تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     31-08-2015

کیاعمران خان پھر ناکام ہوں گے؟

عمران خان کے ایک سو چھبیس روزہ دھرنے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ یہ ایک عظیم الشان ناکامی کی صورت میں پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ خدانخواستہ ان کے دھرنے کے نتیجے میں حکومت گر جاتی یا کوئی غیر دستوری بندوبست وجود میں آجاتا تو پھر نہ جانے کتنے عرصے تک نظام شکن دھرنوں کا سلسلہ چلتا رہتا۔ عجیب بات ہے کہ جو دھرنا حکومت گرانے کے لیے رچایا گیا تھا اسی نے عام آدمی کو دستوری نظام کی افادیت پر یکسو کردیا اور جب خان صاحب پر یہ آشکار ہوا تو وہ 2013ء کے الیکشن کی عدالتی انکوائری کے معاہدے کے راستے اس بند گلی سے باہر نکل آئے۔ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک محدود سی شبینہ مجلس بن کر رہ جانے والے دھرنے کے عوض انہیں بہت کچھ مل گیا تھا۔ جب عدالتی کمیشن نے اپنی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا تو خان صاحب ہر پہاڑ کے نیچے سے برآمد ہونے والی چوہیا کو دُم سے پکڑ کر ٹی وی کیمروں کے سامنے لے آتے اور عدالتی کمیشن کی مہارت و دیانت کا قصیدہ پڑھ کر رخصت ہوجاتے۔ اس کمیشن نے جب اپنی حتمی رپورٹ میں بتایا کہ 2013ء کا انتخاب قابلِ قبول حد تک صاف و شفاف تھا تو خان صاحب کو اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ نہ جانے وہ اس دھچکے کے اثرات سے کیسے نکلتے اگر این اے 122 میں ایاز صادق کے خلا ف اور این اے 154 میں جہانگیر ترین کے حق میں الیکشن ٹریبیونلز کے فیصلے نہ آجاتے۔اس پر طرہ یہ ہوا کہ
حکومتی جماعت نے غیر ضروری طور پر جلد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کی بجائے دونوں حلقوں میں دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ یہ درست ہے کہ یہ فیصلہ حکومت کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس کے فوری اعلان نے عمران خان کو ایک بار پھر اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ حکومت نے ٹربیونل کے فیصلے من و عن قبول کرکے گویا ان کے دھاندلی کے موقف کو درست مان لیا ہے۔ یہاں سے خان صاحب ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوئے ، الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، امیدوار نامزد کیے اور ساتھ میں الیکشن کمیشن کے ارکان کے استعفوں کا مطالبہ داغ دیا۔ بات یہیں تک رہتی تو یہ اعلیٰ درجے کی سیاست تھی لیکن خان صاحب نے موقعے سے فائدہ اٹھا کر ایک بار پھر وہی غلطی کردی جو وہ دھرنے کی صورت میں کر چکے ہیں؛ یعنی ایک اور دھرنا اب جس کا نشانہ الیکشن کمیشن ہے۔ 
الیکشن کمیشن کے ارکان کو دستور نے پورا تحفظ دے رکھا ہے، اگر ان پر کوئی الزام لگانا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی ایک طریقِ کار طے ہے جس کے مطابق پہلے الزام ثابت کیا جائے گا اور پھر انہیں ان کے عہدوں سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر کوئی اصرار کرے کہ اسے الیکشن کمیشن کے ارکان کی شکل پسند نہیں تو اس بارے میں دستور خاموش ہے۔ کوئی اپنے حامیوں کو لے کر الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دے کر بھی ان ارکان سے استعفوں کا مطالبہ کرے تو بھی کوئی قانونی راستہ ایسا نہیں جس پر چل کر خان صاحب اپنا مقصد حاصل کرسکیں۔ اگر الیکشن کمیشن کے معزز اراکین خود ہی استعفے دے دیں تو پھر دوسری بات ہے ، لیکن یہاں اس اندیشے کا کیا کیجیے کہ کل کو خان صاحب اپنے حواریوں کو لے کر سپریم کورٹ کے سامنے چیف جسٹس کا استعفٰی مانگ لیں، پھرکسی صوبے کے چیف سیکرٹری سے بگڑ جائیں یا کسی اور سے تو کوئی کیا کرسکے گا؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر خان صاحب کے دباؤ سے موجودہ الیکشن کمیشن ٹوٹ گیا تو اس کی دوبارہ تشکیل میں وہ اپنے لیے ویٹو پاور کا تقاضا کریں گے اور پھر ان کے لیے وہی کمیشن قابل قبول ہوگا جو انتخابات کا انتظام و انصرام صرف انہیں خوش کرنے کے لیے کرے ۔ یہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی کی سمجھ میں جلد ہی آجائے گا اور خو د کو تحریک انصاف سے دور کرنے میں زیادہ وقت نہیں لے گی۔پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی آخری تجزیے میں الیکشن کمیشن کے معاملے میں کھل کر حکومت کا ساتھ تو شاید نہ دیں لیکن عمران خان کا راستہ آسان نہیں کریں گی۔ رہ گئی بات حکومت کی تو وہ الیکشن کمیشن کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرے گی کیونکہ ایک بار الیکشن کمیشن ٹوٹ گیا تو 2013ء کے انتخابات پر بھی ایک سوالیہ نشان لگ جائے گا، جس کا جواب ایک نئے الیکشن میں پوشیدہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام حریفوں کو ایک بار پھر متحد کرنے کی راہ پر تک لگا کر ایک بار پھر اپنی ناکامی کا سامان کرلیا ہے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت سے یہ سارے نکات پوشیدہ ہیں۔ اس جماعت میں ایک گروپ ایسا ہے جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے خالصتاََ قانون اور پارلیمان کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔میری معلومات کے مطابق اس گروپ میں شامل لوگوں کی بات لاہور کے اجلاس میں سنی تو گئی لیکن مانی نہیں گئی۔ اس گروپ کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن کے معاملے پر پارلیمنٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل کا راستہ اختیار کرنا چاہیے نہ کہ ایجی ٹیشن کا۔ یہ بات اتنی معقول ہے جسے خان صاحب زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔ معلومات یہ ہیں کہ اس گروپ نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے اور کسی بھی صورت اپنے لیڈر کو دھرنے کی طرف نہیں جانے دے گا۔
آخر میں ایک بن مانگا مشورہ کہ خان صاحب اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے انہیں جلسوں، دھرنوں اور دیگر سرگرمیوں میں ضرور مصروف رکھیں لیکن ان تمام سرگرمیوں کا ٹائم ٹیبل بناتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیں کہ پاکستان کے ایک محترم راہنما ہونے کے ناتے انہیں ملکی مفادات کو بھی سامنے رکھنا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جیسے ہی شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوتا ہے، وہ دھرنا شروع کردیتے ہیں۔ چین کے صدر پاکستان آنا چاہتے ہیں تو وہ شاہراہِ دستور چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب خدا خدا کرکے چین پاکستان تجارتی راہداری پر کام شروع ہوا ہے، اکتوبر میں وزیراعظم کو امریکہ جانا ہے اور کراچی میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو وہ میدان میں کود پڑے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نخواستہ خان صاحب تجارتی راہداری یا کراچی کے امن کے خلاف ہیں ، لیکن ان کے اقدامات سے کم ازکم یہ تاثر ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے پاکستان کے حالات کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved