پاک چین دوستی کا راز بہت دلچسپ ہے۔ چین بنیادی طور پر پاکستان کے دو حصوں پر اعتماد کرتا ہے۔ ایک ہمارے عوام اور دوسرا پاک فوج۔ دیکھا جائے‘ تو چین کی یہ پالیسی دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند بھی رہی ہے اور مستحکم بھی‘ جبکہ پاکستان کے مغربی حواری ہمیشہ حکمرانوں کے سرپرست رہے ہیں۔وہ حکمران بکِے ہوئے سیاستدان ہوں یا جرنیل۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مغربی حکومتیں ‘ پاکستانی عوام سے ہمیشہ لاتعلق رہیں۔ بظاہر انہوں نے عوام کابہت نام لیا‘ لیکن عملاً وہ عوام دشمن حکمرانوں کو سہارا دے کر‘ پاکستانی عوام پر مسلط کرتے رہے۔ میں یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کروں گا کہ پاکستان میں کرپشن کی جڑیں مضبوط کرنے میں‘ ہمیشہ مغرب کی حکومتوں نے بنیادی کردار ادا کیا ۔ ایوب خان اور ضیاالحق کی حکومتوں کی مثالیں تو عیاں ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ امریکیوں کا سلوک ایک ہی جیسا رہا۔ جب تک ایوب خان کی ضرورت رہی‘ ان کی نازبرداریاں کی گئیں‘ لیکن جب انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھمب جوڑیاں سیکٹر سے بھارت پر حملہ کیا‘ تو امریکہ کے تیور یکسر بدل گئے۔ امریکہ کو شکایت تھی کہ اس نے فوجی معاہدوں کے تحت پاکستان کو جو اسلحہ اور جنگی سازوسامان دیا‘ وہ سوویت بلاک کے خلاف تھا۔ ایوب خان نے 65ء کی جنگ میں اسے بھارت کے خلاف استعمال کیا‘ جسے امریکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے‘ ایوب خان سے آنکھیں پھیر لیں۔ عالمی رائے عامہ کے دبائو میں آ کر‘ مغربی بلاک نے جنگ بندی میں نیم دلانہ کردار تو ضرور ادا کیا‘ لیکن اس کے بعد معاہدہ امن میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دور کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں‘ ان میں واضح طور سے بتایا گیا ہے کہ ایوب خان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے‘ امریکہ سے مدد کی درخواستیں کیں‘ لیکن امریکی انتظامیہ کی طرف سے‘ ان درخواستوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی وجوہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ ایوب خان کو سزا دینے کے لئے ‘ امریکہ نے انہیں تنہا چھوڑتے ہوئے دبائو ڈالا کہ بھارت سے مذاکرات کرنا ہیں‘ تو سوویت یونین کی مدد حاصل کرو‘ ہم آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ ایوب خان نے سوویت یونین سے مدد مانگی‘ تو جواب ملا کہ سوویت یونین ‘ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے میزبانی کرنے کو تیار ہے‘ آپ اس کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں۔ بعد میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایوب خان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے اور پاکستان کا بھی۔ اس کا ثبوت معاہدۂ تاشقند کی دستاویز ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ معاہدہ بھارت کی شرائط پر کیا گیا۔ مغرب کا دوسرا لاڈلہ فوجی حکمران‘ جنرل ضیاالحق تھا۔ اس خدا کے بندے نے‘ نہ اپنے وطن کی سلامتی اور دفاع کا خیال کیا اور نہ ہی معاشرتی استحکام کو تحفظ دیا۔ امریکی ڈالروں کے عوض اس نے مسلح افغان جنگجوئوں کو‘ وہاں کی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا اور بدلے میں پورا پاکستان ‘ ان کے حوالے کر دیا۔ ہماری معاشرتی اقدار تہس نہس ہو گئیں۔ روایتی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ جنگلی جنگجوئوں نے ہمارے سماج کا تانابانا ادھیڑ کے رکھ دیا۔آج شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگجوئوں کو پاکستان میں جو آزادیاں حاصل تھیں‘ وہ شاید پاک افواج کو بھی نہیں تھیں۔ مثلاً افغان جنگجوئوں کو اجازت تھی کہ وہ پاکستان میں جدھر چاہیں‘ اپنے ٹرک بھر کر لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اس رعایت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اسلحہ اور منشیات‘ دو چیزیں ایسی تھیں‘ جنہیں پورے پاکستان میں پھیلا دیا گیا۔ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں ‘جہاں بھی ناجائز سامان سے بھرے ہوئے افغان ٹرکوں کی تلاشی لیتیں‘ تو وہ ایک خصوصی پرمٹ دکھا کر وہاں سے نکل جاتے۔ کاغذ کا یہ پروانہ‘ افغانوں کے لئے خصوصی پرمٹ کی حیثیت رکھتا تھا‘ جسے دیکھتے ہی ہماری پولیس اور سکیورٹی ایجنسیاں‘ بے بسی کے ساتھ پیچھے ہٹ جایا کرتی تھیں۔ ضیاالحق نے تشدد کی اپنی ہی لگائی ہوئی فصل کا پھل‘ بہاولپور کے صحرائوں میں پایا‘ جہاں فضائوں میں ہی ‘ایک دھماکے سے ان کے پرخچے اڑا دیئے گئے۔ حسب روایت اس سانحے کا نہ کوئی سراغ ملا اور نہ ہی سنجیدگی سے تحقیقات کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں نے اس سازش کو بے نقاب کر دیا تھا‘ لیکن پاکستانی عوام اور فوج کی قیادت کو حقائق کا پتہ نہیں لگنے دیا گیا۔ اس دور میں زبانی کہانیاں سننے کو عام تھیں۔ ضیاالحق ‘ فوج کا سربراہ اور ملک کا حکمران تھا‘ مگرعوام کو اس نے جس جبر اور کرپشن کا نشانہ بنایا‘ اس کے نتیجے میں پاکستانی عوام نے اپنے حکمران کی اس المناک موت پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ میں نے صرف دو مثالیں دی ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے ہمیشہ پاکستان کے عوام دشمن حکمرانوں کی سرپرستی کی اور پاکستانی عوام کو سازشوں اور محرومیوں کا نشانہ بنایا۔
اس کے برعکس چین نے کبھی مغرب کی طرح دوستی کے دعوے نہیں کئے اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں کی سازشوں میں کوئی حصہ لیا۔ سیاسی حکومتیں جو کچھ بھی کرتی رہیں‘ چین ان سے لاتعلق رہا۔ اس نے پاک فوج کے ساتھ تعاون اور دوستی کے گہرے رشتے کو انتہائی خاموشی اور تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا۔ چین کو معلوم تھا کہ پاکستان کے نام نہاد مغربی دوست‘ ہمارے دفاعی نظام کو ناقابل تسخیر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جتنا اسلحہ ہمیں دیتے‘ اس کا بلیوپرنٹ بھارت کے حوالے کر دیا جاتا۔ ہماری دفاعی مشینری‘ اپنی طرف سے ہر ممکن رازداری کرتی‘ لیکن جب اسلحہ دینے والے ہی ہمارے دوست نہیں تھے‘ تو رازداری کس کام آتی؟ پاک چین دوستی میں ‘اس رازداری کا پورا اہتمام کیا گیا۔ اب سارے درپردہ حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جدیدترین لڑاکا طیارے‘ میزائل اور اسلحہ بنانے کی بے شمار ٹیکنالوجی میں ‘چین ہمارے ساتھ مل کر آگے بڑھتا رہا اور اب پاک فوج اور چین کا رشتہ‘ اتنا مضبوط اور مستحکم ہو چکا ہے کہ ہم ہر طرح کے خطرات سے آزاد ہو گئے ہیں۔ میں اشاروں کنایوں میں یہ بات لکھتا رہا ہوں کہ اب پاکستان کی سلامتی کا تعلق ‘چین کی اپنی سلامتی سے ہو چکا ہے۔ چین بحری و بری راستوں کا جال بچھا کر ‘اپنے مستقبل کے جن منصوبوں کو حقیقت میں بدل رہا ہے‘ ان کا پہلا مرحلہ پاکستان میں پورا کیا جائے گا۔ یہ اکنامک کوریڈور‘ پاکستان کی سکیورٹی اور یہاں کے عوام‘ دونوں کے لئے دفاع اور خوشحالی کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ چکا ہے۔ اقتصادی شاہراہ کا ایک بڑا حصہ‘ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ مقامی اور بیرونی شرپسندوں نے معصوم بلوچوں اور پختونوں کو گمراہ کر کے‘ اسی طرح بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی‘ جیسے کالاباغ ڈیم کے عظیم منصوبے کو سبوتاژ کیا گیا۔ اس مرتبہ چین ہماری مدد کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔اس نے خاموشی سے بلوچ عوام کو حقائق سے آگاہ کیا اور انہیں باور کرا دیا کہ یہ اقتصادی شاہراہ‘ ان کے اپنے روشن مستقبل اور خوشحالی کا منصوبہ ہے۔ بلوچوں کے نام پر جب اقتصادی کوریڈورکا راستہ بدلنے کا شرپسندانہ نعرہ دیا گیا‘ تو چینیوں نے بلاتاخیراس کا رخ بلوچستان
کی طرف موڑ دیا۔ بلوچوں کے شکوک و شبہات دور ہو گئے اور وہ اپنے عظیم مستقبل کے خواب دیکھنے لگے۔ انہیں پتہ چلا کہ ان کے وطن میں توتیل سے مالامال ہونے والے عربوں کی طرح‘ دولت مندی کے راستے کھلنے والے ہیں۔ اقتصادی کوریڈور صرف ایک سڑک نہیں ہو گی‘ یہ اپنے ساتھ ٹیکنالوجی اور دریافتوں کا سیلاب لے کر آئے گی۔ بلوچستان کے معدنی خزانے‘ براہ راست عالمی منڈیوں سے منسلک ہو جائیں گے۔ ایک طرف گوادر کی بندرگاہ کے ساتھ‘ ایک نیا شہر اور تجارتی مرکز قائم ہو گا۔ دوسری طرف چین کی بہت بڑی مارکیٹ‘ ان کے معدنی ذخیروں کے لئے کھل جائے گی۔ زیرزمین خزانوں کے منہ کھل جانے کے بعد‘ بلوچ اپنے خطے کی سب سے زیادہ خوشحال اور امیر قوم بن جائیں گے۔ چین نے جب مستقبل کے اس نقشے کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کا عمل شروع کیا‘ تو باغی بلوچ نوجوانوں کا اعتماد اپنے وطن پر بحال ہو گیا۔ اب انشاء اللہ وہ خود ہی اپنے خزانوں کے مالک ہوں گے اور خود ہی اپنے علاقے کے حکمران۔دنیا کا کونسا ملک ہے جو بلوچوں کو لالچ دینے کے لئے‘ اس سے زیادہ دولت پیش کر سکے گا‘ جو ان کی اپنی سرزمین میں موجود ہے۔پاک چین دوستی کے ناقابل شکست رشتے ‘اب پائیداری کے نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں۔ آخری چند الفاظ میں آنے والے حقائق کی صرف ایک جھلک پیش کروں گا۔ آج پاکستانی فوج‘ اپنے عوام کے ساتھ اعتماد کے رشتے میں‘ جس درجے تک پہنچ چکی ہے‘دنیا کی کوئی طاقت اس میں رخنہ پیدا نہیں کر سکتی۔ہمارے عوام ‘ چین سے دوستی کے مضبوط رشتے سے جُڑ چکے ہیں۔ یہی دو طاقتیں ہیں‘ جو یکجا ہو جائیں‘ تو ناقابل شکست ہو جاتی ہیں۔آج چین کو قدرت نے دولت سے مالامال کر دیا ہے۔ فوجی طاقت میں وہ اب کسی سے کم نہیں۔ یہی دو چیزیں تھیں‘ جن کی بنیاد پر مغرب نے ہمارے حکمرانوں کو خریدا اور ہمیں لوٹا۔ اب یہ دونوں چیزیں‘ ان سے زیادہ چین کے پاس ہیں۔ پاکستان کے لٹیرے حکمران‘ دو چیزوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک عوام کا اعتماد اور دوسرے مغرب کی سرپرستی۔ اب ہمارے عوام اور فوج کی یکجہتی نے ہمیں نئی توانائی دے دی ہے۔ حکمرانوں کی جڑیں خشک ہونے لگی ہیں۔اسے کہتے ہیں نظام قدرت۔