تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-09-2015

ہاتھیوں کے لشکر

وقت کا سیلِ رواں آغاز کرتا ہے تو ٹھہرتا کہیں نہیں۔ پورس کا ہو، ابرہہ یا راجہ داہر کا، ہاتھیوں کا ہر لشکر تباہ ہوتا ہے۔ تاریخ کے لیے پھر نشانیاں رہ جاتی ہیں ؎
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کاررواں
زرداری صاحب نے کہا، وزیرِ اعظم کا روّیہ انتقامی ہے اور وفاقی ادارے حدود سے متجاوز۔ عبدالقادر بلوچ نے جواب دیا: کافی ثبوت موجود ہیں اور قانون حق دیتا ہے۔ صوبائی خود مختاری کی بات بھی ہوئی۔ صوبائی حکومت اگر کرپشن کی سرپرست ہو تو وفاق کیا کرے؟ کرپشن سے دہشت گردوں کو حصہ ملے تو رینجرز اور فوج کیا کریں؟ نادرِ روزگار مفکر رضا ربّانی کے احترام میں خاموش رہیں، جن کے مطابق صوبے ہی سب کچھ ہیں؟ پرویز رشید منمناتے رہے، عبدالقادر بلوچ نے چیلنج کا جواب بھی دیا کہ پیپلز پارٹی میدان میں اترے گی۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار کی طرح عسکری قیادت کے ساتھ پُرجوش تعاون کے حامی نے کہا: اس چیلنج کو ہم قبول کرتے ہیں۔ جہاں تک پرویز رشید کا تعلق ہے، فوجی لیڈرشپ تو رہی ایک طرف، کبھی قائدِ اعظمؒ کی حمایت میں ایک لفظ نہ کہا۔ تا آنکہ احتجاج ہوا۔
بعض اعتراضات سو فیصد درست ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسحق ڈار کے خلاف قانون کیوں حرکت نہیں کرتا، منی لانڈرنگ کا جنہوں نے اعتراف کیا۔ رانا مشہود کیوں گرفتار نہ ہوئے، جنہیں ٹی وی پر رشوت لیتے دکھایا گیا۔ فرمایا: الیکشن کے نتائج ہم نے قبول کر لیے؛ حالانکہ یہ ریٹرننگ افسروں کا الیکشن تھا۔ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں سے یہ آشکار ہے۔ ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کے قاتل کیوں نہیں پکڑے جاتے؟ پھر حدیبیہ پیپر مل اور اصغر خان کیس کا معاملہ، تیس ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ اور آئی ایس آئی سے سرمایہ وصول کرنے کا الزام۔
احتجاج ہے اور شدید احتجاج مگر دھاوا نہیں۔ پیغام یہ کہ یلغار جاری رہی تو وہ بھی جواب دیں گے۔ اپنے گرفتار ساتھیوں کو وہ بے گناہ نہیں کہتے۔ وہ ان الزامات کی تکرار نہیں کرتے، عمران خان جن کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ دبئی، جدّہ اور لندن میں کاروبار۔ زرداری صاحب کر نہیں سکتے۔ دبئی سے لندن اور فرانس ہی نہیں، وسطی ایشیا سے امریکہ تک ان کی اپنی جائیدادیں بکھری پڑی ہیں۔ اسی لیے وہ کسی تحریک کا آغاز بھی نہیں کر سکتے۔ الیکشن کمیشن پر عمران خان کی تائید وہ کر سکتے تھے، سو کر دی۔ مستقبل قریب کا معرکہ اسی پر ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہے۔ نون لیگ اس سوال کا جواب دے نہیں سکتی کہ ان کی حمایت اگر درکار نہیں تو نئے ممبر وہ کیوں نہیں بنا دیتی۔ آئینی بحث فالتو ہے۔ دس ماہ کی باقی ماندہ تنخواہیں دے کر ''باعزت‘‘ انہیں سبکدوش کیا جا سکتا ہے۔ چالیس مقامات پر عدالتی کمیشن نے نااہلی کی نشان دہی کی ہے ۔ کیا وہ قابلِ مواخذہ نہیں؟
فوجی مہم کی زرداری صاحب نے تائید فرمائی۔ یہ بے بسی کا اظہار ہے۔ فوج سے متصادم ہو نہیں سکتے ورنہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی اسی کو دی تھی۔ جرأت مندی کا حال یہ کہ 25 جون کو ملک سے فرار ہو گئے۔ فریال بی بی اور بلاول بھٹو بھی۔ قدرے قرار آیا، اندازہ ہوا کہ خاندان کی گرفتاریاں نہ ہوں گی تو پھوپھی، بھتیجا لوٹ آئے۔ فریال بی بی اب درویشوں کے دروازے کھٹکھٹاتی پھر رہی ہیں۔ مشورہ یہی ملا کہ فوج کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کریں۔ دولت کا انبار ایسا کرنے بھی نہیں دے گا۔ اندازہ یہ ہے کہ فوج سے اگر کبھی مفاہمت ہوئی تو اس کا راستہ نیب کے ذریعے سودے بازی ہو گا۔ سات سال میں کتنی رقم زرداری خاندان، حواریوں اور سندھ کے وزرا نے لوٹی ہے؟ اندازہ ہے کہ بیس بلین ڈالر۔ کم از کم دس بلین ڈالر تو وصول کرنے چاہئیں۔
ایم کیو ایم سے مفاہمت کر کے اسمبلیوں سے مستعفی وہ نہ ہوں گے۔ پیپلز پارٹی دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ لہجے میں نرمی اور عمل میں استواری کے ساتھ نواز شریف اگر ڈٹ گئے تو زرداری صاحب پسپا ہوں گے۔ عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت برقرار رہ سکتی ہے۔ ایسی حکومت، جو لوٹ مار نہ کر سکے۔ بین السطور پیغام یہ بھی ہے کہ خاندان پر ہاتھ نہ ڈالا جائے تو وہ صبر کر سکتے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی کم، امن کی بحالی اور کاروباری فروغ نے ملک بھر کو فوج کی پشت پر کھڑا کر دیا ہے۔ عمران خان سے زرداری صاحب کو امید نہیں رکھنی چاہیے۔ صاف صاف انہوں نے کہہ دیا کہ کراچی آپریشن کے وہ حامی ہیں۔ پیشکش کی کہ کرپشن کے خلاف ایسی ہی مہم ان کے صوبے میں بھی چلائی جائے۔
ہر عمل کی ایک سزا ہے اور ہر سزا کا ایک وقت ہوتا ہے۔ مہلت دی جاتی ہے لیکن ہر مہلت بالآخر تمام ہوتی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ الطاف حسین اور زرداری صاحب کی مہلت تمام ہو چکی۔
زرداری صاحب یہ نہیں کہتے کہ وہ بے قصور ہیں بلکہ یہ کہ نون لیگ بھی ان جیسی ہے۔ ''تم قابلِ معافی ہو تو ہم کیوں نہیں؟‘‘ یہ دلیل بھی دی کہ بھارت نے یلغار کر رکھی ہے اور ہمارے خلاف آپ کو کارروائی سوجھتی ہے۔ بجا کہ قاسم ضیا، سینیٹر بنگش کے صاحبزادے، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف اقدامات وفاقی حکومت نے کیے۔ ماحول تو عسکری قیادت نے پیدا کیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا ریمانڈ تو رینجرز نے لیا ہے۔ فوراً بعد جنرل راحیل شریف نے بیان داغا کہ مجرم معاف نہ کیے جائیں گے۔
زرداری صاحب کی دلیل باطل ہے۔ کوئی خطاکار اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی دوسرا ویسا ہی مجرم آزاد ہے۔ ٹھیک 1303 برس پہلے 712ء عیسوی کی بات ہے، راجہ داہر نے لکھا ''ہند اور سندھ، جنگ اور دریا کے بادشاہ، داہر کی طرف سے مغرور اور متکبّر محمد بن قاسم کے نام۔ دیبل میں دکاندار آباد تھے۔ انہیں شکست دینا کون سی بڑی بات ہے۔ ابھی سندھی بہادروں سے تمہیں واسطہ نہیں پڑا۔ خبردار قدم آگے نہ بڑھانا۔ ہمارے پاس ان گنت ہاتھی اور بڑا لشکر ہے۔ اپنی جان تم مشکل سے بچا سکو گے‘‘۔
بالا قامت، صاحبِ متانت اور باوقار، بڑ ہانکنے سے گریزاں، وجیہہ چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں۔ مورخ کہتے ہیں کہ سفید ریش بھی خود کو ابنِ قاسم کے احترام پر مجبور پاتے۔ اس نے لکھا ''ہمارے پاس بھی قوّت کی کوئی کمی نہیں۔ ہمارا بھروسہ مگر اللہ پر ہے۔ تم نے مجھے ہاتھیوں کی دھمکی دی ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ڈیل ڈول کا یہ جانور مجبور ہوتا ہے۔ ایک مچھر کو بھی خود سے دور نہیں کر سکتا۔ تمہارا سر کاٹ کر میں عراق بھیجوں گا یا پھر حق کے لیے قربان ہو جائوں گا‘‘۔
کبھی اقبالؔ روئے تھے کہ کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا۔ خدا کا شکر ہے کہ عسکری قیادت آج پُرعزم ہے۔ قوم پشت پر کھڑی ہے۔ دہشت گرد پسپا ہیں۔ اللہ پاکستان پہ مہربان ہے۔ بلیک میلنگ ناکام رہے گی۔ ایک سال، پانچ یا سات برس، بات انشاء اللہ قانون کی پاسداری پر جا کر ٹھہرے گی۔
خواجہ آصف نے کہا ''ہماری باری بھی آ سکتی ہے‘‘۔ بہترین کامیابی مرحلہ وار ہوتی ہے۔ زرداری خاندان کو گرفتار نہ کرنا چاہیے اور شریف حکومت برقرار رہنی چاہیے۔ نواز شریف کے لیے احسن یہی ہے کہ قانون سازی کر کے اپنا اور سمندر پار سے دوسروں کا سرمایہ واپس لائیں۔ رانا مشہود اور اپنے دوسرے ساتھیوں کا احتساب کریں۔ اسحٰق ڈار کا دامن دھل نہیں سکتا؛ الّا یہ کہ معافی مانگیں اور دبئی میں کاروبار بند کریں۔
وقت کا سیلِ رواں آغاز کرتا ہے تو ٹھہرتا کہیں نہیں۔ پورس کا ہو، ابرہہ یا راجہ داہر کا، ہاتھیوں کا ہر لشکر تباہ ہوتا ہے۔ تاریخ کے لیے پھر نشانیاں رہ جاتی ہیں ؎
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کاررواں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved