بیروت کی رعنائیوں کی کوکھ میں پلتی مفلسی اور محرومی پھٹ پڑی ہے۔ ہفتہ 29 اگست کو ریاستی پولیس نے بیروت شہر کے وسط میں ہونے والے ہزاروں افراد کے احتجاجی مظاہرے کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ رات دس بجے کے قریب نوجوان مردوں اور لڑکیوں کو نہ صرف لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے گھائل کیا گیا بلکہ ان کے گھروں تک پولیس اہلکاروں نے ان کا پیچھا کیا ۔ درجنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ کسی بھی معاشرے میں جب سماجی اور معاشی عذاب بڑھ جاتے ہیں، زندگی جینا محال ہو جاتا ہے تو کوئی واقعہ کوئی حادثہ تحریکوں اور بغاوتوں کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ 22 اگست سے شروع ہونے والی اس بڑے پیمانے کی تحریک میں نوجوان ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مظاہرین کا مطالبہ بہرحال معاشی اور سماجی مراحل سے اوپرجا چکا تھا۔ حکومت کو گرا دو!۔ لیکن لبنان میں معاشی اورسماجی مسائل ایک عرصے سے شدت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی اذیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ پانی کی قلت خصوصاً موسمِ گرما میں زندگی کو مفلوج اور تلخ کرنے کا باعث بن گیا ہے۔ اس قسم کے مسائل جمع ہوتے ہوتے ایک لاوے کی طرح نوجوانوں اور محنت کشوں کی اس تحریک کی صورت میں پھٹ پڑے ہیں۔ منگل یکم ستمبر کو مظاہرین نے وزارتِ ماحولیات اور دوسری سرکاری عمارات پر دھاوا بول دیا اور ان میں احتجاجی قابض ہو کر مہم کو تیز کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان دھرنوں سے اٹھنے اور عمارات سے نکلنے کی پہلی شرط وزیرِ داخلہ کا استعفیٰ کا مطالبہ رکھ دیا ہے۔ یہ تنائو تا دمِ تحریر جاری ہے۔
اس تحریک کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ پہلی تو 2011ء کے عرب انقلاب کے بہائو کے دوران لبنان میں کوئی بڑی تحریک یا عوامی بغاوت سامنے نہیں آئی تھی۔ دوسرا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ لبنان کی جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی و فرقہ وارانہ تقسیموں کو چیر کر ہر پسِ منظر کے نوجوان اور محنت کش ہر تفریق کو مسترد کر کے اس تحریک میں یکجا ہیں۔
اس المیہ کو اب ایک صدی گزر چکی ہے جب پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ زوال پذیر ہو کر انہدام کا شکار ہوئی توخصوصاً برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں نے جہاں مشرقِ وسطی کے دوسرے خطوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے ذریعے حکمرانی کا سلسلہ شروع کیا وہاں نئے اور مصنوعی ملک اور ریاستیں بھی اپنے مفادات اور استحکام کیلئے تشکیل دیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج بھی اس تقسیم کاری اور لوٹ مار کی حاکمیت میں حاوی فریق بن گیا تھا۔ لیکن لبنان وہ ملک بنایا گیا جس کے اندر بھی اس تفریق کو قائم رکھا گیا جس سے یہ معاشرہ 1943ء میں قیام کے بعد سے ہی مذہبی اور فرقہ واریت کے زہر اور خونریزی کا شکار رہا ہے۔ یہ تضادات اور تصادم 1970ء کی دہائی میں ایک خونیں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے جو 1990 ء تک جاری رہی۔ لیکن پھر سامراجیوں کے تسلط میں جو مختلف مذہبی فرقوں میں 'صلح‘ کروائی گئی اور 1992ء کے بعد جو 'آئین‘ بنوایا گیا اس میں اس مذہبی تفریق کو نہ صرف قائم رکھا گیا بلکہ اس کو آئینی اور قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا ۔ آج بھی لبنان میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کی بنیاد مذہبی فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ اس آئین کے مطابق لبنان کے صدر کا میرونائیٹ عیسائی ہونا، پارلیمنٹ کے سپیکر کا شیعہ مسلمان ہونا اور وزیرِ اعظم کا سنی مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اب سیاسی بحران اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پچھلے 18ماہ سے صدر کا عہدہ خالی پڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ سیاسی بحران اس معاشی زوال کی عکاسی کرتا ہے جس سے نہ صرف لبنان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے بلکہ عام انسان کی زندگی تلخ سے تلخ ہوتی جا رہی ہے۔
