تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-09-2015

مذہب کا دائرۂ کار

انسان کی زندگی پر مذہب کے اثرات کے حوالے سے معاشرے میں مختلف طرح کے نظریات وافکار پائے جاتے ہیں۔ معاشرے کا ایک طبقہ مذہب کو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر‘ جبکہ دوسرا اسے انسان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سے تعبیر کرتا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ مذہب جدید ریاستوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور قومی ریاستوں اور عصری معاشروں کو مذہب پسندوں سے خطرہ ہے۔ اسی طرح دینی مدارس کے حوالے سے بھی مختلف طرح کے افکار سننے کو ملتے ہیں۔ چند روز قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب کا بیان تھا کہ مدارس کی اکثریت تشدد اور دہشت گردی میں ملوث نہیں لیکن بعض مدارس نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نفرت اور تشدد کو پروان چڑھانے والے ان عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عام طور پر مدارس سے متعلق اس قسم کے بیانات سے جہاں ان اداروں کے خلاف منفی تاثر ابھرتا ہے‘ وہیں بہت سے لوگ مذہب سے بدگمان بھی ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً یہ لوگ مذہب کو اجتماعی زندگی کی بجائے انفرادی زندگی اور ریاستی معاملات سے زیادہ فرد کے معاملات تک محدود کرنے کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ سرے سے مذہب کی افادیت کے منکر ہیں اور مذہبی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ انسانوں کی اجتماعیت یا اکثریت کی باہمی مشاورت سے انسان ایسے فیصلے کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے جو انسانوں کے لیے ضروری یا مفید ہوں اور اس مقصد کے حصول کے لیے یہ طبقہ مغربی پارلیمان کو دئیے گئے لا محدود اختیارات کو اپنے لیے اُسوہ یا نمونہ سمجھتا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اور انتظامی معاملات فقط پارلیمان کے نمائندوں کی مشاورت سے ہی طے ہونے چاہئیں اور اس سلسلے میںوہ پارلیمان کے فیصلوں پرمذہب کی قد غن لگانے کے قائل نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے انفرادی زندگی کا تو اس سلسلے میں یہ کامل آزادی کے طلب گار ہیں اور ان لوگوں کے نزدیک بے حیائی ، شراب نوشی، مردوزن کے آزادانہ اختلاط اور رقص وسرود سے متعلق مذہبی تعلیمات سے رہنمائی کا حصول ہر فرد کا نجی مسئلہ ہے وہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی تبلیغ اور نصیحت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر دور میں مادر پدر آزادی کا طلب گار رہا ہے لیکن مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ فکرو عمل کی لا محدود آزادی اس کے مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اُسے زندگی کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرنے کے لیے قدم قدم پر مذہب اور روحانیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ 
اگر مذہب انسانی زندگی سے نکال دیا جائے تو انسان اورحیوان میں امتیاز کرنا مشکل ہو جائے۔ حیوان اپنے جبلی تقاضوں کو اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق پورا کرتے ہیں جب ان کا پالا کسی طاقتور جانور سے پڑتا ہے تو وہ راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور اگر ان کا سامنا کسی کمزور جانور سے ہو جائے تو اُسے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جنگل کے جانوردوسرے جانوروںکے حقوق کی پاسداری کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے پرآمادہ نہیں ہوتے بلکہ ہر جانور کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ جنگل کے کمزور جانور اپنی غذائی ضروریات کوپورا کرنے کے دوران کسی اور درندے کی بھوک مٹانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ 
مذہب انسان کو ایثار، قربانی ،شرم ، حیا ، رواداری اور مروّت کا درس دیتا ہے۔ انسان کو چوری، ڈکیتی، راہزنی، دھوکہ بازی ،شراب نوشی اور زنا کاری سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انسان اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ اپنی جبلت اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے جائز اور درست راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ وہ یہ بات سمجھ جاتا ہے کہ وہ خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائے غریب کا مال ہڑپ نہیں کرسکتااور خواہ کتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو جائے کمزور افراد کی عزتیں نہیں لوٹ سکتا۔ اگر مذہب کو انسانی سماج سے نکال دیا جائے تو انسان اپنی بھوک اور ہوس کو مٹانے کے لیے ہر جائز وناجائز راستہ اختیار کرے گا لیکن مذہب کی رہنمائی اُسے مجبور کرے گی کہ وہ لوٹ مار کی بجائے تجارت اور زناکاری کی بجائے نکاح کا راستہ اختیار کرے۔ مذہب کی تعلیمات پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہو کر انسان ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ ، گراںفروشی ، جھوٹ اور مبالغہ آمیزی کی تجارت سے بچ سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں اس کا اپنا ضمیر مطمئن ہو گا وہیں معاشرے کو بھی معیاری اشیائے صرف حاصل ہوں گی۔ انسانی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے بھی آتے ہیں کہ جب انسان کسی ناگہانی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح کسی عزیز کی جدائی یا مالی نقصان کی صورت میں بھی انسان شدید رنج وکرب کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اگر انسان کا تعلق اپنے رب سے کمزور ہو تو انسان ان صدموں اور پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ نہیں کر سکتا جبکہ خالق و مالک کے حضور سجدہ ریز ہونے سے انسان کی جملہ پریشانیوں کے خاتمے کے قوی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ 
مذہب اور انسان کے کمزور تعلق کا نتیجہ کئی مرتبہ رشتوں کی حق تلفی کی شکل میں بھی نکلتا ہے۔ خود غرض اور نفسا نفسی کا شکار انسان کسی بھی ضعیف یا کمزور شخص کا بوجھ اٹھانے کا قائل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ـمغربی معاشروں میں لوگوں کی بڑی تعداد بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤسز میں چھوڑ آتی ہے۔ جبکہ مذہب کی تعلیمات انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ اس نے ہر قیمت پر خندہ پیشانی سے اپنے والدین کی خدمت کرنی ہے۔ مذہب انسان کو سمجھوتے اور خیر خواہی کا درس دیتا ہے۔ دوسرے انسانوں کی کمزوریوں کے باوجود انہیں برداشت کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بد عملی کے باوجود مسلمان معاشروں میں طلاق کی شرح غیر مسلم ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مذہب سے کمزور تعلق کی صورت میں انسان رفیق حیات کی معمولی سی کمزوری یا کوتاہی کی وجہ سے اس سے بیزار ہو جاتا ہے جب کہ مذہبی تعلیمات اسے خاندان کی خیرخواہی کا درس دیتی ہیں۔ اگر ہم مذہب اور قوم کے باہمی تعلق پر غور کریں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ مذہب قومی، لسانی اور گروہی تعصبات کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تعصبات کی بجائے انسان آفاقی انداز میں سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم وطن عزیز پر غور کریں تو یہ ایک مختلف النسل ریاست ہے ۔ اس میں بسنے والے پنجابی، پٹھان، بلوچی ، سندھی اور کشمیری‘ زبان اور ثقافت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن دین اور مذہب کی نسبت سے یہ تمام قومیں اکائی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اگر مذہب سے تعلق کمزور ہو تو خود غرضی جنم لیتی ہے اور معمولی تعصبات قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔
اسی طرح مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق پر غور کر نے سے اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ مذہبی قوانین کا مقصد معاشروں کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے کے سوا کچھ نہیں ۔ قانونِ قصاص کا مقصد انسان کی جان کی حفاظت کرنا، چوری کی حدکا مقصد انسان کے مال کو محفوظ کرنا، شراب کی حد کا مقصدانسان کی عقل کی حفاظت کرنا اور زنا کی حد کا مقصد انسان کی عصمت اور نسب کی حفاظت کرنا جبکہ قذف کا مقصد انسان کو جھوٹے الزامات سے بچانا ہے۔ قتل و غارت گری، فساد، انتشار اور خلفشار سے ہر باشعور فرد کو نفرت کرنی چاہیے لیکن اس نفرت کا نتیجہ مذہب کی روح پرور اورحیات بخش تعلیمات سے انحراف کی شکل میں نہیں نکلنا چاہیے۔مدارس میں اسی دین فطرت کی تعلیم دی جاتی ہے جس نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو بیٹیوں کی عزتوں کا رکھوالا بنا دیا ، چھوٹے چھوٹے تنازعات پر ایک دوسرے کی جان لینے والوں کو انسانی جانوں کا محافظ بنا دیا، شراب کے نشے میں بدمست رہنے والوں کو شب زندہ دار بنا دیا اور انسانوں کے خون کو چوسنے والے سود خوروں کو صدقہ وخیرات کا عادی بنا دیا۔ بعض انسانوں کی بدعملی، کمزوری اور سفاکی کا ردعمل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی زریں تعلیمات سے لاتعلقی کی شکل میں ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم صرف مذہب کی افادیت سے ہی محروم نہیں ہو ں گے بلکہ نظریۂ پاکستان اورتحریک پاکستان کے مقاصد کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved