تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-09-2015

گلشن کا کاروبار چلے

حکمران جماعت نے عمران خان کو اتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہے کہ میں بھی ان کے جال میں پھنس گیا ہوں۔سرکاری ٹیم کے جتنے فاسٹ‘ میڈیم فاسٹ‘ لیگ سپنر ‘ آف سپنر بائولر ہیں‘ سب کا نشانہ ‘عمران خان بنے ہوئے ہیں۔فاسٹ بائولر زکو اسی فرمائش کے ساتھ گیند ملتی ہے کہ وہ عمران خان کو آئوٹ کریں ۔بے چارے روزانہ صبح کو طرح طرح کے دائو سوچ کر گیندیں پھینکنا شروع کرتے ہیں اور شام کو اسی طرح مایوس گھر چلے جاتے ہیں۔ عمران خان کی وکٹ ان کے ہاتھ نہیں لگ رہی۔ میری طرح اخباری قارئین اور ٹی وی کے ناظرین‘سرکاری ٹیم کے بائولروں کو دن بھر دوڑتے اور بازو گھماتے دیکھتے ہیں۔ دیکھنے والے تھک جاتے ہیں مگر بائولنگ کرنے والوں کو مجبوراً تازہ دم دکھائی دینا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کریں تو شام کو پیشی ہوتی ہے۔ جس کی پیشی نہ ہو‘ وہ سفارشیں ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے کہ صاحب‘ مجھ سے ناراض لگتے ہیں۔ کسی طرح میری پیشی کرائیں ‘ تاکہ صاحب کی دوچار جھڑکیاں سن کر میری تسلی ہو کہ نوکری ابھی باقی ہے۔سرکاری بائولروں کا رونا تو پتہ نہیں کب ختم ہو‘ ان کا تو روز کا سیاپا ہے۔ہائے عمران۔ اوئی عمران۔ آہ عمران۔ رو عمران رو۔ وہ بے چارے رو عمران کہتے کہتے‘ خود رونے لگتے ہیں۔ روتے ہوئے ہی عمران کے خواب دیکھتے ہیں اور اگلی صبح گیند ہاتھ میں لے کر‘ دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
آج میں خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے طنز و مزاح اور قہقہو ں سے بھر پور مناظر کا لطف اٹھانے لگا ہوں۔ضلع کونسل کے ان 12ممبروں نے تو بڑے سے بڑے مزاحیہ مناظر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ صبح اچھے بھلے تحریک انصاف کے امیدوار تھے۔12بجے سے پہلے بھی تحریک انصاف کے ہی امیدوار رہے۔12بج کر ایک منٹ پر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ سب کے سب پارٹی بدل کر‘ گاہک کے انتظار میں بیٹھ گئے کہ کوئی آئے اور یہ بتائے کہ اب ہم کس پارٹی کے ممبر ہیں؟شائقین سیاست میں شرطیں لگنے لگیں کہ شام ہونے سے پہلے پہلے‘ کون کس پارٹی کا ممبر ہوگا؟ یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ اپنی قیمت لگانے والے ممبروں کی جیب میں کیا گیا‘ لیکن شرطیں لگانے والوں میں سے کئی کی جیبیں بھر گئیں اور کئی کی خالی ہو گئیں اور یہ ہار جیت‘ ان ممبروں کے ضمیر کی قیمت سے یقیناً زیادہ تھی‘جس کے بدلے میں انہوں نے پارٹی بدلی۔ ''دنیا چینل‘‘ پر افتخار احمد کا نیا پروگرام‘ پارٹی بدل ممبروں میں بہت مقبول ہو گیا ہے۔اب خیبر پختونخوامیں خریدار گلیوں میں صدائیں لگاتے ہوئے‘منتخب اراکین کو ترغیب دے رہے تھے کہ ''بدل دو‘‘۔امیر مقام کو تو یہ نعرہ بہت ہی راس آیا۔ اس کے بندوں نے ''بدل دو‘‘ کی صدائیں لگا کرگلی گلی سے کام کے پیس نکالے اور قیمت لگا کر‘امیر مقام کا مقام‘ مزید بلند کر دیا۔ہو سکتا ہے امیر مقام کتنے بھی نیک دل اور شریف آدمی ہوں‘ ضمیر فروشی کے اس دور میں ان کا نام بہت پر کشش ہے۔ہر کوئی انہیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے کہ اللہ نے انہیں امیر بھی بنایا ہے اور مقام بھی دیا ہے۔خدا کرے‘ ان کی نگاہ 
