اعلان ہو چکا ہے کہ ملک میں ایک نئی سیا سی جماعت جلوہ گر ہو رہی ہے۔ اس کا نام پہلے توکچھ اور لیا گیا تھالیکن اب ایک نیا دلکش سا نام ڈھونڈا جا رہا ہے۔ اس کیلئے سات ہزار سے زائد افراد کو دعوت دی جا رہی ہے۔ اس اعلان میں نہ جانے کیا بات ہے کہ اپنے اور بیگانے‘ سب گھبرائے گھبرائے سے نظر آنے لگے ہیں۔ اس نئی جماعت کی ابھی سے بالکل اسی طرح چار سو دھوم مچنا شروع ہو گئی ہے جیسے میڈیکل سائنس نے جب پہلی بار ٹیسٹ ٹیوب کا نام متعارف کروایا تھا تو ہر طرف شور مچ گیا تھا۔ ابتدا میں تو میڈیل سائنس کی ٹیسٹ ٹیوب کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن جیسے جیسے اس کی تفصیلات آنا شروع ہوئیں‘ لوگوں کو اس ناقابل یقین تولیدی طریقے پر حیرت زدہ ہونا پڑا۔ پاکستان میں بھی ٹیسٹ ٹیوب کی دھوم مچنا اچانک اس وقت شروع ہوئی‘ جب پاکستان کی سیا ست سے دور ہو چکے کچھ لوگ واپسی کیلئے نا امید ہو گئے ہیں لیکن ان کی خوش بختی دیکھئے کہ جلد ہی انہیں امریکہ کی آمرِ وقت سے سخت ناراضگی نے خوشی سے اس وقت بے حال کر دیا‘ جب ''امریکہ کا میڈیا‘‘ پاکستان کے ایٹمی رازوں کی خریدو فروخت کی خبریں سامنے لے آیا‘ جس سے ایک مشہور و معروف سائنسدان اپنے ہی گھر میں نظر بند ہو کر آمرِ وقت کے زیرِ عتاب آ گیا۔ جیسے ہی یہ خبر باہر آئی پاکستانی سیاست میں اگلی منزلوں کے منتظر سب مسا فر سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اسی شام ملک کی کئی سیا سی جماعتوں کا ایک جرگہ اکٹھا ہوا‘ جس نے فیصلہ کیا کہ سائنسدان کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی حمایت میں آمر وقت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے قوم کو باہر سڑکوں پر لایا جائے ۔ سائنسدان کے ساتھ کی گئی زیادتی کے خلاف احتجاج اور ملک گیر ہڑتال کیلئے '' وقت کے آمر‘‘ کے خلاف طبل جنگ بجانے کیلئے پورا گروہ ایک جگہ اکٹھا ہوا تو ایک بڑے اور مشہور مولانا اپنی نشست سے اٹھے اور حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے: میں تب آپ کے ساتھ چلوں گا‘ جب اس مشہور سائنسدان کی مجھ سے براہ راست بات کرائی جائے گی‘ میں ان سے بات کر کے اس امر کی یقین دہانی چاہتا ہوں کہ وہ کسی بھی مرحلے پر ہمیں پیٹھ تو نہیں دکھا جا ئے گا۔ حاضرینِ مجلس کی جانب سے اس وقت کے قاضی صاحب کو فرض سونپا گیا کہ وہ مولانا کی سائنسدان سے کل سب کے سامنے بات کرائیں۔ اگلے دن جب یہ سب لوگ اسی جگہ پھر اکٹھے ہوئے تو قاضی صاحب کے اترے ہوئے چہرے نے ساری کہانی بتا دی۔ پتہ چلا کہ اس نظر بند سائنسدان نے سیا ستدانوں کیلئے ٹیسٹ ٹیوب بننے سے صاف انکار کر دیا ہے ۔ جب اس وقت کا سیا سی ٹولہ مکمل طور پر مایوس ہو گیا تو چند ماہ بعد اللہ کو ان کی حالت پر رحم آ گیا۔ ہوا یوں کہ وقت کے آمر اور ان کے ساتھی ججوں اور وکلا کی وقت کے منصفِ اعلیٰ سے شکایات بڑھنے لگیں اور فیصلہ ہو ا کہ اسے فارغ کر کے گھر بھیج دیا جائے‘ جس کی خبر امریکہ میں کچی نوکری والے محکموں کو بھی ہو گئی جنہیں وقت کے آمر کی ان کے خلاف جان بوجھ کر کی گئی غلطیوں اور گستاخیوں پر پہلے سے ہی سخت غصہ تھا ۔ سفید گنبد والوں نے فیصلہ کیاکہ بڑے قاضی کے ذریعے وقت کے آمر سے اب جان چھڑانے کا موقع ملنے والا ہے اور پھر سفید گنبد والوں نے آمر وقت کے ہی ایک طاقتور ساتھی کے ذریعے قاضی کو پیغام بھیج دیا: دوست گھبرائو مت‘ میرے سمیت سب طاقتیں تمہارا ساتھ دیں گی‘ بس تم نے آمر وقت کے سامنے ڈٹ جانا ہے‘ وہ تم سے استعفیٰ مانگے گا‘ لیکن تم نے انکار کر تے ہوئے ڈٹے رہنا ہے اس کے بعد تم دیکھنا کہ کیا ہوتا ہے۔
2007ء کا سال شروع ہوتے ہی آمرِ وقت کی جانب سے منصفِ اعلیٰ کے خلاف کارروائی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ مارچ کی ایک شام وہ آمر وقت جو سفید گنبد والوں کی نظر میں مشتبہ ہو چکا تھا ان کے نشانے پر آ گیا اور انہوں نے قاضی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جب فائلوں میں لکھی ہوئی سچائی جان کر وہ گھر جانے کی ہامی بھرنے ہی والا تھا تو وہیں بیٹھے ہوئے ایک تگڑے نے انہیں اشارہ
کر دیا کہ ڈٹے رہو۔ بس پھر کیا تھا‘ ملک بھر میں میدان سج گیا۔ لمحوں میں ہر جانب شور مچ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پریشان اور فکرمند لوگوں کو ایک ایسی شخصیت بطور ''ٹیسٹ ٹیوب‘‘ مستعار مل گئی‘ جو ان کا بانجھ پن اس شرط پر ختم کرنے پر تیار ہو گئی کہ وہ اپنا کام نکلوانے کے بعد اس پر سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے بلکہ زمانے کی باتوں اور طعنوں کی پروا کئے بغیر اسے اپنائے رکھیں گے۔ سفید گنبد والوں اور باہر بیٹھ کر کسی ٹیسٹ ٹیوب کو کرائے پر لینے والوں نے ایک نئی وردی پوش فوج اس کے ساتھ لگا دی اور پھر اس کی مشہوری کیلئے اسے جگہ جگہ لے جا یا جا نے لگا ۔ ''خود نمائی‘‘ کے شوقین کو اور کیا چاہئے تھا۔ اس نے ملک بھر میں جگہ جگہ قائم لیبارٹریوں کو ''ملٹی نیشنل کمپنیوں‘‘ کے ذریعے ساتھ ملایا تاکہ وہ اسے اپنے ہاں مدعو کر سکیں۔۔۔ ''ملٹی نیشنل کمپنیوں‘‘ کی مہربانیوں سے وہ اسے جگہ جگہ ساتھ لیے پھرتے رہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اخباروں اور رسالوں میں پڑھنا اور بات ہے لیکن قریب سے دیکھنا اور سننا اور بات ہے۔ جنہوں نے ٹیسٹ ٹیوب کا صرف نام سنا تھا‘ اب اسے دیکھنے کیلئے لوگوں کی دلچسپی قدرتی بات تھی۔ سب سے پہلے ''ملٹی نیشنل کمپنیوں‘‘ نے الیکٹرانک میڈیا کے کچھ لوگوں کو راضی کیا تا کہ وہ اس کی بھر پور کوریج کریں۔ میڈیا کے لوگوں نے چند دنوں ہی میں اسے آ سمان
پر پہنچا دیا اور پھر سفید گنبد والوں نے آمر کے سامنے لال مسجد کھڑی کر دی اور اس لال مسجد پر کئے جانے والے آپریشن نے آمر کو کمزور کر کے رکھ دیا‘ جس سے منصف اعلیٰ سے لوگوں کی ہمدر دیاں اور بھی بڑھ گئیں۔ اب چھوٹے بڑے میڈیا کے لوگوں کوتو وہ ٹیسٹ ٹیوب خاطر میں ہی نہیں لاتا تھا۔ وہ لوگ جو کئی سالوں سے گوشہ گمنامی میں تھے اس ٹیسٹ ٹیوب کی بدولت اور الیکٹرانک میڈیا کی مہربانی سے یکدم ہر ٹی وی سکرین پر چھا گئے۔ میڈیا پر ان کے روز و شب تبصروں سے ان کے کاروبار میںایک نئی جان پڑ گئی۔ صداقت کے جعلی پردے میں چھپے ہوئے اسرار و رموز کی بات کرنے والوں نے اسے اس طرح دیوتا بنا کر پیش کر نا شروع دیا کہ لگتا تھا‘ دنیا کا سب سے حسین و جمیل اور شکل و صورت میں وجیہ اور شکیل یہی ایک انسان رہ گیا ہے ۔ امریکہ سے اسے نہ جانے کس ''پاداش ‘‘ میں ایک ایوارڈ بھی دلایا گیا جس کی یہاں اس قدر مشہوری کی گئی کہ لگتا تھا پاکستان کے سب مسائل ختم ہو گئے ہیں۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ آمر وقت کی طاقتور چھڑی اس کے ہاتھوں سے نکل کر '' اسی‘‘ ہاتھ میں آ گئی ۔۔ ۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ٹیسٹ ٹیوب کا حسن اور چہرے کی لالی ماند پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ پہلے لوگوں کے لب کھلے پھر ہاتھ کھلے اور پھر ہر زبان اس کے قصے سنانے لگی۔ ریٹرننگ افسران اور2013ء کے قصے عام ہونے لگے جس سے وہ کچھ پریشان سا بھی ہوا لیکن پھر اس کے محلے داروں نے اسے یہ کہتے ہوئے اپنی پناہ میں لے لیا کہ یہ بھی تو ''ہمارا چیف‘‘ رہا ہے!!