ایک کہانی ختم ہوئی۔ 1973ء کا دستور مرتب کرنے والے سیاستدانوں اور ماہرین قانون میں سے ‘آخری فرد‘ آج اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ تھے عبدالحفیظ پیرزادہ۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ یوں تو پاکستان نے‘ بہت سی ممتاز شخصیتیں پیدا کی ہیں۔ لیکن حفیظ پیرزادہ اپنی طرز کے منفرد شخص تھے۔ انہوں نے امیرکبیر خاندان میں جنم لیا۔ ان کے والد پیرزادہ عبدالستار‘ سندھ کے ممتاز سیاستدان تھے۔ اپنے دور کی ارسٹوکریسی سے تعلق رکھتے تھے۔ دیگر مشاغل کے علاوہ ‘ستار بجانے کے شوقین تھے۔ جس دور سے ان کا تعلق تھا‘ اس میں سندھ کے چند امراء ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کیا کرتے ۔عبدالحفیظ پیرزادہ بھی معیاری تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے ایل ایل بی کے بعد ایل ایل ایم کیا اور پولیٹیکل سائنس میں ایم ایس سی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی انہوں نے سوویت یونین اور کمیونزم پر ایک تھیسس لکھا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ‘ پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھنے والے‘ 30اراکین میں شامل تھے۔یہی ان کی پہلی سیاسی جماعت تھی۔ آخری سانس تک وہ اسی سے وابستہ رہے۔بھٹو صاحب کی قریبی ٹیم میں ‘یہ نمایاں ماہرقانون تھے اور اپنی محنت اور لگن کے ساتھ ‘جلد ہی ان کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شامل ہو گئے اور یہ تعلق بے تکلفانہ دوستی میں بدل گیا۔ بنیادی طور پر وہ ایک رئیس زادے تھے جبکہ پیپلزپارٹی‘ مزدوروں اور کسانوں کی جماعت تھی۔ بھٹو صاحب کے بعد ‘وہ دوسرے رئیس زادے تھے‘ جو میلے کپڑوں والے مزدوروں اور کسانوں کے اجتماعات میں ‘زمین پر بچھی دریوں پر ‘آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتے۔ بھٹو صاحب اور پیرزادہ کے علاوہ ‘سندھ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے‘ میررسول بخش تالپور بھی ان کے ساتھ بیٹھتے اور مزدوروں اور کسانوں میں بڑی بے تکلفی سے گھل مل جاتے۔ سیاسی حوالے سے وہ خاکسار تھے۔ میرعلی احمد تالپور ان کے بڑے بھائی تھے۔ بھٹو صاحب ‘انہیں اپنا بادشاہ کہا کرتے ۔ ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ'' ہم تومیرخاندان کی رعایا تھے۔ مگر اب یہ بھی ہمارے مزدور ساتھیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔‘‘ میرتالپور یہ سن کر بہت خوش ہوتے۔ جبکہ شاہانہ طرززندگی ان کی عادت بن چکی تھی۔پیپلز پارٹی کی تنظیم بنانے کے لئے‘ حفیظ پیرزادہ نے سرگرمی سے کام کیا۔ خصوصاً انہوں نے طالب علموں کو منظم کرنے کے لئے ‘دن رات محنت کی۔
پیرزادہ اعلیٰ پائے کے وکیل ہونے ساتھ‘ اعلیٰ پائے کے مقرر تھے۔ برجستہ جواب دینے کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کا تاریخی کام‘ دستور ساز کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت میں ہے۔ جمہوریت بحال ہوئی‘ تو بھٹو صاحب نے سب سے پہلے‘ دستورساز کمیٹی تشکیل دی۔ جس کے سربراہ اس وقت کے وزیرقانون‘ میاں محمود علی قصوری تھے۔ وہ ملک کے ممتاز قانون دان ہی نہیں‘ پاکستان کی قومی سیاست میں‘ قابل احترام حیثیت کے مالک تھے۔ ان کے والد محترم میاں عبدالقادر قصوری ‘ ان ممتاز مسلمان لیڈروں میں سرکردہ حیثیت رکھتے تھے‘ جنہوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ چند ایسے لیڈروں میں تھے‘ جو برلا اورڈالمیا کے برابر ‘کانگرس کولاکھوں روپے چندے میں دیا کرتے۔ اسی نسبت سے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے ‘تمام سیاسی لیڈروں اور کارکنوں میں‘میاں محمود علی قصوری کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا اور جب مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ ایک ہوئی‘ تو انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والی جتنی سیاسی تنظیمیں اور خاندان تھے‘ انہوں نے پاکستان میں اقتدار سنبھالنے والے‘ انگریز کے پٹھوئوں کی اطاعت قبول نہیں کی۔ ان پر مقدمے بنائے گئے۔ ان سب کی وکالت میاں محمود علی قصوری بلامعاوضہ کرتے اور دیگر اخراجات بھی اپنی جیب سے دیتے۔یہ وضاحت اس لئے کر رہا ہوں کہ جب دستورسازی کا مرحلہ آیا‘ تو دستور بنانے والی کمیٹی کے سربراہ میاں محمود علی قصوری تھے۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان جو اختلافی امور تھے‘ وہ میاں محمود علی قصوری کے احترام میں‘ تمام صوبائی قیادتوں نے اتفاق رائے سے طے کر لئے۔ آج بھی میری یہی رائے ہے کہ 1973ء کے دستور پر جو اتفاق رائے ہوا‘ اس کا سہرا میاں محمود علی قصوری کے سر ہے۔ دستورکا جو بنیادی ڈھانچہ تمام صوبوں نے قبول کیا تھا‘ آج بھی اسی بنا پر‘ یہ ایک متفقہ دستور ہے۔ بعد میں کچھ معاملات پر ‘میاں صاحب اور بھٹو صاحب کے درمیان اختلاف ہوا۔ وہ دستور ساز کمیٹی کی سربراہی سے مستعفی ہو گئے اور دستورسازی کا باقی ماندہ کام‘ قصوری صاحب کی جگہ کمیٹی کے سربراہ بننے والے عبدالحفیظ پیرزادہ نے مکمل کیا۔ اسی لئے حفیظ پیرزادہ کو 1973ء کے دستور کے معماروں میں تصورکیا جاتا ہے۔ بلکہ میری رائے یہ ہے کہ دستور کے معمار میاں محمود علی قصوری تھے اور تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داریاں عبدالحفیظ پیرزادہ نے پوری کیں۔ پاکستان کو واحد اور متفقہ قابل عمل آئین دینے والوں میں‘ ان دو شخصیتوں نے بنیادی کام کیا۔ اس کے بعد جتنی بھی ترامیم کی گئیں‘ انہیں مختصر وقفوں کے بعد بدلنا پڑا۔ تاریخ کے جس نازک موڑ پر‘ ہمارے مستقبل کی نئے حالات میں نقشہ بندی کی ضرورت تھی‘ اس وقت شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو صاحب کے سیاسی مشیروں میں ‘جن دو شخصیتوں نے اہم کردار ادا کیا‘ ان میں مشرقی پاکستان سے‘ تاج الدین گروپ اور مغربی پاکستان سے عبدالحفیظ پیرزادہ‘ سخت پوزیشن اختیار کرنے کے حامی تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مجیب کے مشیروں کی اکثریت ‘ بھارت کے زیراثر تھی۔ بعض تو مغربی بنگال میں پناہ گزین ہو کر‘ عملاً بھارت کے قیدی بن چکے تھے۔ جب پاکستان کے سیاستدانوں نے ان سے رابطے کی کوششیں کیں‘ تو بھارت نے مغربی پاکستان کے کسی سیاستدان کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کو ایک رکھنے کی‘ آخری کوشش بھی ناکام بنا دی گئی۔ اس وقت عبدالحفیظ پیرزادہ ‘ بھٹو صاحب کے ان مشیروں میں شامل تھے‘ جنہوں نے مجیب کے ساتھ کسی بھی طرح کی مفاہمت کا راستہ ڈھونڈنے کی کوششوں میں حصہ نہیں لیا اور سچی بات ہے‘ یحییٰ خان کا فوجی ٹولہ بھی بھٹو اور مجیب میں مفاہمت کا حامی نہیں تھا۔ ہماری بدنصیبی تھی کہ اس وقت کی فوجی اور سیاسی قیادت میں ‘صرف ایک بات پر اتفاق تھا اور وہ یہ کہ پاکستان کی بقا کے لئے کسی بھی مذاکراتی سمجھوتے کا راستہ بند رکھا جائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تصادم شروع ہونے کے بعد پاکستان کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن اس پر مجھے یقین ہے کہ تصادم شروع ہونے سے پہلے اگر بھٹو صاحب اور مجیب کے مشیروں کو‘ آزادانہ مشاورت کا موقع مل جاتا‘ تو پاکستان کو دولخت ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ باقی باتیں سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ مجیب کے مشیروں میں بھارتی لابی کا زور تھا اور بھٹو صاحب کے مشیروں میں ‘چند جنرلوںکی رائے وقیع تھی۔اس دور کے سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ ''نئے پاکستان‘‘ کی کابینہ میں ‘وزارت اطلاعات و نشریات‘ حفیظ پیرزادہ کے سپرد کی گئی تھی۔ ان کے دور میں پلٹن میدان ڈھاکہ کا وہ منظر ٹی وی پر دکھایا گیا‘ جو محب وطن پاکستانیوں کے لئے شدید دل آزاری کا باعث بنا۔ یہ فوٹیج نشر ہونے کا علم پیرزادہ کو نہیں تھا۔ فوٹیج چلا کر بہت بڑی غلطی کی گئی۔ پیرزادہ کی مخالف لابی‘ اس بہانے کی آڑ میں زیادہ مضبوط ہو گئی اور بھٹو صاحب جذباتیت کی اس فضا میں ‘پیرزادہ کو تحفظ نہ دے سکے اور یہ وزارت مولانا کوثر نیازی کو دے دی گئی۔پیرزادہ نے اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے کام کئے۔ لیکن ان کی بدقسمتی رہی کہ وہ اپنے کسی بھی بڑے کام کا اعزاز حاصل نہ کر سکے۔ مثلاً 1973ء کا دستور اتفاق رائے سے پاس کرانے میں‘ بھٹو صاحب کے بعد ان کا کردار نمایاں تھا۔ لیکن دستورسازی کا اعزاز بھٹو صاحب کے حصے میں آیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ اعلیٰ پائے کی شخصیات ‘جب کسی قدآورلیڈر کے زیرسایہ کام کر رہی ہوں‘ تو انہیں اپنے بڑے سے بڑے کارنامے کا اعزاز بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ہر کریڈٹ اس کے سینئر کو ملتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کون جانتا ہے‘ دوسری جنگ عظیم کا فاتح سٹالن ہے یا امریکہ؟ جس نے جنگ کے آخر میں ‘دوایٹم بم چلا کر کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا۔