میری طرف ہو جائے اور ذرا سی امیری اور چھوٹا سا مقام‘ میرے ہاتھ بھی لگ جائے۔مجھے ان 12ضمیر فروشوں کی تلاش ہے‘ جنہوں نے پورے12بجے ‘نعرۂ تکبیر بلند کیا اوراپنا چھابا لگا کرسارے ملک میں شش و پنج کی لہر دوڑا دی تھی کہ یہ تھوک کا سودا‘اچانک عین پولنگ کے دن مارکیٹ میں کیسے آگیا؟ کیونکہ ٹی وی پر جو مسلسل ٹکر چل رہے تھے‘ وہ ان درجن بھر چوزوں کے تھے ‘جو اسی صبح انڈوں سے نکل کر‘ بولیاں لگانا شروع کر چکے تھے۔ شام کو نتائج دیکھنے کی فرصت ملی تو پتہ چلا کہ ضلع ناظم کا عہدہ تو تحریک انصاف لے اڑی۔ پھر یہ 12چوزے کہاں گئے؟ خبروں سے تاثر مل رہا تھا کہ ان چوزوں کو یقیناً مسلم لیگ(ن) خریدے گی۔ اس کے پاس وفاق کا خزانہ ہے۔ وزیر خزانہ‘گھر کے ہیں۔ اسمبلی جیب میں ہے۔ میڈیا بریف کیس میں ہے۔ اس سے بہتر خریدار کون ہو سکتا ہے؟ اور بکے ہوئے ان ممبروں پر‘کوئی لوٹا بنانے کی تہمت بھی نہیں لگا سکے گا کیونکہ سرکاری ٹیم جو عمران خان پر چھوڑی گئی ہے‘اسی میں سے دوچار تیز دانتوں والوں کا رخ ہش کر کے‘ ان کی طرف بھی کر دیا جائے گا۔میرا سوال تو یہ ہے کہ جن12 چوزوں نے‘ دن کے عین 12بجے ‘اپنی بولی لگا کرپانسہ پلٹنے کی کوشش کی تھی‘ اس کا آخر کیا بنا؟ کہیں انہیں اسی پارٹی نے تو نہیں خریدلیا؟ جس کے ٹکٹ پر وہ کامیاب ہو کر‘ انڈوں سے باہر نکلے تھے؟ اور اگر کسی باہر کی پارٹی نے سودا خرید لیا تو وہ اسے لے کر کہاں گئے؟ کسی نائب ناظم کو تو نہیں بیچ دیا؟ کے پی کے میں ان گنت عہدیدار بنے ہیں ۔ پشاور کے عہدیداروں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور ان کی قیمت پشاور کی منڈی میں لگ سکتی تھی۔ ضلع ناظم کا عہدہ پی ٹی آئی لے گئی۔ ہو سکتا ہے چوزے نائب ناظم کے ہاتھ لگ گئے ہوں اور شام ہونے تک ان کا ریٹ بھی گر گیا ہو ۔ کسی فضول سے عہدے کے فضول سے امیدوار نے انہیں خرید لیا ہو۔ صوبے میں ایک ہی دن جا بجا منڈیاں کھلی تھیں۔ امیدواروں کی بھی کمی نہیں تھی۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ‘گھر سے بریف کیس بھر کے مال خریدنے نکلے تھے۔ بہت سے عہدیدار بن گئے ہوں گے اور کئی بنتے بنتے رہ گئے ہوں گے مگر شک کی فضا تو پیدا ہو گئی۔خان صاحب جو صاف ستھرے الیکشن کا خواب لے کر‘ میدان میں اترے ہیں‘ وہ منڈی کے رواجوں کو پوری طرح نہیں بدل سکے۔ تبدیلی کا جو مقبول عام نعرہ لے کر‘ بلدیاتی انتخابات کے میدان میں خان صاحب اترے تھے‘ اس کاافتخار احمد کے نعرے ''بدل دو‘‘کے ساتھ ادل بدل ہو گیا۔ایک طرف کا نعرہ تھا''بدل دو‘‘ اس کا مطلب یار لوگوں نے پارٹی بدل دو لے لیا۔ خان صاحب کے نعرے کا بنیادی لفظ ''تبدیلی‘‘ تھا۔ تبدیلی میں بھی بدلنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جتنا تازہ مال ‘کے پی کے کی منڈیوںمیں تھو ک کے حساب سے آگیا تھا‘ لگتا ہے اس کے خریداروں میں کوئی خاص مقابلہ نہیں ہوا۔خریداروں نے منڈیوں میں زیادہ مال دیکھ کر سوچا ہو گا کہ اتنا سستا سودا تو ہر کوئی خرید لے گا‘ ہم خواہ مخواہ مقابلے میں اتر کے ریٹ کیوں بڑھائیں؟ خریداروں کی اسی بے نیازی نے مال والوں کے حوصلے پست کر دیے اور وہ شام تک خریداروں سے مایوس ہو کر‘ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ گھر جانے لگے ہوں گے۔ کیا قیامت کا دن ہو گا؟ جب پشاور میںمایوسی میں ڈوبے ہیجڑوں کو‘ شام ڈھلے گھر جانا پڑا ہو گا۔
خان صاحب نے اپنی طویل سیاسی مہم کے دوران‘ بیداری کی ایک لہر تو پیدا کر دی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں میں امید کی جوت جگائی ہے ‘ جو ایک ہی ماڈل کے‘ ایک ہی جیسے خواب دکھانے والے‘ ایک ہی جیسے تھکے ہوئے سیاست دانوں کو دیکھ دیکھ کر‘ اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے تھے اور اب عزم و ہمت سے بھرے تازہ دم اور جواں عزم لیڈر کو دیکھ کر‘ کم از کم ان کی مایوسیاں‘ امیدوں میں ضرور بدلی ہیں اور ان میں خواب دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہو اہے کہ وہ اپنی دنیا کو خود بدل سکتے ہیں لیکن جہاں سے خان صاحب کو سیاسی میٹریل دستیاب ہو رہا ہے‘ وہاں پرانی عادات اور رسوم و رواج کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔انتخابات کی گرم بازاری میں جو انتخابی دیہاڑی دار میدان میں نکلتے ہیں‘انہیں جلد ہی اپنی خدمات کا صلہ درکار ہوتا ہے۔تبدیلی کے ابتدائی مراحل میں سب کچھ یک لخت نہیں بدلتا۔خان صاحب نے اپنی سیاسی زندگی میں غالباً پہلے بلدیاتی انتخابات دیکھے ہیں۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والے‘ سب لوگوں کی آرزوئیں اورامیدیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بعض نے پہلے ہی سے آنے والے ایم این اے‘ ایم پی ایز کے ڈیرے میں اپنے بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈی ہوتی ہے۔ خان صاحب کے پاس نہ تو جمے جمائے ڈیرے ہیں اور نہ ہی اس طرح کے ایم این اے اور ایم پی ایز ہیں‘ جو گھر میں بیٹھ کر بلدیاتی انتخابات کی ڈوریاں ہلاتے ہیں۔اگر خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں 40سے50فیصد تبدیلی آگئی ہے تو یہ بھی خان صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ہمارے ہاں کرپشن کا جما جمایا کلچر اتنا مضبوط اور طاقتور ہے کہ بھٹو جیسا انقلابی لیڈر بھی اسے نہیں بدل سکا بلکہ خود اس کی نذر ہو گیا اور نہ تبدیلی کے عزائم لے کر اقتدار سنبھالنے والے جرنیل‘ اس پرانے سیاسی ڈھانچے کو بدل پائے۔ وہ اگلے ہی چندروز میں اسی گلے سڑے نظام کے دستر خوان پر بیٹھے‘ مزے لے لے کر‘ لنچ اور ڈنر اڑا رہے تھے۔خان صاحب کو اپنی جدو جہد کے نتائج دیکھنے کے لئے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ انتظار ان کی زندگی میں ختم ہو جائے تو وہ بڑے خوش نصیب ہوں گے ورنہ نتائج تو بہر حال نکلیں گے خواہ کسی بھی وقت نکلیں۔یہ وقت اگلے چند مہینوں میں شروع ہو گیا تو خان صاحب اپنے لگائے ہوئے کھیت کی فصل خود کاٹ سکیں گے ورنہ بقول شاعر ؎
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved