تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     03-09-2015

پاکستان کا مرضِ ققنس

ہم پاکستانیوں کو اس وقت ایک بطل جلیل یعنی سپر ہیرو درکار ہے۔سپر ہیرو ز کے لئے ہماری اس چاہ کا مرض کسی ققنس کی مانند ہے۔ ققنس ایک دیومالائی پرندہ ہے جو اپنی بلند پروازی کی بدولت جل کر راکھ ہو جاتا ہے لیکن اپنی ہی راکھ سے یہ دوبارہ جنم لے لیتا ہے۔یہ پرندہ عدم زوال، احیاء، امید اور مثبت خیالی کی علامت ہے۔نیم خواندہ، ان پڑھ، جاہل اورغریب لوگوں پر مشتمل پاکستانیوں کی اکثریت آزادی کے وقت سے اپنے ان ققنس نما رہنماؤں کوحاصل کر کے پھر ان سے محروم ہوتی آئی ہے۔یہ ایک چکر ہے۔ یہ لیڈر عوام کو دھوکہ دے کران کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں چکمہ دے کر ختم ہو جاتے ہیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد نیا نام اور نئی صورت لے کر پھر جی اٹھتے ہیں۔
12اکتوبر 1999ء کا دن آیا تو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو معزول کر دیا۔ اس کے بعد 2002ء کا مشہور و معروف ریفرنڈم آیا۔وہ اپریل کی ایک صبح تھی۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ وقفے وقفے سے چل رہے تھے، جب ہم نیویارک میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل گئے تاکہ جنرل مشرف کے دورِ صدارت میں مزید پانچ برسوں کی توسیع کی حمایت میں ووٹ دے سکیں۔انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی کرپٹ جوڑی سے ہمیں ہمیشہ کے لئے نجات دلا دیں گے۔ہم نے ان کا یقین بھی کیا‘ لیکن انہوں نے اپنا وعدہ توڑ ڈالا!
بے نظیر بھٹو کے قتل سے ایک ماہ قبل جنرل کیانی نے فوجی سربراہ کے طور پر مشرف کی جانشینی سنبھالی۔ اس سے قبل وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ آئی ایس آئی کی سربراہی سے فوجی سربراہی تک یہ ترقی پاکستانی فوج کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوئی۔ اس ''جنرل کلین‘‘ سے ہمیں امید تھی کہ یہ ہمیں کرپشن اور دہشت گردی سے نجات دلا دیں گے؛ تاہم اس کی بجائے ریئل اسٹیٹ کے سودوں میں ان کے خاندان کے دولت کمانے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ ان کے دور میں خودکش حملے بھی عروج کو پہنچے۔سو کیانی صاحب بھی فلاپ ہو گئے!
چیف جسٹس افتخار چودھری کو جب جنرل مشرف نے اپنے عہدے سے برطرف کیا تو ہم سب کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئیں۔بے انصافی کے خلاف وہ ہمارے سپاہی ٹھہر ے۔ اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء کی اشرافیہ منیر ملک، علی احمد کرد، حامد خان، جسٹس (ر) طارق محمود اور اطہر من اللہ بھی ان کی حمایت میں آگے آئے۔اپنے چیف کے لئے ان لوگوں کے جوش نے پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کے جذبات میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ چیف جسٹس بحال ہوئے تو عمران خان نے ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کے بارے میں کہا کہ چیف جسٹس ایک بے مثال آدمی ہیں۔ انتظار کیجئے اور دیکھتے جائیے کہ وہ کرتے کیا ہیں۔ چیف جسٹس نے کچھ کارکردگی بھی دکھائی اور این آر او کو منسوخ کر دیا۔ ہم لوگ خوشی سے ناچ اٹھے۔ ہم نے انہیں لمبی عمر کی دعائیں دیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی بحالی کے بعد چیف جسٹس نے خدا کے ساتھ کئے اپنے اس عہد کو نبھایا کہ وہ دیانت امانت اور صداقت کے ساتھ اپنے لوگوں کی خدمت کریں گے، لیکن جو گروہ سب سے پہلے ان سے برگشتہ ہوا، وہ ان کے اپنے ہی جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔ یعنی وہی وکلاء جو پہلے دن رات ان کی مدح میں ترانے گاتے تھے۔وہی اعتراز احسن اور ان کے ساتھی اب ہمیں ٹی وی چینلوںپر آکر محتاط لہجوں میں یہ بتا رہے تھے کہ وہ اپنے ''ہیرو‘‘ سے کس قدر مایوس ہیں۔پھر آخر کار چیف جسٹس کا بلبلہ اس وقت پھٹ گیا جب ایک اہم شخصیت نے الزامات لگائے کہ انہوں نے چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کو رشوت دی تھی۔میڈیا میں ہم نے جو ققنس تخلیق کیا تھا، اس کے بارے میں غلط ثابت ہونے پر ہم سب یقینا بہت شرمسار ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ہمیں سب سے زیادہ مایوس کیا۔
