تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     07-09-2015

امریکہ میں صہیونی اثر و رسوخ کی حدود

جب گزشتہ ہفتے شاہ سلمان صدر اوباما کی دعوت پر واشنگٹن گئے تو ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل اس ملاقات کے ایجنڈے پر شامل نہ تھی، لیکن اس موضوع سے صرف ِ نظر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کمرے میں گھس آنے والے ہاتھی سے اغماض برتنا۔ 
ڈیموکریٹس میں سے 34 سینٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے بعد صدراوباما کو یقین ہے کہ وہ یورپی یونین، فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس اور چین کے ساتھ مل کرگزشتہ جولائی میں ایران کے ساتھ ہونے والی ڈیل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اس ڈیل کی کامیابی، مشکل حالات کا سامنا کرنے والے امریکی صدر کے لیے قدرے سکون کا سانس لینے کا باعث بنی کیونکہ اُنھوں نے اس تاریخی معاہدے کو طے کرنے کے لیے اپنی تمام ترسیاسی ساکھ دائو پر لگادی تھی۔ بے شک اُنہیں اس سفارتی فتح کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں جنگی جنون برپا کرنے والے شکروں(hawks) کی موجودگی کے باوجود ایران کے ساتھ جنگ، جس کے نہایت تباہ کن نتائج نکل سکتے تھے، کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا۔ اگرچہ اس ڈیل کے کئی فوائد ہیں لیکن اس کی وجہ سے تل ابیب ، مشرق ِوسطیٰ اور امریکہ میں بہت سوں کو پریشانی لاحق رہے گی۔ سب سے پریشان کن سوچ یہ ہے کہ پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران پچاس بلین ڈالر اور پھر ایک سوبیس بلین ڈالر کی خطیر رقوم استعمال کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ یہ رقوم ایران کی اپنی ہیں لیکن امریکہ، یورپی یونین اور اقوام ِ متحدہ کی طرف سے اس پر عائد ہونے والی پابندیوں کی وجہ سے منجمد کردی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ایران تیل اور گیس کو آزادی سے برآمد کرسکے گا۔ اس ڈیل کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اتنی بھاری رقوم ملنے کے بعد ایران اپنے پراکسی لشکروں کو بھاری وسائل فراہم کرکے دیگر ممالک کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث بنے گا۔ 
دوسری طرف ڈیل کے بارے میں پرامید سوچ رکھنے والے رجائیت پسندوں کے نزدیک ایران عالمی معاملات میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اب یہ زیادہ موثر اور فعال قوت بن کر داعش کے مقابلے میں کھڑا ہوگا۔ بہت سے مغربی مبصرین کا خیال ہے کہ جب ایک مرتبہ ایران تنہائی سے نکل کر عالمی تجارت کا حصہ بنے گا، اس کا بیرونی دنیا سے زیادہ واسطہ پڑے گا تو اس کے شدت پسند عناصر کی سوچ میں اعتدال پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔ اس میں نظریاتی شدت کی بجائے رواداری اور ہم آہنگی پر مبنی سوچ پروان چڑھے گی۔ اس کی نوجوان نسل کئی عشروں سے آیت اﷲ کا لقب رکھنے والے مذہبی رہنمائوں کی طرف سے نافذ کردہ سخت قوانین سے تنگ آچکی ہے، وہ آزاد فضا میں سانس لینا چاہیں گے۔ 
تاہم امریکی دائیں بازو کے حلقوں میںاس ڈیل کے حوالے سے سخت ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ ری پبلکن، جو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی ترجمانی کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، صدر اوباما پر ہرقسم کے الزامات عائد کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایران کو خوش کرنا اسرائیل کو ایک اور ہولوکاسٹ میں دھکیل دینے کے مترادف ہوگا۔ اس منفی تاثر کی وجہ اسرائیل مخالف بیانات ہیں جوسابق ایرانی صدر احمدی نژاد بلاوجہ دے کر ماحول کو کشیدہ کردیا کرتے تھے۔ ایک اچھی صبح بیدار ہوکر وہ دائیں بائیں دیکھتے اور اعلان کردیتے کہ اسرائیل صفحۂ ہستی سے مٹنے والا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تل ابیب اور واشنگٹن میں گھنٹیاں بج اٹھتیں۔ دراصل ایسے بے سروپا بیانات کا ایران کو ہی نقصان ہوا۔ اسرائیل امریکہ میں اپنا موقف بہتر انداز میں آگے بڑھانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح سابق ایرانی صدر نے ایک طرح سے اسرائیل کے پراپیگنڈے کو واشنگٹن میں تقویت دی۔ سابق امریکی صدر روز ویلٹ کہا کرتے تھے:''ہاتھ میں ڈنڈا ہوتو زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
اس ڈیل نے امریکی یہودیوںکو بھی تقسیم کردیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی کسی غیر ملکی معاملے نے ان کی رائے کو منقسم نہیں کیا تھا۔ یہودیوںکے بارے میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ان کی سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔ ان میں لبرل اور دقیانوسی،دونوں قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا، خاص طور پر ایشیائی افراد کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان میں تمام کے تمام اسرائیل کے حامی نہیں ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر امریکی یہودی ڈیموکریٹس ہیں اور اُنھوں نے 2008 ء اور2012ء میں صدر اوباما کو ووٹ دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتہائی طاقتور''امریکن اسرائیلی پبلک ایکشن کمیٹی‘‘(AIPAC) رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ سے کانگرس کے ارکان اور مقامی سیاست دانوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اسرائیل سے قریبی تعلق رکھتے ہوئے AIPAC مشرق ِوسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔ 
تاہم ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل میں رخنہ ڈالنے کے لیے AIPAC نے زمین آسمان ایک کردیے۔ اس نے بیس ملین ڈالر کی تشہیری مہم چلائی تاکہ کانگرس کے ارکان کو اس بل کے خلاف ووٹ دینے کے لیے قائل کیا جا سکے۔ انتہائی متاثر کن لابنگ کی گئی۔ نیتن یاھو کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ اس ڈیل کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے کوئی خفیہ چال چلیں گے۔ میرا نہیں خیال کہ اس کرہ ارض کی کوئی اور ریاست امریکی پالیسیوں میں اس طرح مداخلت کرنے کی مجاز ہے، اس کے باوجود امریکی یہودی اس ڈیل کو کامیاب ہونے سے نہ روک سکے۔ اس سے ایک احساس شدت سے جاگزیں ہوا کہ امریکی صہیونی طاقت کی بھی بہرحال کچھ حدود ہیں اور وہ اپنی ہر بات منوانے پر قادر نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ تاثر بہت جلد ختم نہیںہوجائے گا۔ بہت سے لبرل سوچ رکھنے والے امریکی یہودی یہ بات سمجھتے ہیںکہ اس ڈیل کی مخالفت کرنا ان کے وطن، امریکہ کے مفاد کے خلاف ہے کیونکہ اس کی ناکامی سے مشرق ِوسطیٰ میں ایک اور جنگ بھڑک سکتی ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے اپنی قوم کے انتہائی نظریات رکھنے والے عناصر کو جنگی جنونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کے بے بنیاد خدشات کی قربان گاہ پر امریکی مفاد کو ذبح کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ نوجوان یہودی اپنے والدین کی نسبت اسرائیل کے نہ ختم ہونے والے سکیورٹی خدشات کی زیادہ پروا نہیںکرتے۔ 
ری پبلکن حلقوں میں یہ بات کی جا رہی ہے کہ اگر ایران پر عائد پابندیاں ہٹالی گئیں تو تازہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی، لیکن اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ ویانا معاہدے سے انحراف کے متراد ف ہوگا اور پھر ایران جوہری ہتھیار بنانے کی ضرورت پہلے سے بھی شدت سے محسوس کرنے لگے گا۔ دراصل جس چیز نے تذبذب کا شکار سینیٹرز کو اوباما کی حمایت کرنے پر راغب کیا، وہ مختلف ممالک کے اُن سفارت کاروں کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ تھی جو بہت طویل عرصے سے ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک رہے تھے۔ اُنھوں نے واضح الفاظ میںکہا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو اُن کی حکومتیں اس پر پابندیاں برقرا ر رکھنے کی پالیسی کا ساتھ نہیں دیںگی۔ اقوام ِمتحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھی پابندیاں ہٹانے کے لیے ووٹ دیاتھا۔ اس لیے ایران پر یک طرفہ پابندیاں عائد کرتے ہوئے امریکہ عالمی تنہائی سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں امریکہ کی مذاکرات کرنے کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ 
اب تک یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے کاروباری افراد ایران کی طرف محو ِپرواز ہیں۔ بہت سے دوسرے اپنی نشستیں بک کرا رہے ہیں۔ ایران کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہے۔ اگرچہ اب بھی بہت سے مراحل باقی ہیں لیکن دنیا بھرکے صنعت کار ایران کی طرف کشش محسوس کررہے ہیں۔ ایران کی بدعنوان ریاستی مشینری ایک رکاوٹ ضرور ہے لیکن عالمی سرمایہ کار ہر قسم کے حالات میں کاروبار کرنے کے عادی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved