرنی چاہیے۔ 
رضاعت کی تکمیل کے بعد بچوں کو اللہ تعالیٰ کے نام اور اچھی باتیں سکھانی چاہئیں اور بچوں کے ساتھ گالی گلوچ اور بدکلامی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بچے عام طور پر ان باتوںکو سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں یا ان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں۔ برے ماحول کے بچوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں؛ چنانچہ بچوں کی کفالت خوشگوار ماحول میں کرنی چاہیے۔ والدین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے بچوں کی نفسیات پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ جس گھر میں والدین پیار اوراتفاق سے رہتے ہیں وہاں بچوں میں صبر وتحمل اور بردباری پیدا ہوتی ہے اور جن گھروں میں والدین کی آپس میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہے وہاں بچوں میں احساس محرومی اور تشدد کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔ 
والدین کو حتی المقدور ان کی تربیت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جو والدین اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ان کے بچوں کے بگڑنے کے امکانات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو غیر مردوں کے ہاتھ تھمانے سے بھی گریزکرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے غیراخلاقی واقعات کا بڑا سبب والدین کی لاپروائی بھی ہے جو اپنے بچوں کو غیر مردوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ پڑھے لکھے خاندانوں کی کئی خواتین بچوں کی پرورش کے لیے خادماؤں کا سہارا لیتی ہیں، یہ خادمائیں ماں کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوسکتیں،لہٰذا ماؤںکو حتی الوسع ان کی تربیت کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ اگر مجبوری میں خادمہ رکھنی پڑ جائے تو بھی خادمہ کی نگرانی کرنی چاہیے کہ وہ بچوںکی تعلیم وتربیت صحیح اندازمیں کررہی ہے یا بچوں کے بگاڑکا سبب بن رہی ہے۔ 
بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم کے لیے اچھے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت اور اس کے مفہوم کا شعور فراہم کرنا بھی والدین کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ سات برس کی عمر میں بچوں کو نماز سکھانا انتہائی ضروری ہے۔ نمازسیکھنے کی وجہ سے بچوں میں تنظیم ، روحانی کیفیت اور خالق ومالک کی شناسائی کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ نمازکی برکت سے بچے غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں ۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے صرف تعلیمی اداروں پر ساری ذمہ داری ڈال دینا ہرگز درست نہیں۔ والدین کوخود بھی بچوں کی تعلیم سے آگاہ رہنا چاہیے تاکہ بچے کی ذہنی نشوونما اورتعلیمی ترقی کی راہیں ہموار ہوسکیں ۔
سکول جانے والے طلبا اور طالبات کی صحبت سے آگاہی حاصل کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اچھی صحبت کے مثبت اثرات اور بری صحبت کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اگر بچے کی صحبت بگڑ جائے توبچے کی زبان، رویے اور عادات بھی بگڑ جاتی ہیں ۔ بچوں کی عادات میں نمایاں تبدیلی رونما ہو تو اس کو مثبت علامت نہیں سمجھنا چاہیے اور ان کی عادات اور رویوں کی نگرانی کرکے اصل سبب تک پہنچنے کی جستجوکرنی چاہیے۔
بچوںکی غیر نصابی سرگرمیوں کا تعین بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے ۔ موبائل، لیپ ٹاپ کا استعمال سکول جانے والے بچوں کے لیے مفید نہیں ہوتا ۔ ان کے
لیے اچھی کتب کا انتخاب کرنا اور ان کومیدانی کھیلوں کی طرف راغب کرنے کے نتائج انتہائی مثبت نکلتے ہیں ۔کمپیوٹرکا غیر ضروری استعمال بچوں کی نفسیات کو مسخ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مڈل پاس کرنے والے طلبہ کے لیے مستقبل کی نشاندہی کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو بچوں کی صلاحیتوں اور میلان کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر بچہ کسی اور میدان کی طرف رغبت رکھتا ہے تو جبراً اس کو بدلنا غلط ہے۔ اسی طرح والدین کو اولاد کی دینی اور اخروی کامیابی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہنا چاہیے اور ان کی کسی بھی کمی کوتاہی کی صورت میں حتی الوسع ان کوبددعا دینے اور برا بھلا کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔ والدین کو اولاد کو نیکی کے کاموں میں بھی شریک کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے جنہوں نے تعمیر بیت اللہ میں اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی شریک کیا تھا۔
تعلیم کے آخری مراحل تک بچوں کوپہنچانے کے بعد ان کے لیے اچھے رشتوں کا انتظام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو اس سلسلے بچوں کی پسند ناپسندکو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگرچہ ولی کی اجازت کے بغیرکیا گیا نکاح درست نہیں تاہم لڑکی کو نکاح کے لیے مجبورکرنا بھی درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسانکاح فسخ کر دیا تھا جس میں لڑکی کے والد نے اس کی ناپسند کے باوجود نکاح کر دیا تھا۔والدین کاحسن انتخاب لڑکے اور لڑکی کی زندگی کو جنت بنا دیتا ہے اور والدین کی طرف سے کی جانے والی کوتاہی خاندانوں کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ والدین کی تربیت اور رہنمائی اولاد کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا سبب اور ان کی غفلت و لاپروائی اولاد کی ناکامی اور بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ نکاح کرنے کے بعد بھی والدین کو اپنی اولاد کے دینی اور دنیاوی مشاغل پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور زندگی کے آخری سانس تک ان کی اصلاح کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور موت سے پہلے ان کو اچھائی کی وصیت ضرور کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہم السلام کی مثالوں کو مدنظر رکھنا چاہیے جنہوں نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اپنی اولاد کو دین پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی۔ چنانچہ والدین کو اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں اور کرداراحسن طریقے سے ادا کرتے رہنا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved