1965ء کی جنگ کو پچاس سال گزر گئے۔پچاس سال بعد بھارت کی ایک مذہبی اور عسکری انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا کارکن گودھرا گجرات میں تین ہزار کے قریب مسلمان عورتوں بچوں اور مردوں کا قاتل اور مسلمانوں سے عداوت اور پاکستان سے نفرت کا نعر ہ لگا کر بننے والا وزیراعظم قوم کو خوشخبری سناتے ہوئے اعلان کر تا ہے کہ بھارت اس سال جنگ ستمبر میں پاکستان کے خلاف اپنی (خودساختہ) فتح کی گولڈن جوبلی منائے گا۔نریندر مودی کا یہ چھچھورا اعلان ابھی فضا میں گردش کر رہا تھا کہ بھارت کے ایک ایئر مارشل بھرت کمار نے مودی کے غبارے میں سوراخ کرکے ساری ہوا نکال دی۔ ایئر مارشل بھرت کمار اپنی کتاب ''The Devils Of Himalian Eagles'' میں تسلیم کرتے ہیں کہ ستمبر1965ء کی جنگ میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا جانی نقصان بہت ہی زیا دہ تھااور جنگ کے پہلے دو دنوں(6 اور7 ستمبر) میں ہی پاکستانی ایئر فورس نے بھارت کے35 طیارے تباہ کر دیئے اور یہ سب اس کے با وجود ہوا کہ ہمارے پاس دشمن کے مقابلے میں زیا دہ بہتر اور جدیدطیارے اور ریڈار تھے۔ اس کتاب میں ایئر مارشل بھرت کمار حیران ہیں کہ مودی صاحب کن کو بیوقوف بنانے چلے ہیں۔ اگر وہ بھارت کے ایئر ہیڈ کوارٹر جا کر خود ستمبر65ء کی جنگ کا ریکارڈ ملاحظہ کرلیں تو ان کی فتح کا جشن جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔
اگر نریندر مودی کسی وقت یکم ستمبر65ء کو چھمب سیکٹر بھیجے جانے والے 6 بھارتی طیاروں میں سے چار ویمپائر طیاروں کا انجام جاننے کیلئے اپنے موجودہ ایئر چیف کو ریکارڈ سمیت بلائیں تو وہ نظریں جھکائے ہوئے
بتائے گاکہ '' جناب وزیر اعظم‘ ہمیں کمانڈر چھمب سیکٹر کی طرف سے یکم ستمبر کی سہ پہر پیغام موصول ہوا '' فوری طور پر وہسکی کی بوتل بھیجو‘‘ جس پر ہم نے کینبرا اور ویمپائر چھ طیارے چھمب سیکٹر میں پاکستان کے خلاف لڑنے والی بھارتی زمینی فوج کی مدد کیلئے بھیجے جنہوں نے دشمن کی28 میڈیم رجمنٹ کی155mm Howtizer کو تباہ کر دیا۔ پاکستان نے اس پیغام کو intercept کر لیاا ور بھارتی ایئر فورس کا مقابلہ کرنے کیلئے جنرل اختر ملک نے سرگودھا بیس سے مدد مانگی لیکن ابھی سرگودھا بیس سے وہ رابطہ میں ہی تھے کہ فضا میں ایک گرجدار آواز کے ساتھ بھارت کے ایک ویمپائر طیارے کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھا۔ جنرل اختر ملک کا کہنا تھا کہ وہ سمجھے شاید ہمارے توپخانے نے اسے نشانہ بنا لیا ہے لیکن اسی وقت پاک فوج کے جیٹ طیاروں کو فضا میں دیکھا۔ یہ پاکستان ایئر فورس کے دو ایف86 طیارے تھے جن میں سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید اور فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز بھٹی ہنگامی حالات کی وجہ سے گشتی پرواز پر تھے کہ انہیں د شمن کے چار طیارے دکھائی پڑ گئے۔ وہ ابھی ان کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ دو اور بھارتی طیارے سامنے آ گئے ‘پاک فضائیہ کے ان دو شاہینوں نے بجائے بھاگنے کے انہیں دیکھتے ہی پٹرول کی فالتو ٹینکیاں گرا دیں اور پھر چھمب جوڑیاں کی فضا سے پاکستان اور بھارت کی زمینی فوجوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ یہ منظر تو وہی بتا سکتا ہے جس نے چھمب سیکٹر میں یہ فضائی معرکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ یقیناََ وہ لوگ اسے کبھی نہیں بھول سکیں گے۔ اس معرکہ میں پاکستان کے شاہینوں سرفراز رفیقی اور امتیاز بھٹی نے جذبۂ ایمانی اور جنگی مہارت کے جو جوہر دکھائے ان پر فضائی جنگوں کی تاریخ ابھی تک دنگ ہے۔‘‘
چار نامعلوم قسم کے طیارے دشمن کے علا قے سے اوپر اٹھتے آ رہے ہیں اور ان کا رخ شمال کی طرف ہے۔ پاک فضائیہ کے چار طیارے جو قصور اور لاہور کے دوران گشتی پرواز پر تھے‘ انہیں اچانک یہ پیغام موصول ہوا تو یہ چاروں ہوا باز جن میں اظہر ملک، سید نذیر احمد جیلانی، امان اﷲ خان اور سکواڈرن لیڈر شربت علی چنگیزی شامل تھے فوراََ لاہور کے اوپر چلے گئے کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ دشمن کے جن طیاروں کی سمت شمال کی جانب ہے وہ لازمی لاہور پر حملہ آور ہوں گے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ امان اﷲ کو اپنی بلندی سے نیچے د ھبے سے دکھائی دیئے۔ اس نے وائر لیس پر آواز دی۔ دشمن کے دو طیارے سامنے ذرا بائیں پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر سے چاروں پاکستانی ہوا بازوں نے پلک جھپک میں بیک وقت تیل کی فالتو ٹینکیاں پروں سے نیچے گرا دیں۔ جلد ہی ان کے سامنے بھارت کے دو ہنٹر طیارے دیکھے جا رہے تھے۔ اسی دوران بلوچستان کے ہزارہ قبیلے کے جنگجو سکواڈرن لیڈر شربت علی چنگیزی کو بھی دو مزید ہنٹر دکھائی دے گئے۔۔۔۔اور پھر لاہور شہر پر فضائی معرکہ شروع ہو گیا۔ منظر کچھ یوں تھا کہ پاک فضائیہ کے دو طیارے بھارت کے دو طیاروں کے تعاقب میں اور بھارت کے دو طیارے پاک فضائیہ کے دو طیاروں کے پیچھے لگ گئے اور ان کے تعاقب میں پاکستان کے دو طیارے۔ گویا سب طیارے جو تعاقب کر رہے تھے ان کا تعاقب کیا جا رہا تھا۔ لاہور کی فضا ان8 طیاروں کی مشین گنوں کی ہیبت ناک آوازوں اور مسلسل دھمک سے گونج رہی تھی۔ ادھر نیچے جب لاہور کی فضا میں ہوائی حملے کے سائرن گونج رہے تھے تو لاکھوں کی تعداد میں زندہ دلان لاہور ہجوم در ہجوم چھتوں اور سڑکوں سے آسمان کی طرف منہ کئے نعرۂ تکبیراﷲ اکبر کی صدائیں بلند کررہے تھے ۔لاہور کی فضا میں زندگی اور موت کا معرکہ ایک ہیجان برپا کئے ہوئے تھا۔
پاکستان اور بھارت کے طیارے ایک دوسرے پر گرج برس رہے تھے‘ مشین گنوں کی بوچھاڑیں ایسی آوازیں پیدا کر
رہی تھیں‘ کہ جیسے بادل گرج چمک رہے ہوں۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ لڑتے اور ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے طیارے ایک دوسرے میں اس طرح گڈ مڈ ہو جاتے کہ کچھ دیر کیلئے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ دشمن کا طیارہ کون سا ہے اور پاکستان کا طیارہ کون سا ؟ اچانک ایک طیارے نے دوسرے طیارے کو اپنے نشانے میں لے لیا اور اس کی گولیوں کی بوچھاڑ اس طیارے کی باڈی میں گھس گئی۔ یہ طیارہ بھارت کا ہنٹر تھا جو شربت علی چنگیزی کا شکار ہو گیا۔ بھارتی ہنٹر فضا میں کالا سیاہ دھواں چھوڑتے ہوئے پاکستانی حدود میں جا گرا۔ ابھی یہ معرکہ جاری تھا کہ دشمن کے چار مزید نیٹ طیارے لاہور کی فضا میں آ کودے۔ اس طرح سات طیاروں کے مقابلے میں پاکستان کے چار طیارے مقابل تھے۔ یہ چاروں ہنٹر آتے ہی اظہرملک کے پیچھے لگ گئے جو چنگیزی کے ہنٹر طیارے کو ہنٹرکو کور دے دے رہا تھا۔ بھارت کے ایک نیٹ طیارے نے اظہر ملک پر فائر کیا جو اس کے طیارے کے دائیں پر لگا اور اسی دوران ملک جب ان چار ہنٹروں سے بچ رہا تھا‘ ایک ہنٹر نے اور لمبا برسٹ دے مارا جس سے اس کا وائر لیس سسٹم تباہ ہو نے کے علا وہ اس کی کاک پٹ میں دھواں بھرنے لگا۔ اب طیارے کو قابو میں رکھنا ممکن نہ تھا اور وہ کاک پٹ سے کود گیا۔
اب لاہور کی فضا میں پاکستان کے تین سیبر طیارے بھارت کے سات نیٹ اور ہنٹرطیاروں کے مقابلے میں تھے اور دیکھنے میں یہی لگ رہا تھا کہ ہمارے تین شاہین چاروں جانب سے دشمن کے سات طیاروں کے گھیرے میں ہیں لیکن فلائٹ لیفٹیننٹ جیلانی نے بھارتی ہنٹر کو چکمہ دیتے ہوئے زد میں لے کر بٹن دبا دیا اور چھ مشین گنوں کی آتشیں گولیوں نے بھارتی طیارے کو سیاہ دھوئیں میں تبدیل کردیا اور وہ اپنے پائلٹ سمیت لاہور کے قریب زمین بوس ہو گیا۔ یہ حشر دیکھ کر باقی بھارتی طیارے فرار ہوجانے میں کامیاب ہو گئے۔ بھارت کے مقابلے میںاس قدر کم ایئر فورس کے فضائی معرکوں نے عالمی ماہرین کو حیران کر دیا۔ شاہینوں کے یہ کارنامے فیضان نظر بھی تھے اور مکتب کی کرامت بھی ۔