مودی کے برسر اقتدار آنے کی وجہ جہاں کانگریس کے دس سالہ اقتدار کی ناکامی تھی وہاں بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹیوںکی نظریات سے غداری بھی اس کا ایک سبب تھی۔دس سال تک مزدور دشمن اقدامات کرنے اور سرمایہ داروں کو نوازنے کے نتیجے میں گزشتہ سال کے انتخابات میں کانگریس کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بہت سی دیگر بورژوا پارٹیا ں بھی ذات پات، قوم پرستی سمیت لسانی، نسلی ، علاقائی اور مذہبی تعصبات کی گرد ہی سیاست کرتی ہیں اور اس حوالے سے ملک گیر پارٹیاں نہیں ہیں۔دوسری جانب کمیونسٹ پارٹیاں جنہیں 2005ء کے انتخابات میں بڑی حمایت ملی اور لوک سبھا میں 64 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئیں، وہ بھی سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام دینے کی بجائے کانگریس کی مخلوط حکومت کا حصہ بن گئیں۔اس کے علاوہ مغربی بنگال، کیرالا اور تری پورہ جیسی ریاستوں میں ایک لمبا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود وہاں کے محنت کش عوام کی حالت زار میں تبدیلی نہیں لا سکیں، بلکہ اپنے آخری دور میں انہوں نے مزدور دشمن پالیسیوں کو اختیار کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو نوازنا شروع کر دیا۔انہی پالیسیوں کے باعث گزشتہ سال کے انتخابات میں انہیں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس شکست کی اہم وجہ یہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی وہی نیو لبرل پروگرام پیش کر رہی تھیں جس پر کانگریس اور دوسری مقامی بورژوا پارٹیوں کی حکومت عمل پیرا تھی۔
گزشتہ سال کے انتخابات میں یہ 'کمیونسٹ‘ راہنما سیکولرازم اور جمہوریت جیسے مبہم نعروں پر انتخابی مہم چلا رہے تھے جبکہ مودی جیسا ہندو بنیاد پرست انتہائی عیاری سے مذہبی تعصب کی بجائے معاشی پروگرام پیش کر رہا تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں راہول گاندھی اور اس کی موروثی سیاست کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ '' میں ایک چائے بیچنے والے کا بیٹا ہوں اور میری لڑائی سیاسی شہزادوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے انتہائی مکاری سے دعوے کیے کہ وہ بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرے گا۔ عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اس نے انتخابات کو امیر اور غریب کی جنگ بنا دیا۔اس دھوکہ دہی کے باعث بی جے پی کو تاریخی کامیابی ملی جبکہ کمیونسٹ پارٹیاں جو طبقاتی نعرے ترک کر چکی ہیں ، انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔انقلابی سوشلزم کے پروگرام کو ترک کر کے پارلیمانی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے اگر سرمایہ داروں کو نوازا جائے گا اور محنت کشوں پر گولیاں چلائی جائیں گی تو محنت کش ایسی قیادتوں کو کبھی قبول نہیں کریں گے بلکہ سختی سے رد کر دیں گے۔
اس شکست کے بعد بہت سے لیڈر مایوس ہو گئے تھے اور اپنے جرائم قبول کرنے کی بجائے ہندوستان کے محنت کش طبقے کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے تھے۔اسی دوران وہ مودی کی کامیابی کو ہندوستان میں فاشزم کی کامیابی قرار دے رہے تھے۔ ان کے خیال میں اب ہندوستان میں ایک تاریک دور کا آغاز ہو چکا ہے جو ایک طویل عرصے تک موجود رہے گا۔ان کے نزدیک پرولتاریہ ایک لمبے عرصے تک ابھر نہیں سکے گا اور یہ کہ طبقاتی کشمکش پس پشت چلی گئی ہے۔اسی تناظر کے پیش نظر بہت سے ''کمیونسٹ ‘‘ راہنما اپنی مراعات کے تحفظ کے لیے بی جے پی اور دوسری دائیں بازو کی جماعتوں میں شامل ہو گئے‘لیکن اس کامیاب ہڑتال نے ان کے تناظر کو غلط ثابت کیا ہے اور ہندوستان کے محنت کش طبقے اور نوجوانوںکی انقلابی صلاحیت پوری دنیا کے سامنے عیاں کی ہے۔ٹریڈ یونین کے راہنماؤں کو بھی نیچے سے ابھرنے والے دباؤ کو رستہ دینا پڑا اور وہ ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہوئے۔اگر وہ اس دباؤ کے باوجود ہڑتال کی کال نہ دیتے تو خود ان کی قیادت خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
لیکن اس کامیاب ہڑتال کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے حملوں میں کمی نہیں آئے گی اور نہ ہی محنت کشوں کی صعوبتوں میں کمی آئے گی۔مذاکرات تکلیف دہ حد تک طوالت اختیار کر سکتے ہیں اور کئی ماہ تک بے نتیجہ جاری رہیں گے۔حکمران طبقات کوشش کریں گے کہ محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت کو زائل کیا جائے اور ان کو مایوس کیا جائے۔اس وقت اشد ضرورت ہے کہ اس انقلابی صلاحیت کو سیاسی رنگ دیا جائے۔کمیونسٹ پارٹیوں کی صفوں میں ہیجان موجود ہے لیکن ابھی اس کی شدت واضح نہیں ہے۔ان کی انتخابات میں شکست کے بعد بائیں بازو میںکوئی نیا متبادل بھی ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ان پارٹیوں کی قیادتوں میں موجود تضادات اب زبان زد عام ہیں۔
بدقسمتی سے یہ اختلافات کسی نظریاتی نکتے پر نہیں بلکہ تنظیمی اور ذاتی نوعیت کے ہیں ۔یہ قیادتیں سوویت یونین اور دیوار برلن کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی واپسی کے عہد میں پروان چڑھے ہیں اور سخت مایوس اور بد گمان ہیں۔ لیکن انہی 25 سالوں میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس پر ماضی کی ناکامیوں کا کوئی بوجھ نہیں۔پرانے لیڈر سوویت یونین کے انہدام کو سوشلزم کی ناکامی سمجھ کر مایوس ہیں جبکہ درحقیقت وہ سٹالنزم کی ناکامی تھی۔اسی مایوسی میں وہ سرمایہ داری کے سامنے سر نگوں ہو گئے اور اس نظام سے مفاہمت کر لی۔بہت سے لیڈر تو سٹالنزم کے دو مرحلوں کے انقلاب سے پسپا ہو کر اب ایک ہی مرحلے پر اکتفا کر چکے ہیں جو سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مرحلہ ہے۔
لیکن سرمایہ داری کا بحران سماج میں بے چینی کو جنم دے رہا ہے اور اس نظام سے نفرت بڑھ رہی ہے۔چونکہ تمام پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام پر ایمان لا چکی ہیں اس لیے نوجوانوں اور محنت کشوںمیں سیاست سے ہی نفرت اور بیزاری جنم لے رہی ہے‘ لیکن موجودہ عہد تیز ترین تبدیلیوں کا عہد ہے اور اس میں خلا کو پر کرنے کے لیے حادثاتی شخصیات اور پارٹیاں جنم لیتی رہیں گی اور سیاسی بیداری کا عمل جاری رہے گا۔دہلی کے انتخابات میں کیجری وال کی عام آدمی پارٹی اس کی ایک مثال ہے۔لیکن یہ عارضی اور سطحی عمل ہے۔ جیسے جیسے طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی ایسے عوامل دم توڑتے جائیں گے اور واقعات نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے انقلابی مارکسزم کی قوتوں کو پروان چڑھنے کے مواقع فراہم کریں گے‘ لیکن یہ عمل طویل ہوگا کیونکہ مارکسزم کی یہ قوتیں مکمل انقلابی تبدیلی کے لیے درکار موضوعی عنصر کے طور پر کمزور ہیں۔اس دوران یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ یہ کمیونسٹ پارٹیاں اس نئی انقلابی لہر کی قیادت کرنے کے قابل ہیں یا بالکل بوسیدہ ہو کر ناکارہ ہو چکی ہیں۔
لیکن اس تمام عمل میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہڑتال بر صغیر میں طبقاتی کشمکش کے حوالے سے اہم سنگ میل ہے۔ یہ بات بھی خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اتنی بڑی کامیابی اس وقت حاصل کی گئی جب اس ہڑتال کے قائدین اتنی بڑی تعداد کی شرکت اور حمایت کی توقع نہیں کر رہے تھے۔سرمایہ داری ہندوستان کو ترقی دینے میں تاریخی طور پر ناکام ہو چکی ہے، بلکہ اس نے غربت، ذلت، محرومی ، بیماری اور جہالت میں مزید اضافہ کیا ہے۔اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے محنت کشوں کے لیے ایک چھوٹی سی بہتری بھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔لیکن ہندوستان اب تیز ترین تبدیلی کے جس دور میں داخل ہو چکا ہے اس میں طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی۔ سماج کی انقلابی تبدیلی کا سوال جلد عوام کے سامنے آئے گا۔اس ہڑتال نے ثابت کیا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر پہلو سماج میں بھی محنت کش ایک طبقے کے طور پر اکٹھے ہو کر فیصلہ کن لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ ہندوستان کا سوشلسٹ انقلاب صرف ہندوستان کے محنت کشوں کو اس نظام کی جکڑ بندیوں سے آزاد نہیں کرے گا بلکہ پورے خطے میں پھیلتے ہوئے انقلابی فتوحات حاصل کرے گا، جہاں دنیا کی 40 فیصد غربت موجود ہے۔ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے انقلابات ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک ملک میں ابھرنے والی لہر پورے خطے میں پھیلے گی اور جنوبی ایشیا میں ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن یا سوویت یونین قائم کرے گی۔صرف اسی طرح دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کی نجات ممکن ہے۔اس انقلاب کے پوری دنیا پر پڑنے والے اثرات ناقابل بیان ہیں!