تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     07-09-2015

سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی

65ء کی جنگ کے دوران ایک غیر ملکی اخباری نمائندے نے اپنے اخبار کو جو مراسلہ روانہ کیا‘ اس میں وہ افواجِ پاکستان کے جذبۂ سرفروشی پر روشنی ڈالتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ ''کون ایسی قوم کو شکست دے سکتا ہے جو موت سے آنکھ مچولی کو کھیل کی طرح کھیلتی ہو؟ ہو سکتا ہے کہ میں پاکستان اور بھارت کی جنگ کو یاد رکھوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں اسے بھول جائوں لیکن میں رہنمائی کرنے والے آرمی افسر کی جوش و خروش سے لبریز اس مسکراہٹ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو مجھ سے گفتگو کے وقت اس کے چہرے پر کھیل رہی تھی۔ اس مسکراہٹ نے مجھ پر عیاں کر دیا کہ پاکستانی جوان کتنے بہادر اور جانباز ہیں۔ جو ان سے لے کر جنرل آفیسر کمانڈنگ تک کے لیے آگ سے کھیلنا بالکل ویسا ہی ہے‘ جیسا بچوں کے لیے گلیوں میں گیٹوں سے کھیلنا۔ گفتگو کے دوران میں نے جی او سی سے دریافت کیا کہ طاقت میں کم ہونے کے باوجود آپ ہندوستانیوں کو کیسے زیر کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے میرے چہرے پر نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے کہا ''اگر جرأت‘ بہادری اور حب الوطنی خریدی جانے والی چیزیں ہوتیں تو بھارت ان چیزوں کو بھی امریکی امداد کے ساتھ حاصل کر چکا ہوتا‘‘۔ 
پاک بھارت جنگ میں بھارتیوں کو جن ہزیمتوں کا منہ دیکھنا پڑا‘ ان کے لیے سب سے زیادہ روح فرسا اور ضرر رساں وہ تھی جس سے وہ چھمب سیکٹر میں دوچار ہوئے۔ میں نے گزشتہ کالم میں میجر عزیز بھٹی کی بھارتی فوج کے ساتھ دوبدو جنگ کا قصہ بیان کیا تھا‘ آج چھمب اور جوڑیاں کے معرکوں کی دلوں کو گرماتی روداد پیش خدمت ہے۔پاکستان نے درۂ حاجی پیر پر بھارت کے قبضہ کے فوراً بعد چھمب کے علاقہ پر ایک چھوٹا سا حملہ کیا۔ اس حملے
کا سب سے بڑا مقصد دشمن کے جارحانہ عزائم کو روکنا اور پاکستانی علاقہ کو مزید گولہ باری سے محفوظ رکھنا تھا۔ چھمب کی مہم سے صرف چند روز قبل ہندوستانی تو پخانہ ضلع گجرات میں اعوان شریف پر بلا سبب گولہ باری کر چکا تھا۔ پاکستان کو اپنی اس جوابی کارروائی میں فوری کامیابی ہوئی اور جس برق رفتاری سے چھمب کے علاقہ پر حملہ کیا گیا‘ اس نے ہندوستانیوں کو سراسیمہ کر دیا۔ ان کے دفاعی مورچوں میں شگاف پڑ گئے اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اپنے پیچھے کثیر تعداد میں اسلحہ اور بڑی تعداد میں گولہ بارود چھوڑ گئے۔ آزاد کشمیر کی فوجوں نے پاکستان آرمی کی مدد سے خطِ متارکۂ جنگ کو عبور کرنے کے صرف پانچ دن کے اندر مقبوضہ کشمیر کا تقریباً چار سو مربع میل علاقہ آزاد کرا لیا۔ یہ حملہ یکم ستمبر کو طلوعِ سحر کے وقت کیا گیا تھا۔ ہماری فوجوں نے چھمب‘ دیوار اور سکرانہ پر یکے بعد دیگرے قبضہ کرنے کے بعد پلّاں والا‘ کھوڑ‘ جوڑیاں روڈ پر دبائو ڈالنا اور آگے بڑھنا شروع کردیا۔ 3 ستمبر کو دن کے ایک بجے ہماری ٹینک رجمنٹ‘ پیش قدمی کرنے والی فوجوں کے ساتھ دریائے توی کو‘ جس میں درمیانہ درجے کا سیلاب آیا ہوا تھا‘ عبور کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ رجمنٹ آگے بڑھتی ہوئی شام کو تقریباً پانچ بجے جب کھوڑ پر پہنچی تو اس پر دشمن کے توپ خانہ نے شدید گولہ باری شروع کردی۔ اس جمعیت کا اولین مقصد ٹروٹی اور اس کے گردونواح پر قبضہ جمانا تھا جسے جوڑیاں کا دروازہ ہونے کی وجہ سے اس پورے علاقے میں خاصی اہمیت حاصل تھی۔ تقریباً نصف گھنٹہ کی پیشقدمی کے بعد ٹروٹی کے علاقے میں آگے بڑھنے والے دستہ اور دشمن میں مقابلہ ہوا۔ اس کے بکتر بند دستے‘ مشین گنیں اور رائفلیں حرکت میں آ گئیں اور انہوں نے آگ اگلنا شروع کردی۔ ٹروٹی میں ایمکس قسم کے ٹینکوں کی ایک بکتر بند ہندوستانی رجمنٹ اور پیدل بٹالین متعین تھی جو کثیر تعداد میں جدید رائفلوں سے مسلح تھی۔ چنانچہ ہمارے ٹینکوں کے دستے نے ٹروٹی کو گھیرے میں لے کر دشمن کے مورچے کے عقب میں پہنچنے کی کوشش کی مگر اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا کیونکہ دشمن نے خندقوں میں مضبوط مورچے قائم کر رکھے تھے۔ اس کے علاوہ ان خندقوں کو قدرتی آڑ بھی حاصل تھی جس کی بنا پر وہ نظر نہیں آتی تھیں‘ اس لیے ان تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ البتہ جنوب کی جانب دشمن کا مورچہ کسی قدر کھلا ضرور تھا مگر مورچے کے سامنے کی زمین نرم ہونے کی وجہ سے اسے قدرتی پناہ مل رہی تھی۔ اس لیے ٹینکوں کی نقل و حرکت کے لیے موزوں نہ تھی۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود پیش قدمی کرنے والے ٹینکوں کے دستہ نے سامنے کی طرف سے دبائو ڈالنا
شروع کردیا اور رجمنٹ کے باقی حصے نے شمال کی جانب کے مضبوط مورچوں کو توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر کئی گھنٹوں کی خونریز جنگ کے باوجود دشمن کو نہ اس کے مورچہ سے نکالا جا سکا نہ اس کی آگ اگلتی توپوں کو خاموش کیا جا سکا‘ اس طرح لڑائی کا کوئی قطعی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ 4 ستمبر کو پیدل اور بکتر بند فوج کا ایک مشترکہ دستہ بھگوان چک تک پہنچنے میں تو کامیاب ہو گیا مگر وہ بھی کچھ زیادہ آگے نہ بڑھ سکا‘ کیونکہ دشمن کی طاقت اندازے سے بہت زیادہ تھی۔ اس نے مضبوط دفاعی مورچے قائم کر رکھے تھے اور کنکریٹ کے بنے ہوئے دوہری تہہ کے بنکروں میں محفوظ بیٹھا ہوا تھا۔ جھٹ پٹے کے قریب پیدل فوج کی ایک بٹالین جو دریائے چناب کے شمالی ساحل پر بڑھ رہی تھی‘ مان چک پہنچ گئی‘ یہ مقام جوڑیاں سے تقریباً ڈیڑھ میل جنوب کی جانب واقع ہے۔ 5 ستمبر کو اس بٹالین نے جنوب کی جانب سے جوڑیاں پر حملہ کیا۔ اس حملے سے پہلے فوج کی ایک رجمنٹ شمال سے جوڑیاں پر دبائو ڈالنا شروع کرچکی تھی۔ یہ دوطرفہ دبائو اس وقت تک سخت ہوتا گیا جب تک دشمن پیچھے ہٹنے اور ٹروٹی کو خالی کرنے پر مجبور نہیں ہو گیا۔ اس کے بعد ہماری ان فوجوں نے جو ٹروٹی کے شمال میں سرگرم عمل تھیں‘ دلپت میں فوجوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر ہمارے ٹینکوں کے بارودی سرنگ سے ٹکرا جانے کی وجہ سے یہ پیش قدمی کچھ دیر رکی رہی۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود سہ پہر کو چار بجے جوڑیاں روڈ دشمن سے خالی کرا لی گئی۔ 6 ستمبر کی صبح کو ہمارے ٹینکوں کی ایک رجمنٹ نے جنوب کی جانب سے جوڑیاں کی طرف اور مرکزی سڑک پر چک کرپال کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ چک کرپال اور دلپت کے علاقے میں ہماری پوزیشن بالکل محفوظ تھی کیونکہ ہمارے ٹینک
دشمن کے ہر حملے کا بھرپور جواب دینے کے لیے بالکل تیار تھے۔ قصہ مختصر‘ اس طرح جوڑیاں کا معرکہ سر کیا گیا۔ دشمن اپنے پیچھے بہت بڑی مقدار میں گولہ بارود اور کثیر تعداد میں فوجی سازو سامان چھوڑ گیا۔ اس سازو سامان میں پچیس پونڈ وزنی بم پھینکنے والی بڑی توپیں اور چوبیس ٹینک بھی شامل تھے جن میں سے اٹھارہ بالکل درست حاصل میں تھے۔ مالِ غنیمت میں ہمارے ہاتھ آنے والی بڑی توپوں کی تعداد اتنی تھی جو ایک پوری رجمنٹ کی ضروریات کے لیے کافی تھی۔ اس کے علاوہ ہماری فوج نے دشمن کو شدید جانی نقصان بھی پہنچایا اور بہت بڑی تعداد میں ہندوستانی فوجیوں کو جنگی قیدی بھی بنا لیا۔ ان قیدیوں میں نوے فیصد سکھ تھے۔ کیونکہ دوسرے محاذوں کی طرح اس محاذ پر بھی سکھوں کو اگلی صف میں رکھا گیا تھا۔ 
چھمب میں ایک تعلیمی ادارہ کے پھاٹک پر جو لبِ سڑک تھا‘ نہایت ہی جلی حروف میں یہ ضرب المثل لکھی ہوئی تھی: ''حصولِ علم کے لیے اندر داخل ہو۔ خدمت کے لیے باہر نکلو‘‘۔ ہندوستانیوں نے اس علاقے میں اپنے قیام کے دوران اس ضرب المثل سے کوئی سبق حاصل کیا یا نہیں‘ اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں لیکن پاکستانی افواج نے انہیں 65ء میں جو سبق دیا تھا‘ اسے وہ آسانی سے فراموش نہیں کر سکیں گے۔ انہی بہادر جوانوں کے بارے میں اقبال ؒ نے کہا تھا:
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا 
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی 
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved