تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-09-2015

قیامت کی سحر ہونے تک

بھارتی جارحیت کی تاریخ 13اور14اگست1947ئکی نصف شب شروع ہوئی۔لاہور سے ریڈیو پاکستان نے اپنی نشریات کا آغازکیا تو بھارت کی جارحیت شروع ہو گئی۔حیدر آباد دکن کی خود مختار ریاست اور جموں و کشمیر، سمیت بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہو ئی چھوٹی بڑی بے شمارمسلم ریاستوں کے والی اور نواب گرفتار کر لیے گئے۔ان ریاستوں کو بھارت میں جبراً ضم کر لیا گیا۔ یہ ریاستیں سائز اور وسائل میں یورپی ریاست''مناکو‘‘ سے بڑی تھیں۔جارحیت کے اس ابتدائی دور میں بھارتی سورماؤں نے لُٹے پٹے مہاجروں کے‘ جنہوں نے واہگہ بارڈر کراس کرنا تھا‘‘ خون کی ندیاں بہا کر دادِ شجاعت وصول کی، لیکن پاکستان بننا تھا اور بن کے رہا۔پاکستانی قوم کا عزم یہ تھا:
اے وطن خُون میں ڈوبے تیرے پرچم کی قسم
تو نے جینا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
پھر بھارتی جارحیت کے ''فیز‘‘2- کا آغاز ہوا۔ابتداء''رن آف کچھ‘‘ سے ہوئی۔1948ء کے آخر میں بھارت نے نوٹوں کا منہ کھول کر افغانستان میںاپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا‘چنانچہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ابھی حیات تھے کہ میران شاہ پر افغان پاوندوں کا حملہ کرایا گیا۔علاقے کے کمشنر جسٹس آصف جان کے بزرگ پنڈی وال تھے۔قائد اعظم نے براہ راست انہیں فون کیا اور بحیثیت گورنر جنرل آف پاکستان حکم دیا:''انہیں گولیوں اور بندوقوں کی زبان سے بتا دو، پاکستان زندہ رہنے کے لیے بنا ہے، پوری آبُرو کے ساتھ‘‘۔
1965ء میں لاہور پر حملہ کیا گیا۔1971ء میں مشرقی پاکستان میںجارحیت ہوئی۔1999ء میں کارگل کی جنگ،1984ء میں اسرائیلی گٹھ جوڑسے ہماری ایٹمی تنصیبات پرحملے کی منصوبہ بندی اور لائن آف کنٹرول پر قتل و غارت گری،مقبوضہ کشمیر میں مظالم ،گجرات،حیدر آباد،دہلی،ممبئی میں مسلمانوں کا قتلِ عام ۔سمجھوتہ ایکسپریس سمیت جارحیتوں کی طویل داستان بھارت کا ٹریک ریکارڈ ہے۔
بھارتی جارحیت کا تیسرا راؤنڈ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے تصادم کے تناظر میں''لانچ‘‘ہوا۔ہماری''ڈالرانہ‘‘اور''ریالی‘‘ قیادت کی خارجہ پالیسی منہ کھولے دیکھتی رہ گئی۔ مودی، برادر اسلامی ملک کے مرکز میں جا کھڑا ہوا جہاں حکمران خاندان بھی جلسہ نہیں کرتے وہاں دور دیس میں''دور درشن‘‘ کا سرکاری سرپرستی میں اہتمام ہوا۔ 50ہزار کرسیاں لگائی گئیں۔پاکستان مخالف بیان دینے والے وزیر اور گورے ساتھ بٹھائے گئے۔مودی نے گھنٹوں پاکستان پر لفظوں کی بمباری کی۔ بھارتی جنگجو نے کہا، بہت جلد (پاکستان کا) قبلہ درست ہوجائے گا۔ساتھ دعویٰ کیا، پورا ایشیا بھارت کے ساتھ ہے۔یہ بھی کہہ ڈالا،جن کو یہ پیغام دینا تھا وہ پیغام کو سمجھ چکے۔ایک طرف متحدہ عرب امارات میں جلسہ ہو رہا تھا دوسری جانب بحیرہ احمر کی تنگ پٹی پر مقبوضہ اسرائیلی شہر تل ابیب کے دوسری جانب بھارت کے جیٹ فائٹرسخوئی، ہر کولیز،سی ون ـ 30 اورایلیٹ فوجی دستوں سے بھرے جہاز تبوک کے تاریخی شہر میں لینڈ کر رہے تھے۔شہید قائد عوام کے زمانے میں شیخ زید، شاہ فیصل اور ایران کی بادشاہتیں نہیں بلکہ مصرکی سوشلسٹ حکومت بھی پاکستان کو بھارت کے خلاف جنگوں میں مدد دیتے۔جواباًََ پاکستانی فوج کے بہترین ذہن،سپاہی اور ہوا باز ان برادر ملکوں کی سرحدوںکو محفوظ اور مضبوط بناتے رہے۔
حالیہ دور میں قوم کو عظیم علاقائی نقصان اور سفارتی ہزیمت کا سامنا کیوںکرنا پڑا؟ ہماری پسپائی کی تفصیل جاننا قوم کا حق ہے اور پردہ ڈال کر لیپا پوتی کے ذریعے سچ چھپانا مجرمانہ فعل۔ آئیے اس کے اہم پہلو دیکھ لیں۔
بد ترین ضیاء آمریت سے پہلے خلیج فارس اور عرب ملکوں سے ہمارے تعلقات برادرانہ بھی تھے اور تجارتی بھی۔ایران کے ساتھ تفتان بارڈر طے کر نے کے لیے پاکستان نے عظیم قربانی دی جس کا ثبوت ایرانی بلوچستان سمیت کئی علاقے ہیں جو ہمارے تھے، ایران کے حوالے کیے گئے۔دوسری جانب گوادر بندرگاہ کا تحفہ سلطنت عمان نے پاکستان کی حاکمیت میں دے دیا۔ضیاء نے شخصی اقتدار کو دوام دینے کے لیے اپنے رشتہ داروں کو مڈل ایسٹ کے اداروں میں پلانٹ کیا۔کسی زمانے میں پورے اسلام آباد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ایک لال مسجد تھی۔پھر وہ وقت آیا Gـ6 میں واقع بوائز ہائی سکول میں ایک فرقے نے لمبی چوڑی زمین پر قبضہ کیا اور اپنی طرزکے اسلام کا قلعہ بنا دیا۔چند ماہ میں ان کی دیکھا دیکھی دوسرا فرقہ اٹھا، اسی سکول کے دوسری جانب گراؤنڈ میںدوسرے برانڈ کے اسلام کا قلعہ ایکڑوں تک پھیلا دیا۔پھر سی ڈی اے کا ایسا چیئر مین لگایا گیا جس کے چمچے کڑ چھے ،دلال اور فرنٹ مین دنوں میں امیر ہوگئے۔ان کی اولادیں آج وفاقی دارالحکومت کے اقتدار میں ہیں۔جو زیادہ تابعدار تھے انہوں نے اپنے لڑکے لڑکیوں کے نام چیئر مین کے نسب سے منسوب کئے۔کاغذاتِ مال میں قوم مختلف جبکہ شناختی کارڈ میں آباؤ اجداد کے قبیلے کی جگہ حاکم کا قبیلہ لکھ ڈالا۔ ہر خالی پلاٹ ،مارگلہ ہلزکی ہر ندی ، گندا نالہ تجاوزات سے بھرگیا۔ہسپتال کے گرین ایریاز بیرون ملک سے ملنے والی برادرانہ امداد کی فراوانی سے چمک اٹھے۔اس کے نتیجے میں مقامی طور پر ایسے نیاز مند دستیاب ہوئے جن کی وجہ سے برادرانِ اسلام نے امداد کو اپنی طرز ِحکومت، طرزِ فکر اور طرزِ اسلام سمیت نافذ کر نے کی قیمت مانگ لی۔ایشیاء کا واحد ملک چین ہے جس نے کبھی پاکستان کی امداد کے ساتھ ان شرائط کو نتھی نہیںکیا۔
آج ہر درس گاہ اپنے اپنے طبقہ خیال ، مسلک، فرقہ وارانہ برانڈ کی کتابیں پڑھاتی ہے۔ ہمارا سرکاری طبقاتی نظامِ تعلیم ‘غریبوں کے لئے علیحدہ سلیبس،مڈل کلاس کے لیے علیحدہ سکول اور حکمران پیدا کرنے کے لیے تعلیم کے نام پر علیحدہ انڈسٹری لگا کر بیٹھ گیا۔اس تقسیم کو کم کرکے قومی اتفاقِ رائے کی تلاش کی بجائے ادارے لمبی تان کر سو گئے۔حالیہ یمن جنگ کے بعد جن محترم شخصیات نے پاکستان کے دورے کیے، پاکستان کے بارے میں جو گفتگو کی وہ سب اسی صورت حال کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔کون نہیں جانتا، مڈل ایسٹ میں بھارتی ہم سے بہت زیادہ تعداد میںمو جود ہیں۔ایسے میں ان ملکوں کے سفارت حانوں میں بیدار مغز پروفیشنل لوگوں کو لگانے کی ضرورت تھی۔ذاتی محلات ،کارخانوں، اولادوںکی خدمت کے لیے سفارت خانوں میں ذاتی ملازم لگائے گئے۔مسلم بلاک کے اہم ترین خطے میں بھارت کے پیشہ ور سفارت کاروں،چانکیہ پالیسی اور ہمہ وقتی کوششوں نے اناڑیوں کے اس سفارتی لشکرکو چاروں شانے چت کر دیا۔ 
سپریم کورٹ میں ہوبارہ بسٹارڈ پرندے کے شکار کا کیس بلوچستان ہائی کورٹ سے پہنچا۔ہماری حکومت سوئی رہی، اسے معلوم تھا ہوبارہ کا شکار شاہی خاندانوں کے طرزِ زندگی کی بنیاد ہے۔اسی لیے 70ء کی دہائی میں جناب ِبھٹو انہیں کھینچ کر رحیم یار خان لے آئے۔یوں بھارت جس کے پاس صحرا کا بڑاحصہ موجود ہے پیچھے رہ گیا۔مڈل ایسٹ پاکستانیوں کے لیے دوسرا گھر بنا۔پیٹرو ڈالرکی آمدنی نے پاکستان کے دیہات کی کایا پلٹ دی۔سپریم کورٹ کیس لگا، سرکاری ٹیم نے بغیر تیاری کے انتہائی نیم دلی سے پاکستان کے مفاد سے آنکھیں پھیر لیں۔
ابھی تک گِرے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔وزیراعظم جدہ سٹیل ملز اور وزیر خزانہ اپنے محلات کے دورے بند کریں، اعلی ترین سفارت کار لگائیں اور مڈل ایسٹ میں روٹھ جانے والوں کو راضی کریں۔یہ کام کسی کمپنی کے پارٹنر یا دلال نہیں کر سکتے، یہ ریاست کے مستقبل کا سوال ہے۔میں نے پی پی پی کی خرابی کے آغاز میںکہا تھا، قربانیاں جیالوں کی اور موجیں دلالوں کی، ہم نقصان روک سکتے ہیں‘ کاروباری ذہنیت سے نہیں بلکہ ریاستی سوچ سے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved