تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     06-09-2015

قسم اُس وقت کی

دفاع پاکستان کی گولڈن جوبلی منانے سے ایک فائدہ تو یہ ہواہے کہ نئی نسل کو اپنے وطن اور اپنی افواج کی حرمت کا احساس اور شعور حاصل ہوا ہے۔ اگر یہ گولڈن جوبلی اس طرح نہ منائی جاتی تو انٹرنیٹ‘ موبائل اور سوشل میڈیا کی اس نسل پر کبھی بھی آشکار نہ ہوپاتا کہ ان کی بہادر افواج نے 65ء کی سترہ روزہ جنگ کس انداز میں لڑی اور اپنے سے چار گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو کس طرح ناکوں چنے چبوائے۔ ٹی وی کے وہ چینل جہاں ہر وقت سیاستدان آپسی لڑائیوں میں گتھم گتھا رہتے تھے‘ اب صبح شام افواج پاکستان کی شجاعت کے کارنامے دکھا رہے ہیں جنہیں دیکھ کر عوام میں ایک ولولۂ تازہ بیدار ہو رہا ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایک کیڈٹ کس طرح داخل ہوتا ہے اور کن مراحل سے گزر کر کندن بنتا ہے‘ یہ سب نئی نسل کیلئے انتہائی دلچسپ ہے۔ایئرفورس سے متعلق پروگرام زیادہ شوق سے دیکھے جا رہے ہیں۔ خواتین فائٹر پائلٹ کو جنگی جہاز اڑاتا دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب ہماری خواتین کسی میدان میں مردوں سے پیچھے ہیں۔ کروڑوں روپے کا جہاز ایسے ہی کسی خاتون کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔ انہیں بھی ایسے تمام کٹھن مراحل اور تربیت سے گزرنا پڑتا ہے‘ جس سے مرد پائلٹ گزرتے ہیں۔ جسمانی طاقت کی بات اور ہے لیکن دماغ کی کارکردگی دونوں کی ایک جیسی ہوتی ہے اور فائٹر پائلٹ کیلئے طاقتور جسم سے زیادہ حاضر دماغی اور برق رفتاری درکار ہوتی ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں بننے والی افواج پاکستان اور کیڈٹ کی زندگی پر مبنی شاندار ڈرامہ سیریلز ''سنہرے دن‘‘ ''الفا براوو چارلی‘‘ ''مجاہد‘‘ ''اُجالے سے پہلے‘‘ ''جان ہتھیلی پر‘‘ اور
''فصیل جان سے آگے‘‘ نشرمکرر کے طور پر ہر چینل پر چلائی جانی چاہئیں تاکہ بچوں اور نوجوانوں میں افواج اور وطن سے محبت بڑھے۔
ان پروگراموں سے نئی نسل کو معلوم ہو رہا ہے کہ 65ء کی جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں دشمن کا ہمارے جیالے جوانوں نے وہ مقابلہ کیا کہ کئی محاذوں پر شیخی خور دشمن نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ انہیں یہ بھی علم ہو رہا ہے کہ دراصل ہندو قوم آدابِ جنگ سے ناواقف ہے۔ وہ اعلان ِجنگ کو ضروری سمجھتی ہے نہ لڑنا جانتی ہے‘ یہی ان کی شکست کا بنیادی سبب ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا کا سامان جنگ اکٹھا کرنے کے بعد بھی انہوں نے ہماری فوجوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے؟ دوسرے لفظوں میں اُن میں وہ جذبہ پیدا ہی نہیں ہو سکا جو ایک سپاہی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس نے ہمارے کئی بہادروں کو جامِ شہادت پلایا ہے۔ ہماری روایات کے مطابق ہر سپاہی خواہ وہ فوج کا جوان ہو یا افسر اعلیٰ‘ شہید ہونے کی تمنا لئے ہوئے محاذ کی طرف بڑھتا ہے۔ موجودہ جنگ میں ہماری فوج کے کئی اعلیٰ افسر جنہیں صفوں کے آخر میں رہنا تھا‘ جان ہتھیلی پر رکھ کر جذبۂ شہادت سے بے تاب ہو کر میدان جنگ میں اولین صفوں میں جا پہنچے اور اپنی جان عزیز اپنے مقدس وطن پر قربان کردی۔ یہی مسلمان سپاہی کی فطرت اور پاکستانی سپاہی کی جبلت ہے! 
میجر عزیز بھٹی نشان حیدر پانے والا پاکستان کا وہ جیالا جانثار تھا جو دشمن کی لاکھوں کی تعداد کی فوج کے آگے حفاظتی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ ان کے خاندان کے سارے رکن قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی زندہ مثال ہیں۔ جب ان کی شہادت کی خبر ان کے ضعیف والدین‘ کمسن بچوں اور ان کی جوان بیوہ کو ملی تو انہوں نے اس سپاہی کے جام شہادت پینے پر سکون و صبر اور فخر کا اظہار کیا۔ ان کی ساس نے کہا کہ میرے داماد نے شہید ہو کر سینکڑوں پاکستانی عورتوں کا سہاگ قائم رکھا۔ فوجی اعزاز کا سب سے اعلیٰ تمغہ پانے والے شہید میجر عزیز بھٹی نے ہفتہ بھر بھوکا پیاسا رہ کر پاکستان کی حفاظت کی۔ انہیں بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی مجبوری نہ تھی مگر ان کا کہنا تھا کہ چھ ستمبر سے گیارہ ستمبر تک انہیں کسی بات کا ہوش تھا نہ فرصت۔ ان کی بس ایک ہی تمنا تھی کہ دشمن کو پسپا کردیا جائے۔ بھارت نے جب اعلان جنگ کیے بغیر چھ ستمبر کو پاکستان کے قلب یعنی لاہور پر حملہ کیا‘ میجر عزیز بھٹی
لاہور کے محاذ پر برکی کے علاقے میں پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ ان کی دو پلٹنیں راوی بیدیاں نہر سے چھ سو گز کے فاصلے پر تھیں لیکن انہوں نے دلی جذبے سے مجبور ہو کر اپنی کمپنی کی قیادت خود کرنے کے لیے برکی میں اگلی پلٹن کے ساتھ خود رہنا پسند کیا۔ دشمن نے اچانک ایک ڈویژن فوج‘ توپ خانہ اور لاتعداد ٹینکوں کی مدد سے مسلسل حملہ کرنا شروع کردیا۔ اس محاذ پر دشمن نے چھ مرتبہ بھرپور حملے کیے لیکن ہر مرتبہ ہمارے جیالے جوانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ میجر بھٹی اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے سب سے آگے لڑنے والے دستوں کے ساتھ ساتھ رہے اور دشمن کے چھکے چھڑا دئیے۔ دس اور گیارہ ستمبر کی قیامت خیز رات کو دشمن نے پورے سیکٹر پر پھر زبردست حملہ کیا اور جب برکی کے گرد حلقہ تنگ کر لیا اور نہر کے پتن کے قریب پہنچ گیا تو میجر بھٹی مٹھی بھر جوانوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے نہر کے پتن کی طرف پہنچے۔ انہوں نے دوستوں کی صفیں درست کیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ ان کا جذبہ‘ ان کی ہمت اور ان کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ ہزاروں کی تعداد کی دشمنوں کی فوج دم دبا کر بھاگ نکلی۔ شیر دل میجر تن تنہا دشمن کی فوج پر اس وقت تک مسلسل فائرنگ کرتے رہے جب تک ان کی کمپنی کا ایک ایک سپاہی اور ایک ایک جوان دوسرے کنارے تک نہیں پہنچ گیا۔ وہ بار بار صفیں درست کرتے اور ہر مرتبہ اس بے جگری سے دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے کہ آخرکار دشمن کے ہوش اڑ گئے۔ اس سارے کارنامے میں ان کے پاس صرف ایک سٹین گن تھی‘ مگر مسلمان سپاہی کبھی ہتھیاروں کا محتاج نہیں ہوتا۔ ہتھیاروں کے انبار تو بھارتی فوج کے پاس لگے ہوئے ہیں۔ بغیر جذبے کے ہتھیار بچوں کا کھلونا بن کر رہ جاتے ہیں۔ 12 ستمبر کو پاکستان کا یہ جانثار‘ دشمن کی ہزاروں کی تعداد میں پیدل فوج اور لاتعداد ٹینکوں اور توپوں کے گولوں کی برسات کا مقابلہ کر رہا تھا کہ ایک گولہ دائیں کندھے پر آ لگا۔میجر عزیز بھٹی شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے حب الوطنی اور شجاعت کی ایک ایسی داستان چھوڑ گئے جو ہر سپاہی کے لئے ایک مثال بن گئی۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نشان حیدر اور ستارہ جرأت حاصل کرنے والے میجر شبیر شریف شہید، کیپٹن ممتاز شریف (ستارۂ بسالت) کے چھوٹے بھائی اور نشان حیدر میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ فوجی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ جس طرح میجر شبیر شریف اور میجر عزیز بھٹی نے وطن پر آنچ نہ آنے دی تھی ‘آج وہی ذمہ داری جنرل راحیل شریف بخوبی نبھا رہے ہیں ۔پوری قوم کی نظریں ان پر لگی ہیں۔انہیں ملک کے اندرونی و بیرونی محاذ پر دشمن کی جارحیت کا سامنا ہے۔ ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کا انحصار صرف فوج کی کارکردگی پر نہیں بلکہ قوم کی اس جنگ میں بالواسطہ شمولیت پر بھی ہے۔ جس طرح پینسٹھ میں ہم فوج کے ساتھ کھڑے تھے‘ آج بھی اسی طرح کھڑا ہونا ہو گا‘ تب جا کر دیرپا کامیابی حاصل ہو گی۔ضروری ہو گا کہ دفاع پاکستان کے اس سلسلے کو کسی ایک دن یا ایک ہفتے تک محدود نہ کیا جائے‘ بلکہ سارا سال اسے اسی طرح جاری رکھا جائے تاکہ دشمن پر ہیبت قائم رہ سکے اور نئی نسل اور فوجی جوانوں کے ولولے اور جوش میں کمی نہ آنے پائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved