جی ہاں کوئی بھی ناگزیر نہیں‘ مگر آخر کار یہ مردانِ کار ہی ہوتے ہیں‘ جو تاریخ کی تشکیل کرتے اور مشکلات میں قوموں کو بچا لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک ایک مردِ کار ہیں‘ پختہ کار!
کوئٹہ میں تبدیلی کا وقت آ پہنچا۔ خزاں کا موسم آتا ہے تو پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ معاہدے کے مطابق ڈاکٹر عبدالمالک کا دور تمام ہوتا ہے اور مشعل اب انہیں سردار ثناء اللہ زہری کے حوالے کرنی ہے۔ ایک تاریخ ساز کردار ادا کرنے کے بعد ٹھیک اسی وقت جنوبی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ بھی اس سرزمین سے جدا ہو رہے ہیں‘ جس سے انہوں نے ٹوٹ کر محبت کی۔ عمر بھر اسے وہ اپنے دل سے نکال نہ پائیں گے کہ الفت ایک بار رقم ہو جائے تو مٹتی نہیں‘ دوری سے اور بھی بھڑک اٹھتی ہے۔ ذہنی طور پر اپنے نئے کردار کے لیے وہ خود کو تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ غمزدہ ہو کر کوئی بات کرے تو وہ کہتے ہیں۔ کوئی بھی دائمی نہیں ہوتا۔ Graveyards are full of inevitable people.
حبیب اکرم نے کہانی چھیڑی تو ناچیز نے ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا: زندگی میں پیمان ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اگر بلوچستان کے مفاد میں یہ ہے کہ آپ قائم رہیں تو بات خود وزیراعظم کو کرنی چاہیے۔ ثانیاً یہ نواب زہری کی آمادگی سے ہونا چاہیے۔ ان سے درخواست کی جائے اور دلیل سے واضح کیا جائے کہ یہ قوم‘ ملک اور بلوچستانی عوام کے حق میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولے: (کوئی سردار اور نواب نہیں) میں ایک سیاسی کارکن ہوں۔ اپنی عزت کے سوا میرے پلے کیا ہے؟
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر‘ ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام اٹھائے دیتے ہیں
ایسے ایسے لوگ بلوچستان میں ہیں جن کے پائوں تلے گھاس نہیں اگتی۔ پگڑیوں میں ایسی بھی ہیں‘ جن کے نیچے سر بہت چھوٹے اور ذات کا خمار بے حد و حساب ہے۔ سرداری اور اس کی ہیبت ہے۔ رعایا ہے اور حکم مانتی ہے۔ روپیہ ہے اور چھلکتا ہے۔ مگر ادراک‘ علم اور احساس کم ؎
آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں‘ دستاروں میں
ڈاکٹر عبدالمالک مزاحمت ہرگز نہ کریں گے۔ مگر دل میں خواہش ہے کہ موقعہ ملے تو مشن کو مکمل کریں‘ جس کے لیے بے پناہ ریاضت انہوں نے کی ہے۔ وقار‘ تحمل اور تدّبر کے ساتھ‘ تنی ہوئی رسی پر چلتے ہوئے۔ وہ ایک جگمگاتے ہیرو اور پیشوا نہیں کہ بلوچستان کے عوام ان کے لیے اٹھیں گے۔ مگر خاموش‘ عاجزی اور ایسی احتیاط کے ساتھ‘ جو اس خطۂ ارض میں نایاب ہے‘ بڑا معرکہ سر کرنے کا عظیم امکان‘ ان کے خلوص نے پیدا کیا ہے۔ صاحب الرائے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ برقرار رہیں۔ دریا میں گھوڑے نہیں بدلے جاتے اور اس لیے بھی کہ وہ اس زنجیر کا اہم ترین حلقہ ہیں‘ جو حسن اتفاق سے وجود میں آئی ہے۔ کور کمانڈر‘ چیف سیکرٹری‘ آئی جی فرنٹیئر کور اور انسپکٹر جنرل پولیس۔ زنجیر کی ایک کڑی‘ دوسری سے کبھی کچھ نہیں کہتی مگر‘ سازو آواز کی ہر لے دوسری سے ہم آہنگ ہوتی ہے تب‘ تا ابد جادو جگانے والا نغمہ ڈھلتا ہے۔
نچلے درمیانے طبقے سے اٹھنے والے عبدالمالک کا ہنر یہ ہے کہ وہ اپنی انا کی تابانی کی خاطر نہیں جیتے۔ اپنی رائے رکھتے ہیں مگر تحمل کے ساتھ دوسروں کی سنتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ حلیف تو کیا کسی حریف کے دل کا آئینہ بھی ٹوٹنے نہ پائے۔ میر صاحب نے کہا تھا ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ہیجان کا شکار ہوتے ہیں اور نہ برہمی کا۔ دوسروں کے لیے دیدہ و دل ہی نہیں‘ اقتدار کے جلال میں بھی جگہ پیدا کرتے ہیں۔ سیاسی کارکن کے طور پر انہوں نے ایک مشکل زندگی گزاری ہے۔ وہ بات انہوں نے سیکھ لی جو کم سیکھتے ہیں۔ تعلق نبھانے کا نسخہ پنجابی کے اس لافانی شاعر میاں محمد بخشؒ نے بیان کیا تھا۔
ع اک کھچّے تے دوجا چھڈدا جائے
دھاگے کو اگر ایک کھینچے تو دوسرا چھوڑتا جائے۔ کمانڈر کے ساتھ انہوں نے نبھا دی؛ اگرچہ جنرل جنجوعہ کا کردار بھی اتنا ہی لچکدار تھا۔ اسی قدر احترام اور عالی ظرفی ان میں بھی تھی۔ جنرل شیرافگن اور آئی جی کے ساتھ نبھا دی۔ سب سے بڑھ کر حلیف سیاسی جماعتوں اور ان وزراء کرام کے ساتھ جو گاہے الف ہو جاتے اور کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت سے انکار کر دیتے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں‘ جو یافت کے مواقع کی طرف اس طرح بے تابانہ لپکتے ہیں‘ جیسے بلی چھیچھڑوں کی طرف۔ لوٹ مار میں بلوچستان سندھ کو مات کر دیتا‘ اگر ڈاکٹر صاحب لالچ سے مغلوب ہونے والے آدمی ہوتے۔ قوم پرستی کا احساس اس سرزمین میں برائے نام‘ ریاست سے وابستگی کا تصور موہوم اور سرکاری وسائل کو اکثر مالِ غنیمت سمجھا گیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل بہتر تھے‘ اکبر بگتی بھی‘ ان سے زیادہ فوجی گورنر۔ وگرنہ نواب رئیسانی کی طرح اکثر وزرائِ اعلیٰ نیاز کی مٹھائی اڑانے والے بچوں کی طرح بے رحم۔ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ۔
1988ء میں جونیجو برطرف کیے گئے تو بلوچستان کے جام غلام قادر کے سوا تینوں وزرائِ اعلیٰ برقرار رکھے گئے۔ پریشان حال وہ راولپنڈی پہنچے۔ چیف آف جنرل سٹاف جنرل رفاقت سے ماجرا کہا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے خوش آمدید کہا کہ وضع دار بہت تھے۔ انہوں نے شکایت کی کہ جب باقیوں کو برطرف نہ کیا‘ تو مجھ غریب کے باب میں ایسی بے رخی کیوں۔ دبے لفظوں میں انہوں نے کرپشن کی طرف اشارہ کیا۔ کچھ ایسی بدعنوانی کے مرتکب جام صاحب نہ تھے۔ زیادہ تر تحفے تحائف ہی۔ بولے: بے عیب ذات تو اللہ کی ہے‘ پھر خیال آیا کہ یوں بالواسطہ صدرِ پاکستان پر بھی حرف آتا ہے؛ چنانچہ‘ فوراً ہی کہا ''بے عیب ذات اللہ کی ہے یا آپ کی‘‘۔ جنرل صاحب شرمائے۔ واپسی پر وہ جنرل رفاقت کے پاس دوبارہ ٹھہرے۔ انہوں نے پوچھا ''کیا کام نکلنے کی امید ہے؟‘‘ کہا ''مجھے تھوڑی بنائے گا‘ کسی خوشامدی کو بنائے گا‘‘۔
جنرل جنجوعہ بلوچستان کو اداس چھوڑ آئیں گے۔ خاکساری اور محبت یکجا ہو جائیں تو وہ گیت ڈھلتا ہے کہ بھولنا بھی چاہو تو بھول نہ سکو۔ اہلِ بنگال جنرل اعظم کو جتنا روئے تھے‘ اللہ انہیں زعم سے محفوظ رکھے‘ بلوچستان والے جنجوعہ کو اس سے زیادہ روئیں گے۔ ایک دن ازراہ کرم میرے پاس تشریف لائے تو عرض کیا: انا کو دفن کیے بغیر‘ اجتماعی حیات میں خیر کی فصل نہیں اگتی۔ کہا: انا کیسی؟ جو کچھ ہے‘ پروردگار کی عطا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ہمیشہ توجہ سے بات سنی۔ جنرل راحیل شریف نے ڈٹ کر سرپرستی کی۔ خلقِ خدا اگر تعاون نہ کرتی تو میں کیا کر پاتا؟ ان عظمتوں سے کیا تقابل‘ مگر ان کی یاد آتی ہے۔ عمر فاروق اعظمؓ کو مٹی میں اتارا گیا تو سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کہا: اپنے جانشین کے لیے وہ بڑی مشکلات چھوڑ گئے۔ جنرل جنجوعہ کا جانشین حسن اخلاق اور وسعتِ ظرف کے بغیر سرفراز نہ ہو سکے گا۔ یہ بات جنرل راحیل شریف کو ملحوظ رکھنی چاہیے کہ لازماً وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو‘ وگرنہ خرابی‘ وگرنہ خرابی۔
پہل وزیراعظم کو کرنا ہوگی‘ اب تک بلوچستان میں وفاقی حکومت کا کردار مثبت ہی نہیں‘ قابل صد تحسین ہے۔ میاں صاحب کے بغیر بلوچستان میں امکانات کی روئیدگی ممکن ہی نہ تھی۔ بنیادی نکتہ یہی ہے کہ سردار ثناء اللہ زہری کو وہ راضی کریں‘ کسی بھی طرح۔
جی ہاں کوئی بھی ناگزیر نہیں‘ مگر آخر کار یہ مردانِ کار ہی ہوتے ہیں‘ جو تاریخ کی تشکیل کرتے اور مشکلات میں قوموں کو بچا لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک ایک مردِ کار ہیں‘ پختہ کار!