بیروت جو بہت سارے عرب شہزادوں اور مغرب کے سیٹھوں کیلئے عیاشی کا اڈہ بنا دیا گیا تھا اس کاروبار میں مندی واقع ہوئی ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی منافرتوں اور خانہ جنگیوں سے بھی لوگ اکتا گئے ہیں لیکن طبقاتی بنیادوں پر جو مسائل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں ان سے ایک نئی طبقاتی یکجہتی کا ادراک لبنان کے عوام کو ہو رہا ہے۔سرمایہ داری کے ترجمان جریدے اکانومسٹ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ لبنان کی سرمایہ دارانہ حکومت اور ریاست کس حد تک ناکام اور خستہ حالی کا شکار ہے۔ اپنے حالیہ شمارے میں اکانومسٹ لکھتا ہے ''آپ کسی لبنانی
خاندان میں چلے جائیں۔ تھوڑی جان پہچان کے بعدآپ یہ فقرہ ضرور سنیں گے کہ 'ریاست کہاں ہے؟‘ صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب بیروت کی گلیوں میں غلاظت کے ڈھیر سخت گرمی اور تلملاتی دھوپ میں اتنی بدبو چھوڑنے لگے کہ تعفن سے جینا محال ہو گیا۔ جب ان مظاہروں میں ایک فرد کی ہلاکت ہوئی تو 'تم بدبودار ہو‘ تحریک کو منظم کرنے والوں نے اس کی موت کا ذمہ دار مذہبی لیڈروں کو ٹھہرایا۔ آنے والے دنوں میں اس تحریک کو ایک امتحان سے گزرنا پڑے گا کہ یہ سیاست دان اس کو مذہبی بنیادوں پر توڑ سکیں گے یا نہیں؟۔ ماضی میں انہوں نے ہر تحریک کو انہی حربوںسے ناکام کیا ہے۔ لیکن حکمران بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرتے کرتے انہوں نے اپنے کاروبار اور منافع خوری کے ذرائع انہی بنیادوں پر استوار بھی کئے ہیں۔ اب جبکہ بحران سے معیشت اور کاروبار سکڑنے شروع ہو گئے ہیںتو ان کے درمیان تضادات کی شدت سے سیاسی اور حکومتی بحران ابھرا ہے جس کی بنیا دیں پھر نظام کی زوال پذیری پر مبنی ہے۔ لبنان میں نسبتاً مقداری طور پر کم لیکن معیاری طور پر ہراول محنت کش طبقہ اور نوجوان ایک شعوری ارتقا کے عمل میں سے تیزی سے گزر رہے ہیں۔ لبنان اگر عرب انقلاب(بہار) کے ڈھل جانے کے بعد بغاوت میں اترا ہے اور اس روایت کو دوبارہ ایک نئی جہت دے رہا ہے تو اس کے اثرات سے یہ امکان خارج نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پھر ایک نئے سرے سے رجعتیت میں ڈوب
جانے والی بغاوتی تحریک کو نئی اٹھان دینے کا سبب بن جائے۔ لیکن اس کے اثرات جہاں دوسرے عرب ممالک میں پڑیں گے وہاں اسرائیل کے معاشرے پر اس کے فوری اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل اور لبنان کے سماجوں میں بہت سی مشابہتیں ہیں۔ 2015ء میں ''اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘نے اسرائیل اور لبنان کو مشرقِ وسطیٰ کی پہلی اور دوسری جمہوری ریاستیں قرار دیا تھا۔ لیکن ان دونوں جمہوریتوں کو نہ صرف مذہبی فرقہ واریت کا گھن لگا ہوا ہے بلکہ ان دونوں سماجوں میں معاشی اور سماجی زندگیاں بھی اب تنزلی اور ابتری کا شکار ہیں۔اگست 2011ء میں اسرائیل میں بھڑکنے والی طبقاتی کشمکش کے لبنان پر بھی گہرے اثرات ہوئے تھے۔ اب یہ دھارا الٹی سمت بہے گا۔ لیکن جہاں مشرقِ وسطیٰ میں مذہبی جنونیت اور فرقہ وارانہ رجعتیت سے آگ اور خون کا کھلواڑ مچا رکھا ہے وہاں مصر سے لے کر تیونس تک ہم نے طبقاتی کشمکش کے حیرت انگیز معرکے بھی دیکھے ہیں۔ ایسی ہی طبقاتی تحریکیں نہ صرف اس استحصالی نظام کا خاتمہ کر کے انسانی زندگی سے عذابوں کو مٹاتی ہیں بلکہ ان کی انقلابی فتح پورے خطہ میں ایک ایسے شعور کے پھیلائو کو بھی جنم دیتی ہے جس میں محنت کش انسان ابھر کے ماضی کی مذہبی جنونیت اور سامراجی جارحیت کو شکست فاش دیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور تاریخ کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔ اسی لئے مارکس نے لکھا تھا کہ ''انقلابات تاریخ کے ریل کے انجن ہوتے ہیں‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا لبنان میں ابھرنے والی یہ تحریک تمام رکاوٹوں کو پاش پاش کر کے ماضی کے تمام تعصبات کو جھٹک کر انقلاب کے راستے پر آگے بڑھ پائے گی؟