شمالی افریقہ اور مشرق ِوسطیٰ سے تارکین ِوطن کی مسلسل آمد نے یورپی ریاستوں کے عزم اور اتحاد کو جس آزمائش میں ڈال دیا ہے، حالیہ برسوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سرحدی ریاستیں، جیسا کہ یونان اور اٹلی، یورپی یونین کی دیگر ریاستوں سے مطالبہ کررہی ہیں کہ وہ ان کا بوجھ بانٹیں، لیکن برطانیہ پناہ کے طالب مزید افراد کو اپنی سرحدوںمیں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس سال اگرچہ دو لاکھ ستر ہزار افراد پہلے ہی یورپ میں داخل ہوچکے ، لیکن برطانیہ اُن مٹھی بھر افراد ، جو فرانس کی بندرہ گاہ، کیلز (Calais)پر جمع ہیں، کو انگلش چینل عبور کرنے سے روک رہا ہے۔ اس وقت تک برطانوی حکومت نے بندرگاہ پر باڑ لگانے اور علاقے میں پولیس کا نظام زیادہ فعال بنانے کے لیے سات ملین پائونڈز مختص کردیے ہیں تاکہ یہ بدقسمت تارکین ِ وطن کسی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے اُن کے ہاں نہ پہنچنے پائیں۔ اس دوران جرمنی نے قدرے لچک دار اور انسان دوست رویے کا اظہار کیا ہے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے اعلان کے مطابق شام کے جہنم زار سے بچ نکلنے والوں کے لیے جرمنی کے دروازے کھلے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے جرمنی نے اپنے آئین کی پاسداری کی ہے جو کہتا ہے کہ جنگ اور آفت زدہ علاقوںسے جان بچا کر بھاگنے والوں کو لازمی پناہ دی جائے گی۔ جرمن آئین میں یہ شق دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد شامل کی گئی جب لاکھوں افراد اُس خونی لہر کی لپیٹ میں تھے جو پانچ سال تک دنیا، خاص طور پر یورپ کو تاراج کرتی رہی۔
میں نے اس سے پہلے بھی وسیع پیمانے پر ہونے والی ہجرت پر قلم اٹھایا ، آئندہ بھی ایسا کرتا رہوں گا کیونکہ اس وقت اس مسئلے نے یورپ کو جس طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یورپ میں ابھرنے والے اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ ان ہزاروں افراد کی آمد کو یورپی طرز ِ زندگی کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ اگرچہ آدمیوں اور عورتوں کو سامان کے بنڈل اور بچے اُٹھائے قطاروں میں کھڑے دیکھ کر دل میں ہمدردی کے جذبات ابھرآتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان افراد کی وجہ سے روزگار، رہائش گاہوں، ہسپتالوں اور سکولوں میں جگہ کے پیدا ہونے والے مسائل کا خوفناک خیال ذہن کو ڈسنے لگتا ہے۔
ان مسائل کو دیکھتے ہوئے تارکین ِ وطن کی نہ ختم ہونے والی ہجرت کا شدید رد ِعمل پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ جرمنی میں تارکین ِوطن کے لیے مختص کیے گئے ہوٹلوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ہنگری کا کہنا ہے کہ وہ صرف شام اور عراق سے جان بچا کر بھاگنے والے عیسائیوں کو پناہ دے گا۔ سویڈن میں تارکین ِوطن کی آمدکی مخالفت کرنے والا گروہ اس وقت ملک کی سب سے مقبول پارٹی کا روپ دھار چکا ہے۔ فرانس میں دائیں بازو کے شدید نظریات رکھنے والی پارٹی، نیشنل فرنٹ کی مقبولیت کا گراف مرکزی پارٹیوںکو چیلنج کررہا ہے کیونکہ اس نے تارکین ِ وطن کی آمد کی شدید مخالفت کو اپنا شعار بنالیاہے۔
خوش قسمتی سے اس عالم میں کچھ ذی شعور آوازیں معقول رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ دی اکانومسٹ نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں یورپی اقوام کو یاددلایا کہ لبنان نے گیارہ لاکھ، ترکی نے سترہ لاکھ، تنزانیہ نے لاکھوں پناہ گزینوں کو عشروں تک اور پاکستان نے افغانستان پر سوویت قبضے سے لے کر اب تک تیس لاکھ افغان باشندوں کو پناہ دی ہے۔ آگے چل کر اداریہ کہتا ہے ۔۔۔''یورپ اس سے بہتر خدمت سرانجام دے سکتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ خودغرضی بھی ایک عامل کے طور پر کارفرما ہوسکتی ہے کیونکہ یورپ کی افرادی قوت معمر ہوچکی اور بہت جلد وہ مزدوری کرنے کے اہل نہیں رہے گی۔اس کا مطلب ہے کہ آنے والی نسلوں کو ان عمر رسیدہ افراد کا بوجھ اٹھانا پڑے گا، جو ان کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ اُن کی تعداد کم ہوگی۔ اس دوران پناہ کی تلاش میں آنے والے لوگ نسبتاً نوجوان اور کام کرنے کے خواہشمند ہیں ، چنانچہ وہ معمر افرادکو سہارا دے کر یورپی حکومتوں کے اُس بوجھ میں ہاتھ بٹاسکتے ہیں جس کے بڑھنے میں اُن کاکوئی ہاتھ نہ تھا۔ افریقی اور عرب باشندے نوجوان اور طاقت ور ہیں۔ یورپ اُن کی جسمانی طاقت سے استفادہ کرسکتاہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یورپی حکومتیں پناہ گزینوں کے مسئلے کو دانشمندی سے ہینڈل کرے، تاہم ایسا کرتے ہوئے اُنہیں اس کی سیاسی قیمت ادا کرنی ہوگی‘‘
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دائیں بازو کے میڈیا کی طرف سے اٹھائے جانے والے ہنگامے میں ایسی آوازیں دبتی محسوس ہوتی ہیں ۔مچایا جانے والا شوروغل اور دی جانے والی دہائی لاکھوں افراد کی برین واشنگ کرتے ہوئے اُنہیں باور کرارہی ہے کہ پناہ کی تلاش میں آنے والے یہ ''حشرات‘‘ ان کی خوشحالی کا رس چوس جائیں گے۔ برطانیہ میں خاص طور پر اس مسئلے کا ایک سنگین پہلو یہ ہے کہ عرب تارکین ِوطن کے بچے ، جو یورپ میں پیدا ہوئے ، اب داعش کی صفوں میں شامل ہوکر جہاد کرنے کے لیے جارہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اُن جہادیوں میں سے کچھ زندہ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک سے تارکین ِ وطن کی آمد سے معاشرے میں مسلمانوں کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ وہ ففتھ کالم(ایک ایسا گروہ جو معاشرے کے مخالف نظریات کی حمایت کرتا ہو) بن کر دیگر انتہا پسند گروہوں کی طرح مسائل پیدا کردیںگے۔
اگلے دن میرا ایک انگریز دوست سے اس موضوع پر مکالمہ ہوا۔ وہ صاحبہ لبرل اور بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھتی ہیں، لیکن تارکین ِوطن سے پیدا ہونے والے حالیہ بحران پر اُن کا موقف بھی شدید ہے کہ ان غیر ملکیوںکو آنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ جب میں نے کہا کہ یہ بدقسمت افراد مغربی ممالک کی ذمہ داری ہیں کیونکہ ان میں زیادہ تر اُن حالات کا شکار ہوکر اپنے وطن سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے جن کا باعث مغربی ممالک کی مہم جوئی تھی۔ اگرچہ وہ عراق اور لیبیا کے حوالے سے برطانوی پالیسیوں کی ناقد ہیں لیکن اُنھوں نے میری بات سے اتفاق نہ کیا۔ اُن کا خیال ہے کہ بہت تھوڑی تعداد میں تارکین ِوطن برطانیہ آسکتے ہیں۔ وہ اس کے معاشرے میں گھل مل کر اس کاایک حصہ بن جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن وہ یہاں آکربھی اپنی مذہبی شناخت کو اجاگر کرکے معاشرے کی سماجی اور سیاسی قدروں کو چیلنج کرتے ہیں۔ اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت برطانیہ میں جو مسلمان آباد ہیں، اُن میں سے زیادہ تر اس کے سماج میں ضم نہیںہوپائے ، تو مزید افراد کو آنے کی اجازت دینا اپنے لیے مشکلات بڑھانے کے مترادف ہوگا۔ درحقیقت یورپ کے لاکھوں افراد کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہی ہے۔
اس صورت ِحال سے بچنے کے لیے مغربی ممالک اپنی دیواریں بلند کررہے ہیں۔ بہت سے ممالک اپنی سرحدوںپر کانٹے دار تار لگارہے ہیں ، تاہم Schengen treaty کی رو سے اگر کوئی پناہ گزین یورپی یونین کی سرزمین پر قدم رکھ کر رجسٹرڈ ہوجاتا ہے تو اُسے اس بر ِ اعظم میں دوسری جگہوں پر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ زیادہ ترلوگ خوشحال ریاستوں، جیسا کہ جرمنی اور فرانس کا رخ کرتے ہیں، جبکہ کچھ کی نظر برطانیہ پر بھی ہوتی ہے۔ چونکہ برطانیہ Schengen treaty کا حصہ نہیں ، اس لیے یہ لوگ انگلش چینل پر روک لیے جاتے ہیں۔ بہت سے افراد کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کو ان ممالک کے لیے کچھ کرنا چاہیے جہاںسے یہ لوگ فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ترکی، لبنان اور اردن میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کی بستیاں آباد ہیں، لیکن شام میں پیش آنے والے خونچکاں واقعات کا اختتام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر یہاںہونے والی خانہ جنگی کا کوئی سیاسی حل تلاش بھی کرلیا جائے تو بھی داعش کے خونی بھیڑے تو راتوں رات غائب نہیں ہوجائیںگے۔ اس لیے پناہ گزینوں کا مسئلہ مستقبل میںیورپی ممالک کی مہمان نوازی اور سیاسی لچک کا امتحان لیتا رہے گا۔