جو لوگ نیا پاکستان معرضِ وجود میں لانے کی باتیں یا دعوے کر رہے تھے وہ تو خیر بہت حد تک ناکام ہی رہے ہیں مگر خیر ہو ان کی جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں کہ انہیں قوم کا کچھ خیال آ گیا ہے۔ ویسے تو خیر اس قوم کے بارے میں سوچنے والوں کی ہر دور میں قلت رہی ہے اور اب بھی ہے‘ مگر جب کشتی میں سوراخ ہو جائے تو سبھی پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ جو لوگ کشتی میں بیٹھے ہوئے دوسرے بہت سے لوگوں کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے‘ وہ بھی کشتی کو بچانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ کشتی نہ رہی تو کوئی نہ رہے گا۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پائی جا رہی ہے۔
کرپشن کہاں نہیں، کس ملک میں نہیں؟ مگر صاحب! ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ زمانے بھر کی برائیوں میں لپٹے اور لُتھڑے ہوئے لوگ بھی کچھ وقت صاف ستھرے ڈھنگ سے گزارنا ضرور پسند کرتے ہیں۔ اور جب وہ اپنا وقت صاف ستھرے ڈھنگ سے گزار رہے ہوتے ہیں تب کوئی بھی ایسی ویسی بات روا نہیں رکھتے، پسند یا برداشت نہیں کرتے۔ دنیا بھر کی علّتوں میں ڈوبے ہوئے بھی جب کبھی دل کی آواز سنتے ہیں تو کچھ دیر کے لیے اپنی پسندیدہ ڈگر سے ہٹ کر فلاح کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے پاکستان میں سارے ہی اصول تج دیے گئے ہیں۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ کوئی اگر بہتر یا پُرتعیّش زندگی کے لیے کرپشن کی طرف جاتا ہے تو واپسی کا نام نہیں لیتا، کبھی بھول کر بھی ضمیر کی آواز نہیں سنتا اور یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کرپشن کی بھی بہرحال ایک حد ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ کرپشن کے دریا میں ڈبکیاں لگاتے وقت اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں ڈوب نہ جائیں۔ ہمارے ہاں لوگ کرپشن کے دریا ہی کو گھر لے آنے کے فراق میں رہتے ہیں تاکہ ڈبکیاں لگانے کے لیے زیادہ دور نہ جانا پڑے!
ایک عشرے سے عالم یہ ہے کہ ملک متواتر زوال آمادہ ہے۔ ہر شعبے میں، ہر معاملے میں صرف اور صرف خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ عوام کو بلند تر معیارِ زندگی تو خیر کیا ملے گا، وہ تو بنیادی سہولتوں کو بھی ترس گئے ہیں۔ پینے کے صاف پانی پر بھی لوگوں کا حق ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں ذرّہ بھر اختیار ہے وہ خدا بننے پر تُلا ہوا ہے اور سب کچھ تنہا ڈکار جانا چاہتا ہے۔
شدید حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا جو کام کرتا ہے بس کچھ ایسا ہی کام چند گرفتاریوں نے کر دکھایا۔ ایک زمانے سے یہ سنتے سنتے کان پک گئے تھے کہ بڑے مگرمچھوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اب دو تین مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے‘ تو دلوں کو عجیب طمانیت ملی ہے۔ لوگ خوش ہیں کہ چلیے ع
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
بوندا باندی سے کھیت سیراب نہیں ہوتے مگر بوندا باندی ہی سے بارش کی امید بھی تو بندھتی ہے۔ کرپشن جن کے لیے اوڑھنا بچھونا بن کر رہ گئی ہے‘ ان کے خلاف کسی بڑی کارروائی کی امید رکھنا بھی محال ہو گیا تھا۔ صد شکر کہ اب ان کی فائلیں کھولی جا رہی ہیں۔ سرکاری وسائل کو باپ سے ترکے میں ملی ہوئی جاگیر سمجھنے والوں کی کھال کھینچنے کی تیاری کی جا رہی ہے تو عوام کی آنکھوں میں امید کی چمک پیدا ہوئی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
کب سے ہوں، کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
