تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-09-2015

ہیوسٹن میں

بابر غوری صاحب کو پتہ تھا کہ مذاکرات کرنے والوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں‘ اس لیے وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ جنہوں نے بات کرنی ہے وہ براہ راست الطاف بھائی سے کریں۔ اس سلسلے میں اشاروں کنایوں سے بابر غوری نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی درمیانی شخص اس معاملے میں رابطہ کاری کا فرض ادا کرے کہ یہ فی الوقت ملک و قوم کے لیے بے حد ضروری ہے۔ بابر غوری کے ساتھ اس نشست میں جو بنیادی بات مجھے سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچنے سے پہلے کسی کو آگے بڑھ کر درمیانی رابطہ بننا چاہیے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم محاذ آرائی نہیں چاہتے‘ معاملات کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ تنائو کو ختم کرنا چاہتے ہیں؛ تاہم فی الحال وہ ایسی کسی رابطہ کاری یا درمیانی واسطے سے مکمل انکاری تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ 
یہ سارا بابر غوری کا مؤقف تھا۔ درمیان میں سوالات بھی ہو رہے تھے اور جوابات بھی؛ تاہم سوالات چونکہ چبھتے ہوئے تھے۔ اس لیے بابر غوری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دو لوگ تھوڑے جذباتی ہو رہے تھے مگر بابر غوری منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح ٹھنڈے رہ کر جواب دے رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ''آف دی ریکارڈ‘‘ کی یاد دہانی بھی کرواتے جا رہے تھے۔ ایک دوست نے ایک ٹی وی اینکر کے حوالے سے پوچھا کہ سنا ہے آپ ''آدھے ہیوسٹن‘‘ کے مالک ہیں؟ میرا تو حیرانی سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہیوسٹن کی وسعت سے میں کسی حد تک واقف تھا اگر اس آدھے کو ''آدھا فیصد‘‘ مان لیں تو بھی ایک ناقابل یقین پراپرٹی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ بابر غوری صاحب ہنسے اور کہنے لگے‘ جس نے ٹی وی پر یہ بیان دیا ہے اسے میں نے لیگل نوٹس بھجوا دیا ہے۔ تین اور لوگ بھی ہیں‘ ایک تو ڈاکٹر شاہد مسعود ہیں‘ دوسرے لندن میں کوئی وجاہت ہیں اور دو لوگ اور ہیں۔ اب میں نے بابر غوری کی طرف دیکھ کر مسکرانا شروع کردیا۔ ہم دونوں جس بات پر مسکرا رہے تھے‘ ہم دونوں کو ہی اس کا علم تھا اور مزے لے رہے تھے۔ اسی دوران ایک اور چبھتا ہوا سوال کیا گیا۔ بابر غوری جواب کا سوچ ہی رہے تھے کہ ان کا ایک ساتھی تھوڑی گرمی کھا گیا‘ میں حالانکہ بابر غوری کا ''ٹھنڈ پروگرام‘‘ دیکھ کر خاصا متاثر تھا اور سوچ رہا تھا کہ بندے کو ایسا ٹھنڈا ٹھار ہونا چاہیے‘ اسے اس بات پر کنٹرول ہو کہ کب گرمی کھانی ہے اور کب نہیں۔ لیکن اچانک مجھے بھی تائو آ گیا۔ میں نے کہا: کیا سارا قصور اسٹیبلشمنٹ کا ہے؟ اخباروں کا ہے؟ میڈیا کا ہے؟ آپ کے مخالفین کا ہے؟ پنجابیوں کا ہے؟ ایم کیو ایم کے علاوہ سارے پاکستان کا ہے؟ آپ کا کوئی قصور نہیں؟ آپ سے کہیں غلطی نہیں ہوئی؟ آپ کا کوئی آدمی تشدد میں ملوث نہیں؟ آپ کا کوئی ورکر بھتہ خوری میں مبتلا نہیں؟ آپ کی صفوں میں کوئی ٹارگٹ کلر نہیں ہے؟ آپ بالکل ہی بے قصور ہیں؟ آپ سو فیصد نہائے دھوئے ہوئے ہیں؟ جب تک آپ اس سوچ سے باہر نہیں نکلتے معاملات کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں۔ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک دوست نے ہنس کر دخل اندازی کرتے ہوئے بات کا رخ دوسری جانب پھیر دیا۔ ہمارا یہ دوست گرم سے گرم بات کو ٹھنڈے ٹھار طریقے سے کہنے کا فن صرف جانتا ہی نہیں بلکہ اس فن میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ 
باہر نکلتے ہوئے میں نے بابر غوری سے پوچھا کہ اس کے امریکہ میں کتنے گیس سٹیشن ہیں؟ بابر غوری ہنسا اور کہنے لگا‘ اتنے تو ہرگز نہیں جتنے آپ نے کالم میں لکھے تھے‘ بلکہ اب تو سرے سے ایک بھی نہیں۔ میں نے کہا: کیا دوستوں کے نام پر لگا دیے ہیں؟ بابر غوری ہنسا اور کہنے لگا‘ آپ یقین کریں ایک بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا: اور دیگر پراپرٹی؟ بابر غوری نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا کہ آپ نے فاروق ستار کے گھر کے بارے میں لکھا تھا‘ وہ کرائے کا ہے۔ میں نے کہا: آپ کالم دوبارہ پڑھیں‘ میں نے بھی کرائے کا ہی لکھا تھا۔ البتہ یہ ضرور لکھا تھا کہ گھر کا کرایہ ماہانہ پانچ ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ غریب قیادت‘ یہ کرایہ اور امریکہ میں فیملی کا خرچہ کہاں سے دیتی ہے؟ جبکہ ان کی یہ پہلی اہلیہ گھریلو خاتون ہیں اور ایک بیٹی مہنگی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ بابر غوری نے اس کا جواب تو دیا جس سے میرے مؤقف کے صحیح ہونے پر کوئی حرف نہیں آتا اور میرا مؤقف سو فیصد درست ہی رہتا ہے؛ تاہم میں فی الحال یہ جواب لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ ہاں کبھی موقع آیا تو لکھ بھی دوں گا۔ 
رات کے کھانے پر ڈاکٹر کاشف انصاری نے مدعو کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے دو بچے تھیلیسمیا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اللہ کی اس رضا کے سامنے سر جھکاتے ہوئے اپنے اس صدمے کو مثبت انداز میں استعمال کیا اور دونوں بچوں کے نام پر ایک ادارہ قائم کیا جو تھیلیسمیا سے آگاہی‘ علاج اور بچنے کے لیے ترغیبات دیتا ہے۔ ہر ماہ تقریباً تیس لاکھ روپے ذاتی جیب سے خرچ کرتا ہے۔ تھیلیسمیا سے متاثرہ خاندان کو اپنے خاندان میں شادی سے روکنے کی ترغیب دیتا ہے اور ہر ایسے خاندان کو ایک لاکھ روپے تک دیتا ہے۔ ابھی تک بائیس خاندان ان کی تنظیم کے زیر اہتمام چلنے والی لیبارٹریوں اور مالی مدد سے مستفید ہو چکے ہیں۔ بقول ڈاکٹر کاشف انصاری یہ بے شک بہت کم تعداد ہے مگر یہ ابتدا ہے۔ ابھی ہمیں اور بہت کچھ کرنا ہے۔ اُن کے ہاں بیس بائیس پاکستانی حضرات جمع تھے۔ اتنے پاکستانی جمع ہوں‘ پاکستان سے صحافی آئے ہوں اور سوال و جواب نہ ہوں؟ ایسا ممکن ہی نہیں‘ لہٰذا کھانے کے دوران ہی سوال جواب شروع ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد یہ سوال جواب کی نشست سوال جواب کے مرحلے سے آگے نکل گئی اور چند ایک احباب نے پاکستان کے بارے میں مایوس کن گفتگو شروع کردی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دراصل ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں کہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے؟ ان دوچار حضرات نے ہمیں یہ بتانا شروع کردیا کہ دراصل پاکستان میں کون کیا کر رہا ہے‘ وہاں کیا خرابیاں ہیں اور کیا مسائل ہیں۔ ساتھ ہی یہ ملبہ ڈال دیا کہ آپ لوگوں کو پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا پتہ ہی نہیں۔ اس پر تپ کھانا بنتا تھا سو مجھے پھر غصہ آ گیا۔ 
میں نے کہا: حضور! آپ امریکہ کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ بات مان لینے کی ہے۔ آپ کو پاکستان سے محبت ہے‘ آپ کو پاکستان کے معاملات سے دلچسپی ہے‘ یہ بات بھی مان لیتے ہیں‘ مگر جب آپ یہ کہتے کہ ہمیں (پاکستانیوں کو) پاکستان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تو آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے مبلغ علم کا منبع کیا ہے؟ ہمارے ٹی وی چینل‘ سی این این‘ بی بی سی‘ انٹرنیٹ اور بس! آپ ان حالات سے گزر ہی نہیں رہے جن سے ہم روز گزرتے ہیں۔ آپ صرف خودکش دھماکے کی خبر پڑھ کر ہم سے زیادہ علم کے حامل ہیں۔ ہم ان خودکش دھماکوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم حکمرانوں کو بھگت رہے ہیں‘ لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں‘ مہنگائی میں زندگی بسر کرنے کی سعی کر رہے ہیں مگر ہم آپ کی طرح مایوس نہیں۔ آنے والی تبدیلی کی دستک سن رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں آنے والی بہتری ہمیں نظر آ رہی ہے۔ تبدیلی کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ پہلا آگاہی اور دوسرا خواہش یعنی Awareness اور Willingness۔ اب تبدیلی کو روکنا ممکن نہیں۔ ہاں دیر لگ سکتی ہے مگر اب یہ نوشتہ دیوار ہے۔ مجھے امریکہ کے بارے میں لاکھ پڑھنے اور کئی بار دیکھنے کے باوجود آپ لوگوں جتنا علم نہیں۔ اسی طرح پچیس سال سے امریکہ بیٹھے رہنے کے بعد دوچار سال بعد آٹھ دس دن کے لیے پاکستان جا کر آپ بھلا پاکستان کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور کتنا جان سکتے ہیں؟ ہمارے پاس گرین پاسپورٹ کے علاوہ اور کوئی پاسپورٹ نہیں۔ پاکستانی شہریت کے علاوہ اور کوئی شہریت نہیں۔ پاکستان کے علاوہ اور کوئی جائے امان نہیں۔ آپ کی پاکستان سے محبت سر آنکھوں پر مگر آپ ہم سے بڑھ کر پاکستان کے رشتہ دار کہاں سے آ گئے؟ ہم تو پاکستان سے تنگ آ کر یا بہتر مستقبل کی امید میں پاکستان چھوڑ کر نہیں آئے۔ آپ ہم سے بڑے ہمدرد اور غمخوار کیسے ہو گئے؟ 
ایک صاحب نے بات تبدیل کرنے کے لیے کہا‘ پاکستان میں خاندانی سیاست نے سب کچھ برباد کردیا ہے۔ میں نے کہا: یہ بات درست ہے مگر خاندانی سیاست اتنی بری نہیں جتنی ہمارے ہاں ہے۔ ہمارے ہاں خاندانی سیاست صرف خونی رشتے کی بنیاد پر چلتی ہے‘ آپ کے ہاں میرٹ کے باوجود خاندانی معاملات سیاست میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ آپ اسے تجربے کا نام دیتے ہیں ہمارے ہاں صرف رشتہ داری ہی اصل میرٹ ہے۔ خاندانی سیاست کی درجنوں مثالیں ہیں۔ سینٹ میں مسلسل چھیالیس سال تک ایک ہی شخص نامزد ہوتا رہا۔ کانگریس میں مسلسل اٹھاون سال ایک شخص ممبر رہا۔ ایک شخص کانگریس اور سینٹ کا ستاون سال تک مسلسل ممبر رہا یعنی کبھی کانگریس میں اور کبھی سینٹ میں۔ مگر ہم مقابلہ نہیں کر رہے۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ معاملات یہاں بھی زیادہ اچھے نہیں مگر یہ ہمارے لیے مقابلے کی بات نہیں۔ آپ مجھ سے دس سال کی مدت کی شرط لگا لیں کہ اگلے دس سال بعد بلاول کی وہ اہمیت نہیں ہوگی جو بے نظیر بھٹو کی تھی اور حمزہ شہباز کی وہ سیاسی حیثیت نہیں ہوگی جو میاں نوازشریف کی ہے۔ اگر آپ کو خود پر اتنا یقین ہے تو کسی معزز شخص کو ضامن ڈال کر دس سال بعد کی شرط لگا لیں۔ ہے کوئی جو شرط لگائے؟ کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved