تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-09-2015

فیس بک پر لگی رونق اور اظہر عباس کی پریشانی

میرے پسندیدہ شاعر اظہر عباس شیخوپورہ سے فون پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے کہ فیس بک پر آج آپ کے ایک کالم کے حوالے سے بڑی لے دے ہو رہی تھی جس پر وہ پریشانی میں مبتلا تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ پریشانی تو مجھے ہونا چاہیے‘ اور اگر میں پریشان نہیں ہوں تو آپ اس تکلف میں کیوں پڑ گئے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو وہ استعمال کرتے ہیں اور یہ اُن کی مہربانی ہے جو وہ میرا کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور اس لیے پڑھتے ہیں کہ وہ اس قابل سمجھتے ہیں ورنہ لعنت بھیجیں اور نظرانداز کردیا کریں۔ بس آپ یہ سمجھ لیں کہ میں اپنا حق استعمال کرتا ہوں اور وہ اپنا۔ 
میں نے انہیں بتایا کہ کسی کتاب پر سیدھا سادہ تبصرہ کر دینا میرا کام نہیں ہے‘ نہ ہی مجھ سے اس کی توقع رکھی جائے کہ میں اخبار کی طرف سے تبصرہ نگار مقرر نہیں ہوں بلکہ میں کالم لکھتا ہوں‘ اس لیے اگر یہ حضرات اسے کالم ہی سمجھ کر پڑھیں تو شاید ان کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے۔ چنانچہ بطور کالم نگار سب سے پہلے میں یہ دیکھتا ہوں کہ کتاب میں میری دلچسپی کی کیا چیز ہے جس پر میں اپنی تحریر کو استوار کر سکوں۔ اور اب تک تو سبھی مجھے جان چکے ہیں اس لیے کتاب بھیجنے والا یہ خطرہ مول لے کر بھیجتا ہے کہ میں نے اس پر کالم لکھنا ہے‘ تبصرہ نہیں کرنا۔ اور یہی بات شاید بھائی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ 
اس عزیز نے بتایا کہ ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ میں کم از کم انہیں تو معاف کر دیا کروں جو اس دنیا میں موجود نہیں رہے۔ یہ بات البتہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیا موت کے اضافی نمبر ہوتے ہیں جو کسی مرحوم مصنف کو دیئے جانے ضروری ہوتے ہیں۔ یا کیا مرنے کے بعد آدمی کو کوئی سُرخاب کا پر لگ جاتا ہے۔ نیز یہ کہ میں اس کے فن پر بات کر رہا ہوتا ہوں‘ اس کا کتبہ نہیں لکھ رہا ہوتا۔ پھر یہ کہ کیا میں نے نہیں مرنا بلکہ کیا ہم سب نے نہیں مر جانا۔ اگر یہ پابندی ملحوظ خاطر رکھی جائے تو جو شعرائے کرام اس عالمِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں‘ ان کے مر جانے کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ میں تو کبھی یہ توقع نہیں کرتا کہ میرے مرنے کے بعد مجھے بطور خاص رعایتی نمبر دیئے جائیں کیونکہ اگر جواب دینے کے لیے میں موجود نہیں ہوں گا تو میری تحریر تو ہوگی‘ اور اگر وہ اپنا دفاع خود نہیں کر سکتی یا اپنا جواز خود پیش نہیں کر سکتی تو وہ اسی سلوک کی مستحق ہے جو اُس کے ساتھ کیا جا رہا ہوگا۔ اور‘ یہ ایک سیدھی سی بات ہے۔ 
فیس بُک والے برادرانِ اسلام سے مجھے کوئی شکایت نہیں۔ میں ان کے ساتھ کسی بحث میں الجھنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ ضروری نہیں کہ وہ غلط اور میں صحیح ہوں‘ بلکہ صورتِ حال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ میرے ساتھ اختلاف اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا میں خود کرتا ہوں کیونکہ ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنا مرا منصب بھی نہیں ہے۔ میں وہی کہتا ہوں جسے صحیح سمجھتا ہوں جو ضروری نہیں کہ صحیح ہو بھی۔ میں بولتا اس لیے ہوں کہ اہلِ قبرستان سے خطاب نہیں کر رہا ہوتا اور جواب آں غزل کا متوقع بھی ہوتا ہوں کیونکہ میں اگر اپنی بساط کے مطابق کچھ باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو میرا مقصد خود کچھ سمجھنا بھی ہوتا ہے کیونکہ اکملیت کا دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا کہ میرے لیے تو سب کے سب مجھ سے بہتر ہیں۔ 
اس بات کو دہرانے پر معذرت چاہتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ کتابوں پر تبصرے کے لیے کم و بیش ہر اخبار میں کوئی نہ کوئی صفحہ یا حصہ مختص ہوتا ہے‘ اور میں یہ بات لکھ بھی چکا ہوں کہ جو تخلیق کار محض اپنی تعریف کے خواہاں ہوتے ہیں وہ مجھے اپنی کتاب بے شک نہ بھیجا کریں۔ اور‘ اگر اس کے باوجود بھیجتے ہیں تو انہیں دل بھی ذرا بڑا رکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ کہ جن کی میں تعریف کرتا ہوں‘ میرے نزدیک وہ یقینا قابلِ تعریف ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی میرا رشتے دار نہیں ہوتا؛ چنانچہ جو بُرا بھلا میں لکھتا ہوں اس پر مجھے دفاعی رویہ اختیار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کام میں آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ 
فیس بُک والے بحث مباحثے میں پڑنے کی مجھے ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ حضرات اس کام کے لیے خود ہی کافی ہیں اور جس سطح کی گفتگو وہاں پر ہوتی ہے‘ میں اس میں دخل اندازی کی جرأت کر سکتا ہوں نہ حماقت۔ کیونکہ یہ لوگ اپنا مزہ لے رہے ہوتے ہیں اور ان کے کسی اعتراض کا جواب دینا میرے لیے مناسب بھی نہیں ہے کیونکہ جو میری سمجھ میں آیا میں نے لکھ دیا اور جو اُن کے خیال کے مطابق درست ہوا انہوں نے کہہ دیا۔ اور اس میں کوئی جھگڑے کی بات اس لیے بھی نہیں ہے کہ دونوں فریق اپنا اپنا حقِ اختلاف استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ الزام و اعتراض کی یہ صورت حال نہ صرف یہ کہ میرے لیے قابل قبول ہے بلکہ میں اسے شعر و ادب کے عین مفاد میں بھی سمجھتا ہوں۔ 
سو‘ میں اظہر عباس سے بھی یہی کہوں گا کہ اس ہنگامہ خیزی پر پریشان ہونے کی بجائے اس سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں کیونکہ اگر میں اس پر معترض نہیں ہوں تو مجھ سے محبت کرنے والے اس سے افسردہ کیوں ہوں۔ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ فیس بُک پر میرے لتے لینے والے بھی ایک طرح سے مجھ سے محبت ہی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ مجھے نظرانداز نہیں کر سکتے تو ان کی میرے ساتھ محبت و یگانگت میں کیا شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے؛ چنانچہ اگر میں غلط ہوں اور کچھ نہیں جانتا تو اس کا محاسبہ کرنے یا اندازہ لگانے والے حضرات ہر سطح پر موجود ہیں اور یہ کام جاری و ساری بھی ہے۔ اور‘ حق تو یہ ہے کہ میں واقعی کچھ نہیں جانتا اور دوسرے سب کچھ جانتے ہیں؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی ناقص رائے کے اظہار کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا معترضین اور کرم فرمائوں کو میری اصلاح کا ہے۔ 
میں اگر چاہتا تو اپنے لیے آسان اور سیدھا راستہ بھی چن سکتا تھا یعنی ہر کتاب پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتا اور اسقام و نقائص سے صرفِ نظر کرتا اور اس طرح سب کی آنکھوں کا تارا بنا رہتا۔ لیکن یہ محض منافقت اور بددیانتی ہوتی۔ میں سچ بولنے کی کوشش کرتا ہوں یعنی وہ سچ جسے میں سچ سمجھتا ہوں‘ اور اس کے باوجود لوگ جو دھڑادھڑ اپنی کتابیں مجھے بھیجتے ہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ سچ سننا چاہتے ہیں۔ میں اس سے سب دشتم کا نشانہ بھی بنتا ہوں لیکن میں یہ قربانی ہنسی خوشی دیتا ہوں۔ 
تاہم سچ بولنا میری اجارہ داری بھی نہیں۔ اور لوگ بھی یہ کام کرتے ہیں اور میری طرح اس کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں‘ اس لیے کہ قیمت تو ادا کرنا ہی پڑتی ہے اور جس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ لوگ میری تحریروں میں بھی کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ میں اسے بھی خوش آمدید کہتا ہوں کہ میرا کچا چٹھا بھی کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ اپنی اصلیت کا اندازہ مجھے بھی ہونا چاہیے یعنی اگر میں فرعون ہوں تو کوئی موسٰی میرے لیے بھی ہونا چاہیے۔ چیزیں اسی طرح نتھر کر سامنے آتی ہیں اور سچ سے آنکھیں چرانے جیسی بزدلی کوئی اور ہو بھی نہیں سکتی۔ اگرچہ بہادر ہونے کے لیے بیوقوف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ میں کافی حد تک ہوں بھی۔ جس کالم کے حوالے سے فیس بُک پر مذکورہ گہما گہمی کا بیان تھا‘ وہ ذوالفقار عادل کے مجموعہ کلام ''شرق میرے شمال میں‘‘ کے بارے میں تھا۔ بہتر ہوتا اگر یہ بھائی لوگ ذوالفقار عادل سے بھی پوچھ لیتے کہ وہ کالم اسے کیسا لگا تھا کیونکہ اگر شاعر خود اس پر خوش ہے تو ان حضرات کو اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ 
آج کا مقطع 
ہمیں بھی تھی نہ کچھ امید پہلی بار‘ ظفرؔ 
سلوک اس کا دوبارہ ہی اور ہونا تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved