تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     04-09-2015

عشق ِمجروح

اس میٹنگ میں کابینہ کے نشے میں مخمور وزیر اور اقتدار کمیٹی عرف کور کمیٹی کے ارکان شامل تھے۔ تب اقتدار کے ایوانوں کی کسی میٹنگ میںیہ میری آخری شرکت تھی۔یہ دوسری بات ہے کہ میٹنگ آدھی چھوڑ کر میں صدر ہاؤس کی لفٹ کی طرف لپکا۔ گاڑی کے بغیر ہی منشی شبیر کو ہمراہ لے کر پیدل پارلیمنٹ والے گیٹ کی طرف تیز قدموں سے چل پڑا۔ میرے پیچھے کافی دوست ڈھونڈنے آئے جبکہ میری گاڑی کو دو گھنٹے بعد وہاںسے ''رہائی‘‘ مل پائی ۔مجھے خیال آیا شاید ساحر لدھیانوی نے ایسے ہی کسی موقع کے لیے کہہ رکھا تھا ؎
تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا اچھا
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا بہتر
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن 
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
اس سے ایک رات پہلے لاہور میں معتبر انگریزی اخبار کے انتہائی معتبر رپورٹر نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کا سودا ہو گیا ہے۔پی پی کا مستقبل بیچنے والے کون سے دو عددپنجابی سوداگران تھے ، یہ کہانی پھر سہی۔صدر ہاؤس کی میٹنگ میں میری گفتگو ان شرکاء کی موجودگی میںہوئی جو آج بھی پاکستان ٹی وی پر نظر آتے ہیں۔میں نے کہا: بزدل جرنیل مشکل وقت میں اپنے مشکل میں پھنسے ہوئے کمانڈوز کو دشمن کے علاقے میں پھینک کر کہتے ہیں ''یہ لڑکے ہمارے نہیں‘‘۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مفاہمت نہیں اجتماعی خود کشی ہے۔دعا تھی ایسا نہ ہو مگر 6,5 لوگوں کی سودے بازی کے نتیجے میں ہونے والی بربادی آج سب کے سامنے ہے۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایڑیاں رگڑنے پر مجبور۔ مفاہمتی لیڈراور لابنگ کے ماہر ''عہدیدار‘‘ سکون میں ہیں۔ لیفٹ ونگ کی سب سے بڑی سیاسی قوت کریاکرم کی راہ پر لیکن یہ عہدیدار اب بھی خوش ۔کیونکہ کفن دفن اور آخری رسومات کا بل بھی ان کی جیب میں جائے گا۔اچھا ہوا نواز شریف پر اعتبار کر کے جیالوں کو لوریاں سنانے والوں کا بھرم ٹوٹ گیا۔اگر وہ پنجاب کی سیاسی تاریخ ہی پڑھ لیتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ وہ کس پر اعتبار کر رہے ہیں۔ وہی تاریخ جو موجودہ جمہوریت کے مرشد ضیاء الحق کی سرپرستی میں شروع ہوئی۔جنرل جیلانی، میجر قیوم ،محمد خان جونیجو،آئی جے آئی، جماعت اسلامی، اے پی ڈی ایم،اور اب پیپلز پارٹی اس سیاسی وفاداری نما مفاہمت کے شاہکار ''شکار‘‘ ہیں۔
اگلے دن مجھے سابق صدر آصف زرداری نے فون کیا‘ وہ لندن میں تھے‘ دبئی آنے کی تیاری میں مصروف۔ انہوں نے ملکی صورتحال پر تبصرہ مانگا ۔میں نے کُھل کر کہا کہ جس ٹولے نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو اس حال میں پہنچا یا‘ اسے چاروں طرف بٹھا کر درمیان میں پیپلز پارٹی کا جو مرضی لیڈر بیٹھ جائے کارکن جانتے ہیں کہ اس کا فائدہ یہی ٹولہ پھر اٹھالے جائے گا۔اسی لیے اب تکF8اسلام آباد اور لاہور میں لیڈروں کے دورے نہ ترقی پسند کارکنوں کو امید دلا سکے نہ ہی پنجاب کا جیالا ان کے ہتھے چڑھا۔ ایک سابق وزیر نے‘ جو اقتدار کے دنوں میں ہر روز جناح سپر مارکیٹ سے ''ایکسٹرا لارج‘‘ سائز کے سوٹ کیس نما بریف کیس خریدا کرتا تھا‘ پارٹی لیڈر شپ کے حوالے سے نجی محفل میں گفتگو کی‘ جو اس کے اپنے ہی دوستو ںنے ریکارڈ کر لی۔وہ گفتگو کیا ہے گالیوںکی نئی ڈکشنری سمجھ لیں۔ پھر اس نے تفصیلات بتائیں کہ نون لیگ کے پاس اس کے لیے کوئی ویکنسی موجود نہیں۔ ساتھ ہی وہ وجوہ گنوا دیں جن کی بنا پر عمران خان کو اس جیسے ''تجربہ کار‘‘ آدمی کی ضرورت ہے۔