پھر چودہ اگست 2014ء کا دن آیا۔ اس دن عمران خان کے بقول پاکستان کی قسمت ہمیشہ کے لئے بدلنے والی تھی۔ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ سیاستدانوں کی موجودہ کرپٹ کھیپ کو رخصت کر کے وہ ایک حقیقی جمہوریت قائم کریں گے۔ہم نے کپتان کو کامیابی کی دعائیں دیں۔ وہ اس ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کو زندگی، آزای اور مسرت کے حقوق دینے جا رہے تھے۔ تاہم کہیں نہ کہیں راستے میں عمران خان نے اپنا سحر کھو دیا۔
ہیروز کے اس مجمع میں مختصر سی جھلک ایک اور ریٹائرڈ فوجی جرنیل نے بھی دکھائی۔ موصوف کا نام شاہد عزیز تھا۔ مشرف نے انہیں نیب کا چیئرمین بنایا تھا۔ہمیں لگا تھا کہ یہ ہی وہ آدمی ہیں جو آخر کار اس کرپٹ، بودی اور احمقانہ تنظیم کی تطہیر کر دیں گے جو روز اول سے حکومت کی داشتہ بنی ہوئی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل(ر) شاہد عزیز اپنی آتشیں آنکھوں میںاخلاص کی جھلک رکھتے تھے۔ تاہم بعض لوگوں کے خیال کے مطابق وہ فراڈ اور تصنع سے پر تھے۔ سینئر صحافی زاہد حسین نے تو انہیں جھوٹا اور منافق کہہ کر ان کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔آئی ایس آئی کے ایک اور کار آگاہ بھی ایسے تھے جن پر ہم نے بھروسہ کیا لیکن وہ ویسے ثابت نہیں ہوئے جیسا ہم نے ان کے بارے میں سوچا تھا یعنی جنرل شجاع پاشا! وہ صحافیوں کو ذاتی پیغامات کے ساتھ ای میلز بھیجنے کے کافی شوقین تھے۔ جب بھی ہمارے ان باکس میں ان کی طرف سے کوئی ای میل آتی توہم قسم کھا کے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان کے لئے ان کی محبت درجہ اتم کو پہنچی ہوئی ہے۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ میمو گیٹ سکینڈل کا پیچھا کیا۔ حسین حقانی کو ہدف پہ لئے رہے۔اس طرح انہوں نے منصور اعجاز جیسے مشکوک کردار کو ساکھ بخشی۔ وہی منصور اعجاز جس نے وہ میمو طشت از بام کیا تھا جو مبینہ طور پر اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے فوجی بغاوت کی راہ روکنے میں امریکیوں سے امداد طلب کرنے کے لئے لکھا تھا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے راتوں رات منصور اعجاز ققنس کے درجے پر فائز ہو گئے تھے۔بعد میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہمارا یہی ققنس ''Stupidiscoـ‘‘ کے ویڈیو میں بے لباس عورتوں کی کشتی پر کمنٹری کرتا پایا گیا۔جنرل پاشا اور ان کے اس وقت کے باس جنرل کیانی دونوں پر جاوید ہاشمی نے اقربا پروری کا الزام لگایا ہے۔ ہاشمی صاحب عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے لگائے گئے یہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں۔ تاہم آئی ایس پی آر اور پی ٹی آئی کی تردیدوں کے باوجودبہتوں کو یقین ہے کہ جاوید ہاشمی سچ بول رہے ہیں۔
آج صرف ایک ہی انسان ایسا ہے جو دوسروں سے الگ اور ممتاز نظر آتا ہے۔ سب اس کی عزت کرتے ہیں اور اسے محبت اور احترام سے دیکھتے ہیں یعنی ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف۔ ان کے مداح کہتے ہیں کہ وہ شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پاکستان کو دھوکہ کبھی نہیں دیں گے۔ پچاس برس قبل جنرل راحیل شریف کے ماموں میجر عزیز بھٹی( نشانِ حیدر) 1965ء کی ہند و پاک جنگ میں شہید ہوئے تھے اور آرمی چیف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف (نشانِ حیدر) اکہتر کی ہندو پاک جنگ میں شہید ہوئے۔
تاہم جنرل راحیل شریف کے کردار پر حتمی منصفی تاریخ ہی کرے گی۔ایک انگریزی روزنامے کے کالم نگار ان کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں: اس وقت اور آنے والے وقتوں کے لئے بھی جنرل راحیل کو ایک نجات دہندہ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وہ اس وقت ہمارے ملک کے مقبول ترین فرد ہیں، اس سرزمین پر ان کے ہم پلہ کوئی رہنما نہیں۔ ان پر اس بارانِ توصیف و ستائش اور وفاداری کی قسموں کا کیا اثر ہوتا ہوگا؟ کیا ان کی یہ بڑھتی ہوئی مقبولیت ان تقاضوں میں مزیدشدت کا باعث نہیں بنے گی کہ ان حالات میں ان کا دخل زیادہ گہرائی، زیادہ وسعت اور زیادہ مدت کے لئے بلکہ حال کے مقابل زیادہ واضح طور پر بھی ہونا چاہئے؟
سو جنرل راحیل شریف اس وقت پاکستان کے ققنس ہیں جن کے لئے ہم سبھی دعا گو ہیں کہ ان کے پر کبھی نہ جلیں اور ان کی پرواز ہمیشہ بلند سے بلند رہے تاکہ وہ ہمارے ایک لازوال ہیرو بن جائیں۔ آمین! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved