تحریر : ریحام خان تاریخ اشاعت     31-08-2015

ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی!

کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے ؎
میری روح کی حقیقت میرے آنسوئوں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم میرا ترجمان نہیں ہے
ہر انسان کچھ حد تک بناوٹی ہوتا ہے۔ اس کا یہ مصنوعی عمل اس کے گھر سے ہی شروع ہوجاتا ہے جب وہ گھر سے نہا دھو کر عالی شان لباس زیب تن کیے باہر نکلتا ہے ۔پھر اس انسان کا یہ انفرادی مصنوعی پن جب لوگوں کی نظر میں آتا ہے تو نہ جانے کیوں معاشرے کے رویوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بیوی بھی خاوند سے لڑتے لڑتے جب فون اٹھاتی ہے تو چاہے کتنے ہی غصے میں کیوں نہ ہو‘ مصنوعی مگر میٹھی آواز میں'' ہیلو‘‘ کہتی ہے۔
سوال یہی ہے کہ مصنوعی یا بناوٹی رنگ ہماری زندگیوں میں کیوں رچ بس گیا ہے؟
شادی بیاہ کے موقع پر یہ بناوٹی رنگ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔عمر بھر کے بندھن کو باندھتے وقت ہم اپنا سب سے زیادہ مصنوعی روپ دکھاتے ہیں۔ دلہن کے میک اپ سے لے کر شادی کی پُرتکلف تقریب تک بیچارہ باپ اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر دیتا ہے اور رسم و رواج کے ہاتھوں اس حد تک جکڑا جاتا ہے کہ دل کے عارضے تک جا پہنچتا ہے مگر اس مصنوعی عمل سے جان نہیں چھڑاپاتا۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جوانفرادی حیثیت سے لے کر علاقائی رسم و رواج تک کے مصنوعی پن کی تصویر گری ہے۔پھر یہ مصنوعی پن فرد سے معاشرے اور معاشرے سے ہوتاہوا پوری قوم تک پہنچ جاتا ہے۔یہی مثال لے لیجئے کہ لاہور شہر جشن آزادی کے موقع پر ایسا جگمگاتا ہوا نظر آتا ہے کہ کوئی دیکھنے والا یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ قوم بجلی کے بحران سے گزر رہی ہے۔
یہ نمائشی روش ہماری حکومتوں کے میگا پروجیکٹس سے بھی نمایاں ہوتی ہے۔میٹرو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ایک بس جو عام سڑک پر چلنے کے لیے ہوتی ہے ‘اس کے لیے درخت کاٹ کر پورے شہر کو تہس نہس کر کے ایک مخصوص سڑک بنائی جاتی ہے اور ایک محل نما، نمودو نمائش سے بھر پور بناوٹی سٹیشن تعمیر کیا جاتا ہے‘ اس بے تکی روش پر سمجھ میں نہیں آتا ‘انسان روئے یا ہنسے۔
افسوس کی بات یہ نہیں ہے کہ یہ فضول خرچی کی انتہا ہے‘ افسوس کی بات یہ بھی نہیں کہ اتنی ہی مالیت میں اس سے تین گنا لوگوں کو ٹرانسپورٹ مل سکتی تھی‘ افسوس کی بات یہ بھی نہیں کہ درخت کاٹتے وقت یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ ماحول پر اس کے کیا اثرات ہوں گے‘افسوس کی بات یہ ہے کہ میں جہاں کہیں جاتی ہوں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی خیبرپختونخواہ میں کوئی میگا پروجیکٹ کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ تو میں ان سے کہتی ہوں کہ ہم صوبے میں درخت لگا رہے ہیں تو وہ اس جواب کوصرف ایک مشغلہ قرار دے کر ٹال دیتے ہیں۔جب میں انہیں بتاتی ہوں کہ یکساں تعلیم خان صاحب کی ترجیحات میں سر فہرست ہے تو پھر بھی وہ جرح کرتے ہیں کہ خان صاحب کے پی کے میں کیا تبدیلی لائے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی نظر میں مستقبل کے لیے اچھی بنیاد رکھنا اور معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ کرنا میگا پروجیکٹس میں نہیں آتا۔یعنی وہ دولہا جو ہیرے کی انگوٹھی دے کر ساری عمر آپ کی بیٹی کونوکرانی سے بڑھ کر کچھ نہ سمجھے وہ قبول ہے لیکن وہ جو دو جوڑوں میں بیاہ کے لے جائے اور اسے پیار اور عزت دے‘ وہ رشتہ رد کیا جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم آنکھوں کو چندھیا دینے والی بجلیوں سے متاثر ہوتے رہیں گے یا ایسا ملک چاہیں گے جہاں ہرگھر میں علم کا چراغ ہو، ہر گھر میں چولہا جلے اورہر گھر میں ٹھنڈی چھائوں ہو۔
میرے والد صاحب جب ایم ایس بنے تو لوگ ان کی سادگی اور شرافت سے متاثر ہو کر اپنے بچوں کو ان کا نام دیا کرتے تھے مگر تیس سال بعد یعنی1980ء کی دہائی میںہم ان لوگوں کو سراہنے لگے ہیں جن کے دل پتھرہیں اور جن کے محلات سنگ مر مر کے ہیں بلکہ نو جوانوں کا تو یہ حال ہے کہ اس جیسا بننا چاہتے ہیں جس کے پاس لال بتی والی گاڑی ہو اور چار پانچ خطر ناک گلو بٹ ہوں۔
اب لوگ دعا اولاد کی نہیں‘ کانوائے کی دیتے ہیں، پوزیشن یا سٹیٹس کی دیتے ہیں اور زمینی خدائوں سے ڈرتے ہیں۔
جب انسان ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہوتا ہے تو اسے کھوکھلی محبتیں،کچے رشتے اور وقتی چمک دمک ہی ملتی ہے۔ پاکستان ان آٹھ ممالک میں سے ہے جو جوہری قوت ہیں بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ دنیا کی جوہری طاقتوں میں تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے لیکن توانائی کے شعبے میں ہم اپنے پڑوسی ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیںاور یہاں اسی فی صد سے زیادہ آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ لیپ ٹاپ اسکیم میڈیا کی ہیڈلائن یا اخبارات کی شہ سرخی توبنتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے پچیس ملین بچے اب بھی تعلیم سے محروم ہیں۔
بچپن میں معدنیات کا سبق پڑھاتے ہوئے استانی صاحبہ نے ایک پتھر دکھایا جو نہایت دلکش اور چمکدار تھا۔ پتھر میں سنہری ذرات تھے۔جب ہم نے پوچھا کیا یہ سونا ہے تو استانی جی نے مسکرا کرفرمایا کہ یہ احمقوں کا سونا ہے۔ چمکتا سونے کی طرح ہے مگر ابھی اس کی قدر سونے کی نہیں ہے۔
ہمارا معاشرہ بھی بچوں کی طرح چمکتے ہوئے پتھرسے متاثر ہو جاتا ہے جبکہ ٹھوس اور مضبوط بنیاد کو خاطر میں نہیں لاتا۔جب تک ہمfools gold سے دھوکہ کھاتے رہیں گے ہمارا مستقبل سونا نہیں بن پائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved