قرآن مجید نے اہل جاہلیت کے عربوں کی طرف سے زندہ دفن کی گئی بیٹیوں کے بارے کہا تھا ، کسی نے ایلان کُردی کی تصویر پہ لکھ دیا : ''بای ذنب قتلت‘‘۔'' اور جب زندہ دبائی گئی سے پوچھا جائے گا، کس گناہ کی پاداش میں تجھے قتل کیا گیا؟‘‘ شامی بچہ اپنی توتلی زبا ن میں کہے گا کہ خطے میں عرب اور ایرانی حلیفوں کی خونخوار جنگ میں اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ترک ساحل پہ ایلان کردی کی لاش دیکھ کر میں میکائیل رشید کو چومتا رہا۔ میرے بچّو، خدا تمہیں سلامت رکھے ۔ میرے گھر میں تم کھیلتے رہو۔ کبھی تمہیں بے سروسامانی کے عالم میں کشتی پہ سوار ہوکر انجانی منزل کا قصد نہ کرنا پڑے۔
یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں، دی انڈی پینڈنٹ سمیت معتبر عالمی و شامی میڈیا کے مطابق ذہین و فطین بشارالاسد نے ایک تبدیل شدہ قرآن متعارف کرایا ہے۔ اس کے خیال میں اس سے شدّت پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اپنے تئیں عالمِ اسلام کے ٹھیکیدار ایران کی مکمل فوجی، اخلاقی اور سفارتی تائید بشارالاسد کو حاصل ہے۔ ایرانی بنیاد رکھنے والی حزب اللہ سفاک شامی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔ روس دوسرا بڑا اتحادی ہے، شامی افواج کو پال پوس کر جس نے بڑا کیا اور یوں مغرب کے خونخوار لاڈلے بچے اسرائیل کے پڑوس میں اپنی فوجی موجودگی کا دبائو برقرار رکھا ہے۔
دوسری طرف عرب اتحادی ہیں۔ امریکہ سے سخت ناراض کہ لیبیا کے معمر قذافی کی طرح ، بشارالاسد کو وہ ہلاک کیوں نہیں کر
ڈالتا۔ امریکی عسکری اور سول قیادت اس مخمصے کا شکار کہ بشارالاسد کے بعد اقتدار لامحالہ سب سے طاقتورمتحارب گروہ داعش کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اس اثنا میں چار سال سے جاری جنگ میں دونو ں اطراف سے ڈھائی لاکھ افراد قتل اور 76 لاکھ بے گھر ہو چکے۔ 40 لاکھ وہ ہیں جنہوں نے اس لہولہان سرزمین کو خیر باد کہا۔ اپنے ملک سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ترکی ، لبنان، اردن اور مصرکے سوا عرب ہمسایوں نے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں ۔ یہ وہی عرب ہمسایے تھے، جو اس خونخوار جنگ کے ایک بڑے فریق کے طور پر بروئے کار تھے۔ ایرانی سرزمین پر قفل لگے تھے، جو اس قتل و غارت کی فریق ہی نہیں، اس میں باقاعدہ طور پر ملوّث ہے۔ عرب بادشاہتوں اور ایرانی ملّائیت نے خطے کو لہو لہان کر ڈالا۔ ہزاروں بے گناہ ایلان کردی شہیدکر دیے گئے۔ دونوں اطراف کی خونخواری، ہٹ دھرمی اور درندگی میں کمی نہیں آئی۔ وہ ہنوز کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔گیہوں کے ساتھ گھن پس رہا ہے۔ معصوم ، بے گناہ بچے اور عورتیں قتل ہو رہی ہیں۔
عرب اور ایرانی حریفوں نے اس جنگ کے لیے پرائی سرزمینوں کا انتخاب کیا، انہیں اجاڑ ڈالا۔ ان ریاستوں کا امن برباد، معیشت تباہ کر ڈالی۔ پاکستان میں انہوں نے ایک طویل پراکسی وار لڑی۔ شیعہ سنی تصادم اپنی انتہا کو پہنچا۔ عشروں پاکستان اس کی قیمت چکاتا، لاشیں اٹھاتا رہا۔ عرب و ایران شاد رہے۔ اس کھیل سے حظ اٹھاتے رہے۔ وہ یمن میں برسرِ پیکار ہوئے۔ عربوں کی بمباری میں بے گناہ افراد کے قتل کی شرح قریب پچاس فیصد ہے۔ جنگ لڑنے، ہدف تاکنے کا تجربہ نہیں۔ امریکہ و یورپ سے خریدا ہوا بارود پھونک ڈالنے کی جلدی ہے۔ ایک اعلیٰ عسکری شخصیت سے ملاقات ہوئی تو یمن جنگ کے بارے میں پوچھا۔ کہا، گولہ بارود ختم ہو جائے گا، پھر وہ دوبارہ ڈالروں کے تھیلے لیے امریکہ و یورپ جائیں گے۔ جہاں تک جنگ جیتنے کا تعلق ہے،اس کے لیے زمین پر اترنا ہوتاہے۔ زمین پر پاکستانی فوج اترتی ہے۔ وہ سوات سے لے کر جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اتری۔ 300 شہادتوں کے عوض 3500 درندوں کو قتل کیا۔ یوں لڑی جاتی ہے جنگ۔ ایک مقدس فرض کی تکمیل کے لیے، شہادت کا جذبہ لیے ہوئے۔
اپنے اپنے تئیں عرب و ایران خطے پر اثر و رسوخ ، اپنی اتحادی حکومتوں کے قیام کی جنگ بڑی دانشمندی سے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے لیبیا میں لہو بہایا اور مصر میں۔ بہت سی عرب ریاستوں کی آنکھوں میں کھٹکنے والا نیم پاگل معمر قذافی بہرحال ایک مضبوط مرکزی حکومت کا مالک تھا۔ مرکزیت ختم ہوئی۔ امریکہ و مغرب اپنا کام کر کے چلتے بنے، سالہا سال سے لیبیا خانہ جنگی کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے۔ یمن کی جنگ میں عرب اور ایرانی جنرل میدان میں ہیں۔ ابھی دو دن قبل ہی متحدہ عرب امارات کے 45 اور بحرین کے پانچ فوجی باغیوں کے حملے میں مارے گئے ہیں۔
مصر میں کیا ہوا؟ عوامی تائید سے نصف صدی سے قائم آمریت کا خاتمہ ہوا۔ اخوان المسلمون کی آئینی حکومت قائم ہوئی۔ وہ عرب بادشاہتوں کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ خطے کی پرانی بادشاہتیں اور آمریتیں یوں ڈھیر ہونے لگیں تو ہمارا کیا ہوگا؟ ایک دن یہاں بھی عوامی شعور بروئے کار آئے گا۔ اخوان المسلمون کو کام ہی نہ کردے دیا گیا۔ بدلے ہوئے حالات میں وہ بھی نئی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے ساکت کھڑی اپنی تقدیر کا انتظار کر تی رہی۔ بالآخرعشروں تک حکومت کرنے والی فوجی سپاہ نے اسے برطرف کر ڈالا۔ پر امن احتجاج کرنے والوں پر قتل و غارت اور قید و بند کا بازار گرم کر دیا گیا۔ عرب بادشاہتیں خوشی کے شادیانے بجاتی پہنچیں۔ ظالم مصری فوج کو تھپکی دی۔ پاکستان کو ایک ارب ڈالر دے کر احسان چڑھانے والوں نے مصری فوج کو آٹھ ارب ڈالر دیے۔ عوام کو کچل ڈالنے میں اپنی حمایت و تائید کا یقین دلایا۔
ترکی نے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ 21 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دی۔ لبنان بروئے کار آیا۔ 12 لاکھ وہاں جا بیٹھے اور 14 لاکھ اردن میں۔ ایران اورعرب قائدین کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ بے حسی، سفاکیت، بے شرمی، یہ تمام الفاظ ان کی ذہنی کیفیت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک نے مدد کا ہاتھ بڑھایا۔کئیوں نے بے رخی اور سنگ دلی سے انہیں چلے جانے کا حکم دیا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے یورپی یونین کے سخت قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے اس قدر دردمندی کامظاہرہ کیا کہ گارڈین نے انہیں ''ماما مرکل‘‘ کا نام دیا۔ افریقی ریاستوں اور شام کے مہاجرین اپنی اولادوں کے نام ان کے نام پہ رکھنے لگے۔ قتل و غارت میں مصروف عرب و ایران کو شرم نہ آئی ۔ آئے گی بھی نہیں ۔ یہ وہی ہیں ، فرشتوں نے بارِ الٰہی سے جن کے بارے میں پوچھا تھا: یا رب تو انہیں زمین میں اپنا نائب بنائے گا، یہ جو خون بہانے والے ہیں؟ یہ درندے؟ انہیں معلوم نہ تھا، خدا کو صرف ایک بندہ چاہئے۔ صرف ایک جو اس پہ ایمان رکھتا ہو، اس کی رضا پہ راضی ہو۔ ایک طیب اردوان کافی ہے۔ اسے اکثریت سے کیا لینا۔ پاکستانی فوج مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک بری طرح برسرِ پیکار ہے۔ وہ بھارتی اور افغان سرحدوں کا دفاع کر رہی ہے۔ بہرحال پاکستانی بحریہ کو شامیوں کی مدد کے لیے پہنچنا چاہئے۔