تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-09-2015

اخبار فروش ’’دنیا‘‘

روزنامہ ''دنیا‘‘ کے تین سالہ مختصر سے دور کا جائزہ لیتے ہوئے‘ میں نے ادارتی شعبے سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کا ذکر کیا۔ لیکن تنگی ٔ داماں نے اخبار فروش بھائیوں کے تذکرے کی اجازت نہ دی۔ اگلے روز ایک اور موضوع پر لکھنا پڑا اور آج گنجائش پیدا ہوئی ہے‘ تو مجھے خیال آیا کہ اخبارفروش بزرگوں اور بھائیوں کا قرض ابھی باقی ہے۔ ضروری سمجھا کہ آج میں اخبار فروش عزیزوں ہی نہیں‘ بزرگوں کا ذکر بھی کروں۔ صحافت کے شعبے میں درجنوں یونینیں اور تنظیمیں بنائی گئیں‘ لیکن جو تسلسل اخبار فروش یونین میں ہے‘ وہ کسی دوسری تنظیم میں نظر نہیں آیا۔ جب میں نے اخبار فروش یونین کی تاریخ پر نگاہ ڈالی‘ تو حیران رہ گیا کہ 1947ء سے لے کر آج تک‘ اس کے صرف تین صدر ہوئے ہیں۔ بانی مولوی حبیب اللہ تھے اور صدر چوہدری رشید۔ مولوی حبیب اللہ‘ مولانا ظفر علی خاں کے عاشق تھے اور اپنے ہر سالانہ اجلاس میں ‘ان کا بطور خاص تذکرہ کیا کرتے۔ جب تک وہ صدر رہے‘ مولانا ظفرعلی خاں کو یاد کرنا کبھی نہیں بھولے۔ ہر سال یوم ظفرعلی خاں ضرور مناتے اور بڑے اہتمام سے تقریبات منعقد کیا کرتے۔ ایک دو مرتبہ مجھے بھی ان تقریبات میں حصہ لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مولانا ظفرعلی خاں جیسا فاضل‘ صاحب طرز اور قادر الکلام صحافی ‘شاید ہی دوسرا کوئی ہوا ہو۔ وہ نظم و نثر دونوں کے بادشاہ تھے۔ انہوں نے ماشاء اللہ بہت لکھا‘ بے پناہ لکھا اور خوب لکھا۔ کمال یہ تھا کہ جو خبر یا خیال ذہن میں آیا‘ اسی وقت طبیعت رواں ہو گئی اور پھر الفاظ اس تیزی کے ساتھ چلے کہ ہاتھ جوڑتے نظر آئے۔ یوں تو مولانا کی شاعری کا کوئی حصہ بھی اظہار کے طلسم سے خالی نہیں‘ کوئی نظم پڑھیں‘ کوئی نعت دیکھیں‘ کوئی حمد یاد کریں‘ مولانا ہر طرز سخن میں‘ اپنے رنگ کے امام تھے۔ یہاں میں ان کی نظم'' آزادی ضمیر‘‘ نقل کروں گا۔ اس کا قافیہ دیکھئے اور مولانا کی بندشیں ملاحظہ فرمایئے۔ ایک سے ایک قافیہ بندشوں میں ایسے جڑا ہے ‘جیسے ہر نگینہ موزوں ترین جگہ پر ہو۔
بت خانۂ فرنگ کی چوکھٹ کی خاک سے
آلودہ جب سے سر ہے محمد شفیع کا
کوشش یہ ہو رہی ہے کہ جلوہ نظر نہ آئے
آزادیٔ ضمیر کے بام رفیع کا
تکبیر سے ہے لاگ تو تصفیق سے لگائو
تہذیب نام ہے اسی فعل شنیع کا
قدوسیان شملہ سے پوچھو کہ کیا ہے راز
اس تیز پا سمند کی سیر سریع کا
لیکن نہ مل سکے گا اسے حشر تک سراغ
سرمنزل حرم کے مقام منیع کا
قول اور فعل میں نہیں جن کے مطابقت
کیا رنگ اڑائیں گے مری طرز بدیع کا
محنت کشوں کی ہریونین کی تاریخ دیکھیں‘ کسی کا صدر بھی زیادہ عرصے تک ‘اپنے منصب پر قائم نہیں رہ سکا۔ عام طور پر پیشہ ورانہ یونینوں میں ہر پہلے‘ دوسرے یا تیسرے سال تک ‘ایک ہی صدر رہتا ہے‘ مگر کیا آپ یقین کریں گے کہ بانی مولوی حبیب اللہ کے ساتھ ‘ اخبارفروش یونین کے پہلے صدر چوہدری رشید تھے‘ جو 1949ء سے 1999ء تک صدر رہے۔ بظاہر آپ کو اخبارفروش ‘ تعلیم کے معاملے میں پیچھے نظر آتے ہیں‘ لیکن ان کے سماجی اورتنظیمی شعور کی طرف دیکھیں‘ تو دوسری کسی یونین میں عہدیداروں کا وہ تسلسل نظر نہیں آتا‘ جو اخبارفروشوں کے تنظیمی ریکارڈ میں موجود ہے۔ سچی بات ہے‘ میری صحافتی زندگی کا زیادہ عرصہ مولوی حبیب اللہ اور چوہدری رشید کے دور میں گزرا ہے۔ 1999ء کے بعد اخبارفروش یونین سے میرا زیادہ رابطہ نہیں رہا۔ مصروفیات کی نوعیت بدل گئی تھی اور صحت کے حالات بھی۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کی تیسری سالگرہ کے موقع پر‘ جب میں صبح 4 بجے اخبار فروش یونین کے درمیان گیا‘ تو دنیا بدلی ہوئی تھی۔ دنیا کو بدلنا ہی ہوتا ہے‘ مگر یہ خیال نہیں تھا کہ سولہ سترہ سال سے ایک ہی شخصیت ‘ایک ہی عہدے پر فائز ہو گی۔ لیکن یہ اعزاز اخبارفروش یونین کو حاصل ہے کہ اس کے پہلے صدر 1949ء سے 1999ء تک برقرار رہے اور ان کے بعد اب تک چوہدری نذیر احمد اس عہدے پر فائز ہیں۔ خدا نظربد سے بچائے‘ مجھے تو وہ نوجوان ہی لگے اور اگر ان کی عمر کو دیکھا جائے‘ تو ریکارڈ کی روشنی میں انہیں مزید 15سال تک اسی عہدے پر فائز رہنا چاہیے۔ اخبارفروش یونین میں جو اتفاق اور یکجہتی دیکھنے میں آئی ہے‘ اس کی مثال محنت کشوں کی کسی بھی یونین میں نظر نہیں آئی۔ ڈرتا ہوں کہ اخبارفروشوں کے اتحاد کو نظر نہ لگے۔ مجھے اس تنظیم کے ہر کارکن کے شعور پر رشک آتا ہے۔ اس تنظیم کے رکن پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کے محنت کشوں کی تنظیم میں ‘ اتنا اتحاد اور یکجہتی طویل عرصے کے لئے باقی رہے‘ تو انہیں سلام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کاش! پاکستان کے دوسرے محنت کشوں اور سیاسی تنظیموں میں اسی طرح کی یکجہتی اور اتفاق دیکھنے میں آئے۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے نیوز ایجنٹ سلطان محمد تنولی سے میرا دیرینہ تعلق ہے۔ ہفت روزہ ''شہاب‘‘ اور روزنامہ ''حیات‘‘ ان دونوں میں سے وہ کسی کے سول ایجنٹ رہے ہیں۔ مگر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے برے دن‘ گزارنے کے لئے ''انارکلی‘‘ ڈائجسٹ نکالا تھا اور یہ تنولی صاحب‘ اس کے بھی نیوزایجنٹ تھے۔ خدا کا کرم کیا ہوا کہ وہ بھی چل نکلا۔ مگر میرے مالی وسائل ہانپ گئے۔ کوئی بھی روزنامہ‘ ہفت روزہ یا ماہنامہ محض فروخت کی آمدنی سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اشتہار اور ان کے معاوضے کی بروقت وصولی نہ ہو‘ تو پھر اللہ ہی اللہ۔ روزنامہ ''حیات‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے چل نکلا تھا۔ لیکن میںانتظامی معاملات میں انتہائی نالائق ہوں۔ انتظامی معاملات‘ جن لوگوں کے سپرد کئے‘ میں ان کے مقابلے میں بھی نااہل تھا‘ نہ کبھی سرکولیشن کی پوری آمدنی اکائونٹ میں آئی اور نہ اشتہاروں کی وصولیاں۔ سرکولیشن دیکھ کر خوشی بھی ہوتی تھی اور دل بھی بیٹھتا تھا۔ خوشی اس بات کی کہ زیادہ فروخت ہو رہا ہے اور دل اس لئے بیٹھتا تھا کہ سرکولیشن کی آمدنی کبھی ہاتھ نہیں آئے گی۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ کوئی بھی کارکن صحافی‘ اپنا اخبار یا جریدہ کامیابی سے نہیں چلا سکا۔ میں نے اپنی زندگی میں جتنے کارکن صحافیوں کو اپنا اخبار یا رسالہ نکالتے دیکھا ہے‘ وہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔ میرا اپنا تجربہ تو یہ ہے کہ ہر اخبار اور جریدے کی سرکولیشن بہت ہو گئی‘ لیکن اس کے مالی معاملات میرے قابو سے باہر ہو گئے۔ روزنامہ ''دنیا ‘‘شروع کر کے‘ ایک بات کی سمجھ آ گئی کہ وافر سرمایہ اور اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیتیں نہ ہوں‘ توکوئی صحافتی تجربہ کامیاب نہیں ہوتا۔ ریکارڈ دیکھا جائے‘ تو دولت اور انتظامی صلاحیتیں بھی اخبار چلانے کے لئے کافی نہیں۔ گزشتہ چند سال میں جو نئے اخبار‘ مارکیٹ میں آئے‘ ان کے پیچھے سرمائے کی بھی کمی نہیں تھی اور انتظامی صلاحیتوں میں بھی و ہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ راستے میں دم توڑ گئے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ روزنامہ ''دنیا‘‘ نے ‘آتے ہی نہ صرف قدم جما لئے بلکہ ہر روز اس کی اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لئے میں بار بار لکھتا ہوں کہ باقی اخباروں اور روز نامہ ''دنیا‘‘ میں صرف ایک فرق ہے۔ میاں عامر محمود کا۔الفاظ کے جھروکوں سے رضاطاہر‘ جھانکتے دکھائی دے رہے ہیںکہ میں ان کا ذکر کرنا بھول نہ جائوں۔ نہیں جناب! میں نہیں بھولوں گا۔ آپ بھول گئے‘ تو ہمارے اخبار کا کیا بنے گا؟
وضاحت: دیگر پاکستانیوںکی طرح لوڈشیڈنگ میرے اعصاب پر بھی اس طرح سوار ہو چکی ہے کہ گزشتہ روز کے کالم میں جہاں جہاں میں نے جنگ کے دوران ہونے والے بلیک آئوٹ کا ذکر کیا‘ وہاں ''بلیک آئوٹ‘‘ کی جگہ ''لوڈشیڈنگ‘‘ لکھتا چلا گیا۔ تصحیح کے لئے مشکور ہوں۔
----------------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved