ایک دوست نے آج فون کیا کہ مبارک ہو‘ آخر آپ نے فیس بُک پر اپنا اکائونٹ کھول ہی لیا۔ اکثر دوستوں نے اسے خوش آمدید کہا ہے کہ یہ بہت اچھا ہوا‘ اب مزہ آئے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا‘ یار کچھ خدا کا خوف کرو‘ کون سا اکائونٹ اور کس کا اکائونٹ۔ میں نے کوئی اکائونٹ نہیں کھولا۔ کہنے لگے‘ ساتھ آپ کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ تصویر ضرور اصلی ہوگی لیکن اکائونٹ جعلی ہے۔ میں نے یہ کام کرنا ہوتا تو شروع سے ہی کر لیتا یعنی جب سے یہ آغاز ہوا‘ اب اس باسی کڑھی میں اُبال کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
کئی کام ایسے ہیں جو بعض دوست بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں لیکن میں شاید اپنی افتادِ طبع کے باعث ایسا نہیں کرتا۔ مثلاً میں نے ایڈیٹر کے نام خطوط کی محفل میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ میں تو ان خطوط کو پڑھتا بھی نہیں ہوں۔ باقی رہا فیس بُک والا معاملہ‘ تو جو کچھ وہاں ہوتا ہے‘ جاری رہنا چاہیے کہ اہلِ ذوق کے لیے یہ ایک ایسا فورم ہے جو پہلے دستیاب نہیں تھا۔ عام طور پر اس میں میرے ہی بخیے اُدھیڑے جاتے ہیں‘ یہ کام بھی ہوتے رہنا چاہیے اور لوگوں کو کھل کر بات کہنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ میرے لکھے ہوئے پر اعتراضات قدرتی بات ہے‘ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ مجھے مسترد بھی ہوتے رہنا چاہیے جس سے یبوست سے چھٹکارا ملے گا اور ایک تازگی کا احساس ہوگا کیونکہ ہر طرح کا نقطۂ نظر سامنے آنا چاہیے۔
اس گفتگو میں میرا شامل ہنا اس لیے غیر ضروری ہے کہ لوگ اپنی آزادانہ رائے دے سکیں اور میں اس میں سوال جواب اور تکرار کرتا اچھا بھی نہیں لگوں گا جبکہ میری اطلاع کے مطابق اس بحث میں دونوں طرح کا کام جاری رہتا ہے اور یار لوگ آپس ہی میں نمٹتے رہتے ہیں‘ بیشک کسی نتیجے پر نہ پہنچتے ہوں کیونکہ ادبی معاملات میں کوئی رائے یا فیصلہ آخری نہیں ہوتا کہ یہ کوئی سائنس کے فارمولے نہیں ہوتے۔ پھر یہ ہے کہ لوگوں کی اپنی رائے اور فیصلے بھی قدرتی طور پر بدلتے رہتے ہیں اور یہی اس ساری کارگزاری کا حسن میں ہے۔ پانی کا بہائو ویسے بھی جاری رہنا چاہیے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں تفنن کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے‘ پہلے یہ سہولت دستیاب نہیں تھی اور جو زیادہ تر ہفتہ وار ادبی اجلاس تک ہی محدود تھی۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے لوگوں‘ خصوصاً نوآموز لکھنے والوں کی تربیت بھی ہوتی ہے جس کا ہمارے ہاں اور کوئی انتظام موجود ہی نہیں ہے۔ بیشک یہ سہولت ہر کسی کو حاصل نہیں ہے لیکن جو لوگ اس میں حصہ لینے کے وسائل رکھتے ہیں‘ اُس حد تک بھی اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ تنقید کے اسرار و رموز کو سمجھانے کے لیے ہمارے ہاں ویسے بھی کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جبکہ ادب کیس اتھ ساتھ تنقید کے ساتھ بھی لوگوں کی دلچسپی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے‘ اس لحاظ سے بھی فیس بُک کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس میں شامل ہونے والوں کے بعض اوقات گروپ بھی قائم ہو جاتے ہیں اور وہ بات کرتے وقت اپنے بنے بنائے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ آپس میں ایک طرح کی پارٹی بازی اور شکررنجی بھی موجود رہتی ہے۔ اس میں بھی کوئی ہرج نہیں کیونکہ اتفاق رائے ویسے بھی ادبی معاملات میں زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے بات آگے بڑھنے کا امکان ویسے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ بعض لوگ گھر سے اپنے اپنے مؤقف کی تیاری بھی کر کے آئے ہوتے ہیں جس سے اس محفل کی سنجیدگی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ نقطۂ ہائے نظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں جو کہ تقاضائے فطرت بھی ہے کہ شعر و ادب میں کوئی بات بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی۔
شعر و ادب میں سوال اٹھانا جہاں ضروری ہے‘ وہاں بے حد مستحسن بھی ہے کیونکہ اسی سے بات آگے چلتی ہے جبکہ بعض اوقات تو سوال کی اہمیت جواب سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کی فضیلت اس لیے بھی مسلم ہے کہ ہمارے ہاں سوال اٹھانے کی روایت بھی دم توڑتی جا رہی ہے کیونکہ اب یہ پیشہ ور نقادوں کے بھی بس کی بات نہیں رہی اور ایک روشن امکان یہ بھی ہے کہ کل کلاں نئے نقاد بھی اسی ادارے سے نکلنے لگیں‘ اور نقادوں کی ایک تازہ تر کھیپ اس طور سامنے آ سکے جو بظاہر ایسا ناممکن بلکہ عجیب بھی لگ رہا ہو لیکن فیس بُک میں اہلِ ذوق کی روز افزوں دلچسپی سے کئی نئی کھڑکیاں بھی کھل سکتی ہیں اور اس اجتماع کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘ اور میں اس میں شامل نہ ہونے کے باوجود کھلے بازوئوں سے اس کا استقبال کرتا ہوں!
اور‘ اب خانہ پُری کے طور پر ایک تازہ غزل:
کون ایسے بیسُود سفر میں شامل ہو جاتا ہے
راہرووں کو جب رستا ہی منزل ہو جاتا ہے
خود سے ملنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے اکثر
کوئی تو ہے جو درمیان میں حائل ہو جاتا ہے
ہر شے کھو دیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں بچتا باقی
پھر بھی لگتا ہے ہے سارا کچھ حاصل ہو جاتا ہے
آنکھیں اور طرف کو کھینچتی ہوتی ہیں اُس لمحے
لیکن دل ایک اور ہی جانب مائل ہو جاتا ہے
لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں یہ کھیل ہے ایسا
پل میں اچھا بھلا سخی بھی شامل ہو جاتا ہے
کوئی کنارا ہے جو کبھی ڈبو دیتا ہے کشتی
ایک بھنور ہے جہاں سفینہ ساحل ہو جاتا ہے
اُسے بھی یاد نہیں آتا ہے ایک چاہنے والا
دل بھی محبت کرتے کرتے غافل ہو جاتا ہے
ایسے لگتا ہے کہ ہوا بھی روک رکھی ہو اُس نے
بیٹھے بیٹھے سانس بھی لینا مشکل ہو جاتا ہے
پیش رفت کی کوشش بھی کرتے ہیں بہت‘ ظفرؔ ہم
اور‘ اثر پہلے والا بھی زائل ہو جاتا ہے
آج کا مقطع
ظفر‘ جہاں پہ یہ اُکھڑی ہوئی دکانیں ہیں
یہیں کہیں کوئی بازار تھا بھلو چنگو