آگے پہاڑ ہے‘ پیچھے کھائی اور درمیان میں ہمارے بھولے بھالے وزیراعظم ہیں۔ وجہ جعلی مینڈیٹ ہے اور کرپشن۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ جو سرخ آندھی چلنے والی ہے‘ فالتو برگ و بار سب اڑا لے جائے گی۔ یہ جعلی مینڈیٹ ہی کے شاخسانے ہیں کہ خود الیکشن کمیشن اس قدر مشکوک ہو کر رہ گیا ہے کہ اب چاروں طرف سے صوبائی ارکان کے استعفوں کا دبائو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان کی آواز کے ساتھ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے جبکہ ایم کیو ایم کسی لمحے بھی اس میں اس لیے شامل ہو سکتی ہے کہ اس بحران کے نتیجے میں نواز حکومت کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ اور‘ یہ معاملہ اگر طول پکڑتا ہے اور نواز حکومت قائم رہتی ہے تو بھی درمیانی مدت کے انتخابات یقینی ہو جائیں گے جس کے لیے حکومت ہرگز تیار نہیں ؟ جبکہ اس وقت تک یہ مزید بے اعتبار ہو چکی ہوگی۔ نیز الیکشن رولز پر اگر صحیح معنوں میں عمل ہوا تو کئی حضرات ویسے ہی منظر سے ہٹ جائیں گے۔
یہی نہیں بلکہ نواز حکومت کی پریشانیوں میں اضافے کے اور بھی اسباب پیدا ہو چکے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ متوقع ہے کہ کراچی آپریشن ہی اگر اسی طرح چلتا رہے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکے تو اس کے منطقی انجام تک پہنچتے پہنچتے سارا معاملہ ہی صاف ہو جائے گا۔ اُدھر زرداری صاحب نے مفاہمت کی اپنی ڈھال واپس لے لی ہے جو اب تک حکومت کو بچائے ہوئے تھی لیکن اب جبکہ مرغی کے پائوں خود جلنا شروع ہو گئے ہیں تو وہ اپنے نوزائیدہ چوزوں سمیت کسی کو بھی اپنے بچائو کے لیے کام میں لا سکتی ہے‘ اگرچہ ہر دو فریق کے لیے کچھ بھی کارگر نہ ہوگا۔ بیشک یہ خبریں آ چکی ہیں کہ زرداری کی بڑھک کے بعد یوسف رضا گیلانی وغیرہ کی گرفتاری کا معاملہ فی الحال مؤخر کردیا گیا ہے لیکن آخر تابہ کے۔ ہونی نے تو ہو کر ہی رہنا ہے کہ آپریشن پر اب وفاقی حکومت کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔ پھر‘ جو لوگ پکڑے جا چکے ہیں وہ اپنی اپنی فہرستیں بھی تفتیش کاروں کو فراہم کر رہے ہیں کہ کون کون سے زعماء ان کے شریکِ کار رہے ہیں یا وہ کس کس کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ زرداری صاحب تو پہلے کی طرح اب بھی نرم پڑ جائیں گے اور ان کی یہ للکار گیدڑ بھبکی ہی ثابت ہوگی لیکن اس کا بھی انہیں یا حکومت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ گیم دونوں کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سندھ حکومت چار و ناچار مستعفی ہو جائے اور اس طرح مظلوم ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کرے؛ چنانچہ اگر وہاں گورنر راج نافذ ہوتا ہے تو جملہ معززین پر ہاتھ ڈالنا مزید آسان ہو جائے گا اور دہشت گردی کے خلاف یہ آپریشن اپنے انجام کی طرف بڑھتا رہے گا اور چھوٹی بڑی مچھلیاں ایک ہی ترازو میں تُلتی رہیں گی۔ کھایا پیا سب اگلوا لیا جائے گا اور جیلوں کے دروازے بھی کھل جائیں گے جن کے بارے پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ جیلیں ہم نے دیکھی ہوئی ہیں اور ہم جیلوں سے نہیں ڈرتے لیکن اب یہ جیلیں صحیح معنوں میں جیلیں ہوں گی‘ پہلے کی طرح آرام گاہیں نہیں ہوں گی۔ اور‘ یہ آندھی پنجاب کا بھی پھیرا اس وقت تک کر چکی ہوگی جس کے بارے میں اب بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں دہشت گردوں کے لیے ہمدردی کے جذبات اب بھی پائے جاتے ہیں کہ میاں صاحبان تو آپریشن شروع ہونے سے پہلے طالبان کے ساتھ مُک مُکا پر بھی تیار ہو گئے تھے۔
نواز شریف صاحب کے لیے ایک مزید دردِ سر بھارتی رویہ بھی ہے جو ظاہر ہے کہ کشمیر کے بارے حکومت کے نئے مؤقف سے بھی سامنے آیا ہے جو ماضی کی نسبت کئی گنا مضبوط ہے اور جس نے بھارت کو واقعی پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ وہ تو کشمیر کے حوالے سے اپنی سابقہ خصّی قسم کی پالیسی پر ہی کاربند تھی لیکن اب سب کو معلوم ہے کہ مؤقف میں یہ بے لچک مضبوطی کیوں اور کیسے پیدا ہوئی ہے اور حکومت اس سلسلے میں بھی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور ہزار خواہش کے باوجود اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت کا بھی اختیار نہیں رکھتی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ایک اور سردردی بھی میاں صاحب کو درپیش ہے اور وہ ہے تمام مسلم لیگوں کا یکسو ہونا جس میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور جس کے نتیجے میں نوازلیگ کے متعدد ارکان اسمبلی بھی چھلانگ لگا کر اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو خیرباد کہنے کو تیار بیٹھے بتائے جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک اور ڈینٹ ہے جو حکومت کی باڈی میں پڑنے جا رہا ہے اور جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور حکومت اس سے بے خبر بھی نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسے کوئی طریقِ کار بھی دستیاب نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو منہ زور پانی کے بہائو کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور کوئی بھی اضطراری فیصلہ یا اقدام کارگر ہوتا نظر نہیں آتا اور حکومت صحیح معنوں میں بند گلی میں داخل ہو چکی ہے‘ حتیٰ کہ اگر مفاہمت کی پالیسی بحال بھی ہو جائے تو صورتِ حال ذرا بھی تبدیل ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ اگر بامعنی جماعتوں کی طرف سے اصرار پر بھی ارکان الیکشن کمیشن استعفے نہیں دیتے‘ تو ضمنی انتخابات ہرگز نہیں ہو سکیں گے اور حکومت کے لیے ایک نیا بحران کھڑا ہو جائے گا جبکہ عوام الناس میں بھی حکومت کے لیے ہمدردی کا کوئی جذبہ ڈھونڈنے سے بھی دستیاب نہ ہوگا جس کے بارے کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی کم مدت میں اتنی غیر مقبول ہو جائے گی جبکہ اس کی وجہ سے اس کے مینڈیٹ کا جعلی ہونا ہے جو کئی لحاظ سے ثابت بھی ہو چکا ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ع سیلِ رواں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے!
آج کا مقطع
اب کس سے حفاظت کی توقع ہو‘ ظفرؔ خان
اللہ اگر اپنا نگہبان ہی نشِتے