عوام کا بھی یہی حال ہے۔ وہ بھول بھال گئے ہیں کہ کب سے ان کی محنت کی کمائی اور حقوق پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ اب اگر وہ کمائی پوری واپس نہ ملے تو بھی یہ کیا کم ہے کہ لٹیروں کی گردن ناپنے کی ابتدا ہو گئی ہے؟ اسٹیبلشمنٹ اپنی بات منوانے پر آ گئی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے عوام کے حقوق کا جو حشر کرتے آئے ہیں‘ وہ اب اس امر کا متقاضی ہے کہ تدارک کی کوئی تیز رفتار اور تیر بہ ہدف صورت نکالی جائے۔ عوام کا صبر اور حوصلہ جواب دے گیا ہے۔ وہ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جانے والی کرپشن کے سرپرستوں کے خلاف محض کارروائی نہیں بلکہ اس کے فوری نتائج بھی چاہتے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ ان کی انتھک محنت کی کمائی پر ڈاکے ڈالنے والوں کو کسی طور نہ بخشا جائے۔ کوئی ''پلی بارگیننگ‘‘ نہ ہو، پائی پائی وصول کی جائے۔ جس نے جو کیا ہے اس کی سزا ضرور دی جائے اور کرپشن کی ساری کمائی قومی خزانے میں انڈیل دی جائے۔
عیدالاضحیٰ قریب ہے۔ ایسے میں قومی خزانے پر ڈاکے ڈالنے والوں کی گردن کا ناپا جانا خیر کی نشانی ہے۔ جب ان بڑوں کی کھال کھنچے گی تب چھوٹوں کو بھی کچھ سدھرنے کا خیال آئے گا اور معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو گا۔ جو ہماری آپ کی محنت کی کمائی اور اس سرزمین کی امانت یعنی وسائل کو گھاس پھوس کی طرح چر گئے ہیں‘ اب ان کا احتساب کیا جانا اور انہیں سزا کی چُھری کے نیچے لانا لازم ہے۔ قربانی کے بے زبان جانوروں کے ذبیحے سے قبل کرپشن کے باڑے میں پلنے والے ان سانڈوں کا ذبیحہ ناگزیر ہے۔ اور ذبیحہ کیوں؟ قوم کے ان دشمنوں کا تو جھٹکا کیا جانا چاہیے! اچھا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی کھال اتارے جانے سے قبل کرپشن کے میدان میں دھماچوکڑی مچانے والے بدمست سانڈوں کی کھال کھینچی جائے۔ جن کے ہاتھوں اچھی خاصی زندگی دکھوں کی داستان ہو کر رہ گئی تھی‘ ان سے جواب اگر اب طلب نہیں کیا جائے گا تو پھر کب کیا جائے گا؟ اچھا خاصا پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اب کون سے پانی کا انتظار ہے کہ آئے اور سر سے گزرے؟ ع
کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور!
لوگ منتظر ہیں کہ احتساب کا جو چُھرا گھمایا گیا ہے‘ وہ ٹھیک ٹھیک گردنوں تک پہنچے اور اُن پر پِھر جائے۔ اور معاملہ صرف گردن ناپنے یا اس پر سزا کی چُھری پھیرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ جو کچھ ڈکار لیا گیا ہے وہ اگلوایا جائے اور عوام کی نذر کیا جائے۔ انصاف کی ایک صورت یہ بھی ہے۔ قدم قدم پر عوام کو ڈرانے دھمکانے والے اور عوام ہی کے دیے ہوئے اختیارات کی مدد سے قومی وسائل کو باپ کا مال سمجھ کر ڈکارنے اور شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کر جانے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وقت نکلا جاتا ہے۔ احتساب کی جو تلوار نیام سے نکالی گئی ہے‘ وہ اب اسی وقت نیام میں واپس جانی چاہیے جب اس کی پیاس بجھ چکی ہو۔ تشنہ لبی اور تشنہ کامی حد سے گزری۔ ہر طرف تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ''نیا پاکستان‘‘ کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں زندگی، سیاست اور ریاستی نظم و نسق کے گلدستے سے کرپشن کے کانٹوں کو نکال پھینکنا ہی اولین قومی ترجیح ہونی چاہیے۔
کچھ دن گزریں گے کہ عیدالاضحیٰ آئے گی۔ قربانی کے جانوروں کا ذبیحہ ہو گا اور زمین خوں رنگ ہو جائے گی۔ ایسے میں ان کی امیدوں اور آرزوؤں کا بھی تو کچھ خون بہے جو اب تک عوام کے ارمانوں کا خون کرتے آئے ہیں‘ اور وہ بھی ریاستی نظم و نسق چلانے کے نام پر۔
ریاستی جسم سے جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے بڑوں کو پابندِ سلاسل دیکھنا قوم کے خوابوں میں سے محض ایک کی تعبیر ہے۔ احتساب اور انصاف کی گاڑی رواں دواں رہنی چاہیے۔ وقت کی بساط پر ہر بازی ہارنے والے اہلِ وطن کی اس سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں۔ جن پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے انہوں نے سہم جانے اور گِھگھیانے میں بھیڑ بکریوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے!
بس ایک التماس ہے کہ جس کسی نے بھی کوئی غلط کام کیا ہے اُس کی جاں بخشی نہیں ہونی چاہیے۔ جس طور اندھے کی لاٹھی کسی کو نہیں دیکھتی بالکل اسی طور احتساب کے ڈنڈے کو بھی نابینا ہی ہونا چاہیے۔ سب کو اس بات کا یقین آ جانا چاہیے کہ ع
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں!