خاصی محنت کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ لگے تو دل و دماغ پر پژمردگی سی چھا جاتی ہے۔ یہ اس قدر فطری امر ہے کہ افسوس تو ہوسکتا ہے، حیرت نہیں ہوتی۔ ناکامی کا زہر پینا کسی کو بھی پسند نہیں۔ دنیا میں چند ہی لوگ ہیں جو ناکامی کو ہضم کرنے اور مزید ناکامی سے بچنے کے نئے طریقے سوچنے کا ہنر کا جانتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے انسان میں ایسی بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا چند صدیوں پہلے تک، یا شاید ابھی ایک آدھی صدی پہلے تک، تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب ان زمانوں کا تصور بھی باقی نہیں بچا جب ہر چیز اپنے اصلی رنگ میں ہوا کرتی تھی اور وہی اثرات مرتب کرتی تھی جو وہ مرتب کرسکتی تھی۔
ہر سال کراچی سے باہر مویشی منڈی لگتی ہے۔ اس منڈی میں قربانی کے جانور خاصی بلند قیمت پر بکتے ہیں اور خریدنے والے بن دام بک جاتے ہیں! مویشی منڈی میں نہ جانے کیسا جادو ہے کہ اس میں پہنچ کر بیشتر خریداروں کی مت ماری جاتی ہے اور وہ چار ٹانگوں والے جانور خریدنے کے عمل میں خود کو دو ٹانگوں والا جانور (بالخصوص گدھا) ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں! بہت سے لوگ گائے خریدتے وقت خود گائے سے دکھائی دینے لگتے ہیں، یعنی زبانِ حال سے مویشی کے تاجروں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آؤ اور ہمیں بکروں کی طرح ذبح کرلو!
جب ہر معاملے میں اکیسویں صدی کے طور طریقے جادو کی طرح سر چڑھ کر بول رہے ہیں تو پھر کراچی سے باہر سجنے والی سالانہ مویشی منڈی کیوں پیچھے رہتی؟ کسی زمانے میں ''سہیلی‘‘ کے لیے گایا ہوا اسد امانت علی مرحوم کا گیت مقبول ہوا تھا جس کا مکھڑا تھا ع
آواز ... وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز
مدہوش دل و جاں کو بناتی ہوئی آواز
اسی گیت کے ایک انترے کا آخری مصرع تھا ع
اک رنگ میں سو رنگ دکھاتی ہوئی آواز
مویشی منڈی کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ ایک رنگ میں سو رنگ جھلک رہے ہیں۔ ''ون ٹو کا فور‘‘ کے اصول کی بنیاد پر ہر معاملہ کچھ کا کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ کھلی آنکھوں کا دھوکا دیکھنا ہو تو مویشی منڈی میں آئیے۔ دیکھیے کچھ، سمجھیے کچھ اور نکلتا ہے کچھ۔ آنکھیں بہت کچھ دیکھتی ہیں۔ اور جو کچھ دیکھتی ہیں اس پر یقین نہیں آتا یا پھر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
مویشی منڈی کا نظم و نسق جن کے ہاتھ میں ہے انہوں نے ہر معاملے کو خالص کاروباری رنگ میں رنگ دیا ہے۔ ہر دھارا بالآخر مارکیٹنگ کے دریا میں گر رہا ہے۔ مگر آپ ہی سوچیے ایسا کیوں نہ ہو۔
لوگ کیا چاہتے ہیں؟
زندگی طرح طرح کی الجھنوں سے عبارت ہے۔ ایسے میں لوگ چاہتے ہیں کہ ہر معاملے کے بطن سے تفنن کا کوئی پہلو برآمد ہو۔ زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ ایسا ہے کہ آج کے انسانوں کی اکثریت کسی نہ کسی بہانے زیادہ سے زیادہ ہنسنا اور ہنسانا چاہتی ہے۔ خوشی کی محفل کا تو ذکر ہی کیا، اب لوگ تدفین کے موقع پر بھی ہنسی ضبط کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ سب کو ہنسنے کا، بلکہ کھلکھلاکر ہنسنے کا بہانہ چاہیے۔ اگر کوئی توجہ دلائے کہ تدفین کا موقع ہے تو جواب ملتا ہے زبان خواہ کچھ کہے، عمل سے یہی جواب ملتا ہے کہ کوئی جان سے گیا بھی ہے تو کیا ہوا؟ ہم تو زندہ ہیں ... ہم ہنسنا کیوں ترک کریں؟
جو لوگ ہر سال مویشی منڈی سجاتے ہیں انہوں نے یقیناً نفسیات پڑھ رکھی ہے۔ لوگوں کی نفسیات سے کھیلنا انہیں خوب آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مویشی منڈی کو اب میلے اور سرکس کا رنگ دے دیا گیا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کے نام پر ایسے ایسے تماشے دکھائی دے رہے ہیں کہ ناطقہ سر بہ گریباں ہوا جاتا ہے!
کل تک یہ ہوتا تھا کہ لوگ مویشی منڈی کا رخ کرتے تھے اور قربانی کا جانور خرید کر خوشی خوشی گھر کو چل دیتے تھے۔ اگر سودا نہ بن پاتا تو شدید مایوسی طاری ہوتی تھی۔ اب ایسا کوئی راگ نہیں۔ اب تو یہ بھی لازم نہیں کہ کوئی قربانی کا جانور خریدنے ہی کے لیے مویشی منڈی کا رخ کرے۔ وہاں اور بھی بہت کچھ ہے جو دعوتِ نظارہ و استفادہ دے رہا ہے!
بہت سے ٹی وی چینلز آج کل انعام گھر ٹائپ کے پروگرام جوش و خروش سے چلا رہے ہیں۔ ان پروگراموں میں شریک ہونے والوں میں سے ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی انعام یا آئٹم ضرور ہوتا ہے۔ مویشی منڈی بھی اب انعام گھر میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس میں بھی اتنے تماشے میسر ہیں کہ جو اس دنیا میں قدم رکھتا ہے وہ اپنی مرضی کی کوئی نہ کوئی چیز حاصل کر ہی لیتا ہے۔
جو لوگ جانور خریدنے کی غرض سے آتے ہیں وہ پوری منڈی میں گھومتے رہتے ہیں اور انہیں دیکھ کر جانور جھومتے رہتے ہیں۔ بہترین مال کی تلاش میں یہ لوگ ہر جانور کو چھان پھٹک کر اور ناپ تول کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ؎
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
دوسری طرف بیوپاری بھی خریداروں کو تول رہے ہوتے ہیں، ان کی جیب کے وزن کا اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہوا بیوپاریوں اور خریداروں کا ذکر۔ تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو منڈی سے کچھ خریدنے نہیں بلکہ اس کے تماشوں کے ہاتھوں فروخت ہونے جاتے ہیں! یہی وہ شوقین ہیں جن کے لیے اب مویشی منڈی کا میلہ سجایا جاتا ہے۔ قربانی کے جانوروں اور دیگر جانداروں کو تو بونس سمجھیے! لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ مویشی منڈی میں قدم رکھتے ہیں اور پھر ایک انوکھی کائنات ان کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ ہر ایک کے لیے اس میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ ہر شخص حسبِ آرزو محظوظ ہوتا ہے۔ فیملیز بھی آتی ہیں اور مویشیوں کا جائزہ لینے کے نام پر سیر و تفریح کرتی ہیں، کچھ کھانا پینا ہوتا ہے۔ لوگ قربانی کے جانور نہ بھی خریدیں تو قربانی کے جانور دیکھنے اور پرکھنے کو بھی مذہبی فریضہ جان کر سکون کا سانس لیتے ہیں اور ان کے ساتھ سیلیفیاں لے کر خوشی خوشی گھر کو چل دیتے ہیں۔ بقول ناصرؔ کاظمی ؎
کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتّھر ہی لے چلیں!