دو دن پہلے دستور سازاسمبلی کے وفاقی وزیر ِقانون جناب حفیظ پیرزادہ سینئر ایڈووکیٹ کی رحلت ہوئی۔ ایک اور سینئر ایڈووکیٹ نے حفیظ پیرزادہ کے آخری مقدمے کی آڑ میں تحریک انصاف میں گُھسنے کی کوشش کی۔اسے ہر دروازے سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ موصوف کے سفارشی نے یوں سفارش کی ''آپ دیکھ لیں نہ ان کا کوئی ووٹ ہے اور نہ ہی ان پر کسی کو اعتبار۔مشکل وقت میں ان کی کمر میں درد اٹھ پڑتا ہے‘‘۔ 
آصف زرداری نے مفاہمت پر مجھے کہا(Enough is Enough) یعنی اب حد سے بھی زیادہ حد ہو گئی۔میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا مفاہمت کی غلطی نہ کرو‘ دونوں جگہ آپ نے طبلہ اور سارنگی کا مشورہ مانا ۔میں سیاسی چیف جسٹس کی بحالی کا مخالف تھا‘ آپ نے میری بات نہیں سنی۔پھر متحارب سیاست میں مفاہمت کیسی۔ آپ پر پھربھی طبلہ اور سارنگی غالب آ گئے۔ قارئینِ وکالت نامہ سوچ رہے ہوں گے یہ طبلہ کون ہے اور سارنگی کون۔طبلے کی جوڑی میں سے انتہائی مصروف طبلے کو موسیقی کی دنیا میں ''ٹھیکہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جو ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ کر کے بولتا ہے ۔اپنے محترم قائد سے اسلام آباد میں آخری تقریر کروانے کے دن سے طبلہ آواز نہیں نکال سکا ۔اسے معلوم ہے اگر اس نے ''چُوں‘‘ بھی کی تو اس کے سر پر زور دار ہاتھ پڑے گا۔ رہی بات سارنگی کی تو اس کے لیے دو فوٹو گرافر ہی کافی ہیں۔جواس کی مارکیٹ ویلیو کا حشر کراچی سٹاک ایکسچینج کی ''ویلیو‘‘ والا نہیں ہونے دیتے۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ اس وقت طبلے اور سارنگی کے ہمنواؤں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے پنجاب میں کبھی سیاسی تحریک چلائی ہو۔یا کسی تحریک کی قیادت کی ہو یا عوامی مزاحمت کو منظم کر کے اس میں حصہ تک لیا ہو۔ایم این اے ہر کوئی بن سکتا ہے‘ سینیٹر اور ایم پی اے بھی۔محلاتی سازشوں، بے ضمیری سے بڑھی ہوئی خوشامد۔ کاناپھوسی اور ڈرائنگ روم سے باتھ روم تک لیڈر کا پیچھا کرنے والا پارٹی عہدیدار بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اُجڑے ہوئے دیار کو آباد کرنا نیا شہر بسانے سے بھی ہزار گنا مشکل ہے۔ جس دن بلاول نے اسلام آباد آنا تھا‘ میں نے اختلافی نوٹ میں کہا بلاول کا ٹاسک اونچے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے جیسا ہے۔کارپوریٹ ملازموں والی صلاحیت رکھنے والے کیسی کیسی واردات کر سکتے ہیں اس کا تازہ احوال سن لیں۔
اسلام آباد میں ناراض لیڈر شپ کے نام پر دو درجن سے بھی کم لوگ ہر روز نیا وفد بن کر کھانے پرملتے رہے۔لیڈر کی انفرادیت ختم کرنے کے لیے پریس فوٹو گرافر کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔پاکٹ فوٹو گرافر سے ایسی تصاویر جاری ہوتی رہیں جس میں جیالوں کے ناپسندیدہ لوگوں کے چہرے بڑے بڑے اور بلاول کا چہرہ چھوٹانظر آیا۔نہ کوئی اصلی ناراض کارکن ملا‘ نہ کوئی بامعنی کانفرنس ہوئی‘ نہ کوئی پُرہدف اجلاس۔اب لاہور کی باری ہے‘ جو لوگ کراچی سے فوٹو سیشن کرنے اسلام آباد آئے تھے وہی لاہور کو شرفِ باریابی بخشیں گے۔جیالے یوں واپس نہیں آئیں گے۔7سال پہلے گنوائے 3اور ضائع کر لو ؎ 
ڈھلے گی شام، سحر نغمہ بار آئے گی
ہم آئیں گے تو چمن میں بہار آئے گی
امید، عہد ستم کے گماشتوں سے نہ رکھ
ہمارے ساتھ ہی فصلِ بہار آئے گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved