میاں محمد صدیق کامیانہ سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ میرے کلاس فیلو ہی نہیں‘ دلی اور جگری دوست بھی ہیں۔ کل وہ تشریف لائے‘ ویرانے میں بہار آ گئی اور یہ شعر یاد آیا ؎
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
لیکن تھوڑی دیر میں مسیحا و خضر بھی آ دھمکے‘ یہ علی زریون‘ ندیم بھابھا اور تہذیب صافیؔ تھے اور اس طرح یہ نشست مزید رنگین ہوگئی۔لوگوں کی کتاب سے عدم دلچسپی خصوصی موضوع تھا۔ ندیم بھابھا نے بتایا کہ اس بیماری کا ایک ہی علاج ہے کہ کتابیں سستی کی جائیں اور جس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پبلشر حضرات اپنے اپنے بک کلب بنائیں اور کتب فروش کو بیچ میں سے نکال دیں تاکہ کتاب سستی ہو سکے کیونکہ پبلشر کو 40 فیصد پر کتاب آگے دینی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بھی ایک اشاعتی ادارہ ہے اور انہوں نے ایک کلب بھی قائم کر رکھا ہے جس کے بعد وہ اس قابل ہوگئے ہیںکہ ڈیڑھ سو صفحے کی ہارڈبائونڈ کتاب کی قیمت 100 روپے رکھ سکتے ہیں اور یہ تجربہ کامیابی سے دوچار ہوتا ہے!
علی زریون ساقی فاروقی کے نام ہمعصروں کے خطوط نامی کتاب لے کر آئے تھے جو انہوں نے حال ہی میں چھاپی ہے۔ ان سے ساقی کا حال احوال پوچھا تو بتانے لگے کہ سخت بیمار ہیں‘ یہاں تک کہ بولنے سے بھی معذور ہیں۔ پاکستان میں سمیع آہوجا‘ غالب احمد اور نسرین انجم بھٹی شدید علیل ہیں جبکہ بھارت میں نیئر مسعود کافی عرصے سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ میں نے عرض کیا
کہ ہمعصروں کے نام ساقی کے اپنے خطوط اگر شائع کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا تاکہ اس کی شخصیت کی بہت سی پرتیں کھُلتیں کیونکہ یہ تو رسمی سے خطوط ہیں جو زیادہ تر ان حضرات کی طرف سے ہیں جو کسی نہ کسی رسالے کے ایڈیٹر ہیں اور خط میں ساقی سے ان کا کلام طلب کرتے ہیں یا موصولہ کلام کی رسید دیتے ہیں‘ اگرچہ ان میں مزید تفصیلات بھی درج ہیں‘ اسی طرح کی ایک اور کتاب بھی آئی رکھی ہے جو رئیس احمد جعفری کے نام ہمعصروں کے خطوط پر مشتمل ہے جو ہمارے دوست سید انیس شاہ جیلانی نے مرتب کی ہے جبکہ اس سے بھی ہمیں یہی شکایت ہے‘ البتہ جیلانی صاحب کا تحریر کردہ پیش لفظ خاصے کی چیز ہے جس کا تفصیلی تذکرہ پھر کبھی سہی۔
اس کتاب میں جن ہمصروں کے خطوط شامل ہیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ن م راشد‘ چنگیزی‘ آصف جمال‘ آصف فرخی‘ آغا ناصر‘ آفتاب احمد‘ احمد ندیم قاسمی‘ ادا جعفری‘ اسلم فرخی‘ انتظار حسین‘ انور سجاد‘ باقر مہدی‘ بلراج کومل‘ پرکاش پنڈت‘ جمال پانی پتی‘ جمیل الدین عالی‘ جمیل جالبی‘ چوہدری محمد نعیم‘ حمایت علی شاعر‘ خلیق ابراہیم‘ خلیل الرحمن اعظمی‘ خورشید رضوی‘ ذیشان ساحل‘ رام لعل‘ زبیر رضوی‘ زہرا نگاہ‘ ساجد رشید‘ سبط حسن‘ سلیم احمد‘ سید عارف‘ شمس الرحمن فاروقی‘ شمیم حنفی‘ شہریار‘ صلاح الدین محمود‘ ضیا جالندھری‘ ضیاء محی الدین‘ عابد رضا‘ عبداللہ حسین‘ قتیل شفائی‘ گوپی چند نارنگ‘ محمد حسن (ڈاکٹر)‘ محمد سلیم الرحمن‘ محمد علی صدیقی (ڈاکٹر)‘ محمد عمر میمن‘ مشفق خواجہ‘ مظفر علی سید‘ ممتاز حسین‘ وزیر آغا‘ یامین‘ ذکریا شاذ اور الیاس ملک۔ پیش لفظ ساقی نے خود لکھا ہے۔
اس کالم میں اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اس کتاب کے بارے نہیں لکھا جا سکتا‘ ماسوائے مشفق خواجہ کی تحریر کے چند نمونوں کے جو بجائے خود اعلیٰ درجے کے مزاح پارے اور شوخ جملے ہیں۔ ان میں سے کچھ ملاحظہ ہوں:
بہرحال خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ یعنی تم بالکل وہی ہو جو پہلے تھے۔ دیکھئے روانی میں قلم سے آپ نکل گیا۔ یہ نتیجہ ہے کچھ تو شرافت طبعی کا اور کچھ اس بات کا کہ آپ کی بھابی کا تعلق لکھنو سے ہے (لوگ تو دیار غیر میں جا کے مرتے ہیں اور مجھے دیار غیر والوں نے یہاں آ کر مارا)
''ابیات‘‘ پر آپ کا دلچسپ تبصرہ پڑھا۔ آپ کی ساری باتوں سے مجھے اتفاق ہے۔ یہاں تک کہ اس تعریف سے بھی جو آپ نے بڑی فراخدلی سے کی ہے۔ بات یہ ہے کہ شاعری کے ساتھ میرا تعلق کچھ ناجائز سا ہے... اس کم گوئی کا فائدہ یہ ہوا کہ بُرے شعروں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔
قاسمی صاحب والا مضمون بہت مزے کا ہے۔ آپ کسی پر جارحانہ حملہ کریں یا اس کا دفاع کریں‘ نتیجہ ایک سا ہوتا ہے۔ خدا آپ کی ہمدردی اور نفرت دونوں سے سب کو بچائے۔
میں نے دوسرے ہی روز ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کو آپ کی آمد کی اطلاع دی تھی۔ اگر آپ فرمائیں تو اخبارات میں خبر بھی چھپوا دی جائے۔ آپ کی آمد کی اطلاع چھپنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ جس جس کو اپنی عزت و آبرو عزیز ہوگی وہ کراچی سے چلا جائے گا۔
خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے اور آپ دشمنوں کے سینوں پر حسب معمول مونگ دلتے رہیں‘ مگر خدا کے لئے حسینوں کے سینوں سے پرہیز کیجئے گا‘ گویا اب آپ کا معمول یہ ہونا چاہئے کہ دشمنوں کے سینوں پر مونگ اور حسینوں کے سینوں پر کفِ افسوس ملیے۔
کتاب انشاء اللہ اتنی عمدہ چھپے گی کہ ادب کی تاریخ میں اگر آپ کا نام آپ کی شاعری کی وجہ سے نہیں تو کتاب کی طباعت کی وجہ سے باقی رہ جائے گا۔ وزیر آغا کے حوالے سے میرا جعلی خط آپ نے خوب بنایا۔ میں اس سے نہیں ڈرتا ہوں کہ کسی کی شاعری کے بارے میں میری ''بری‘‘ رائے لوگوں کو معلوم ہو جائے‘ البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ آپ کی شاعری کے بارے میں میری اچھی رائے لوگوں کو معلوم ہوگی تو کیا کہیں گے۔ خدا مجھے اس شرمندگی سے بچائے!
اختر الایمان بلاشبہ اچھے شاعر ہیں لیکن نہ جانے کیوں ان کو یہ خیال ہا ہے کہ ہمچوں ما دیگرے نیست۔ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں جدید اردو شاعری کا امام ہوں۔ اس پر ایک صاحب نے یہ تبصرہ کیا کہ اختر الایمان کے والد مرحوم ایک مسجد کے پیش امام تھے۔ اختر کو وہاں موقع نہ ملا تو جدید شاعری کے امام بن گئے۔
مجھے معلوم ہے کہ اخفش کی بکری کی طرح تمہارے کتے کی سخن فہمی بھی بے مثال تھی۔ وہ تمہاری ہر نظم کا پہلا سامع ہوتا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تم شاعری میں ن م راشد سے متاثر ہو۔ یہ محض بہتان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم صرف اور صرف آنجہانی سے متاثر تھے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب سے تم نے شاعری شروع کی ہے‘ شاعری اور کتے خصی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ عزیزم موصوف سے تعلق خاطر کی بنا پر تمہیں ہی گوناگوں فائدے نہیں پہنچے بلکہ وہ عزیز بھی خاصا فائدے میں رہا۔ اول اول وہ سخن فہم تھا بعد میں سخن در بھی ہوگیا۔ سنا ہے کہ وہ بھونکتا بھی تھا تو عروضی حدود کے اندر‘ اسے بحررمل متمن مخبون بہت پسند تھی‘ یہ تمہاری بھی پسندیدہ بحر ہے۔ تمہارا کلام اس بحرمیں غرق ہوا ہے اور یہ دلیل ہے اس کی کہ تم دونوں ایک دوسرے سے کس حد تک متاثر تھے! اعلیٰ گیٹ اپ کے ساتھ چھپی اس کتاب کی قیمت 650 روپے ہے۔
آج کا مطلع
رکو اگر تو روانی بحال کر لینا
مثالِ سبزہ ہمیں پائمال کر لینا