تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-09-2015

زندگی ہی موت پر حاوی رہتی ہے

کیا ایٹمی اسلحہ پاکستان اور بھارت کو خدانخواستہ دو طرفہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے یا دیتانت کی؟ مغرب میں جب ایٹمی اسلحے کی دوڑ اندھادھند چل رہی تھی‘ خصوصاً سوویت یونین اور امریکہ تباہ کاری کا ایک سے ایک خطرناک ہتھیار تیار کر رہے تھے‘ تو ایک وقت آیا ‘ جب امریکہ اور سوویت یونین دونوں اس مقام پر جا پہنچے کہ فتح اور شکست بے معنی ہو کر رہ گئی۔ دونوں نے ایٹمی تباہ کاری کی اتنی اہلیت حاصل کر لی کہ وہ درجنوں مرتبہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے‘ جب دوطرفہ تباہی یقینی ہو جائے اور وہ بھی ایک نہیں کئی کئی مرتبہ‘ تو پھر یہ سوچنا لازم ہو جاتا ہے کہ باہمی اور یقینی تباہی کی اس طاقت کاانجام آخر کیا ہو گا؟ مکمل تباہی کی پوری طاقت کا یکلخت استعمال کسی ایک کے اختیار میں نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی طاقت سارا تباہ کن ایٹمی اسلحہ پہلے ہی مرحلے پر استعمال کر کے‘ دوسرے فریق کو پوری طرح تباہ کر سکتی ہے۔ جوابی کارروائی کا امکان بہرحال رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پہل کرنے والا ‘حریف کو فوراً ہی تباہ کر دے۔ جیسے ہی حملہ کرنے والا فریق ‘ دوسرے کو بڑا نقصان پہنچائے گا‘ خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘ اس کا مکمل خاتمہ نہیں کر پائے گا اور یہی وہ مرحلہ ہو گا‘ جہاں دوسرا فریق جوابی تباہ کاری کرے گا اور انجام کار دونوں ہی ایک دوسرے کو نیست و نابود کر دیں گے۔ جب ان خطوط پر سوچا گیا‘ تو دونوں فریق اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک دوسرے کو پوری طرح سے تباہ کرنا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں تباہی کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا اور نہ ہی کوئی فریق دوسرے کو تباہ کرنے کے بعد خود محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ تھا‘ جب دونوں طاقتوں نے غوروفکر کے بعد یہ سوچا کہ اگر ہم ایک دوسرے کو پوری طرح تباہ کر سکتے ہیں‘ تو پوری طرح محفوظ رہنے کا انتظام کیوں نہیں کر سکتے؟ 
پاکستان اور بھارت نے اندھا دھند ایٹمی اسلحہ بنانے کی جو دوڑ شروع کر رکھی ہے‘ ایک مرحلے پر اس کا انجام دوطرفہ مکمل تباہی ہے۔ میرا خیال ہے‘ اب دونوں نے ایک دوسرے کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے یا کرنے والے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو پوری طرح تباہ کر کے حاصل کیا کریں گے؟ یہ سوال اب دونوں ملکوں میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ابھی دیتانت کا خیال اصل اقدامات کے قریب نہیں پہنچا مگر سوچ بچار کی ابتدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت میںاپنے اپنے طور پر دو طرفہ تباہی کے نتائج پرسوچ بچار شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان ابھی سرپٹ دوڑ رہا ہے جبکہ باقی دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی‘ ایک دوسرے کی مکمل تباہی کی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پاکستان زیادہ تباہ کن اور زیادہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس میں مزید اضافہ محض اس تباہی کو مزید یقینی بنانے کے مترادف ہو گا۔ یہی صورتحال بھارت میں ہے۔ ان دونوں میں دشمنی کے جذبات اتنے شدید ہیں کہ فی الحال پرامن بقائے باہمی کی طرف پیش قدمی کی سوچ واضح نہیں ہو رہی۔ اس کے برعکس کشمیر کا تنازع حل کرنے کی طرف کسی کا ذہن نہیں جا رہا۔ مگر جب اس کا متبادل مکمل ایٹمی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے‘ تو وہاں پہنچ کر ایک ہی سوال دونوں طرف پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر پر قبضہ کرنے کا مفہوم ہی کیا رہ جائے گا؟ جب دونوں ملک اپنی آبادی اور تعمیرات سمیت ہر چیز سے خدانخواستہ محروم ہو جائیں گے۔ پاکستان ابھی اس سوچ کی طرف مائل ہوتا نظر نہیں آ رہا‘ لیکن بھارت میں اس کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہندوئوں میں نفرت کی آگ بھڑکانے میں راشٹریہ سیوک سنگھ کا کردار بنیادی ہے۔یہ انتہائی متعصب ہندوئوں کی حددرجہ تنگ نظر تنظیم ہے‘ جو مسلمانوں ہی نہیں عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے شدید نفرت کرتی ہے اور انہیں نیست و نابود کر دینے کے عزائم رکھتی ہے۔ مگر اسی انتہا کے اندر سے‘ دوسری انتہا پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔آر ایس ایس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بھائی پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے۔ اس تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بہت بڑے اجتماع میں اپنے اس خیال کی وکالت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ''ہم کوئی انوکھی بات نہیں کر رہے‘ اپنا چوری کا مال واپس لینا
چاہتے ہیں اور اس میں شرم کیسی؟‘‘ ایک متعصب اور تنگ نظر ذہن‘ جب حقائق کو قبول کرنے پر آمادہ ہونے لگتا ہے‘ تو ابتدا میں اس کی منطق اسی نوعیت کی ہوتی ہے۔ آر ایس ایس نے بی جے پی کی حکومت سے تین روز صلاح مشورہ کرنے کے بعد‘ ایک پریس کانفرنس میں یہ باضابطہ اعلان کیا ہے کہ حکومت کو ‘ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ آر ایس ایس کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اس کے لیڈر‘ جوش میں آ کر جذباتی باتیں نہیں کرتے۔ وہ جذباتی بھی خوب سوچنے سمجھنے کے بعد ہوتے ہیں۔ اس سوال پر ان کے اعلیٰ حلقوں میں طویل سوچ بچار کیا گیا ہو گا اور اس کے بعد ہی انہوں نے یہ پوزیشن لی ہے۔ آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت نے تین روز صلاح مشورے کے بعد یہ پوزیشن اختیار کی۔ اس پر بھارت میں بہت سے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا اور اس سوال پر وہاں کے اہل فکر سوچ رہے ہیں کہ آر ایس ایس نے کہیںاکھنڈ بھارت کا خواب ترک تو نہیں کر دیا؟ آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور باقی ہمسایہ ممالک کبھی ایک ہی جسم کا حصہ ہوا کرتے تھے اور ایک ہی کنبے سے تعلق رکھتے ہیں اور بھائیوں میں اختلافات ہو ہی جاتے ہیں اور پھر قوموں کے درمیان تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے رشتے ہوں‘ تو انہیں آپس کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ بھارت کے حالات میں ایک غیر معمولی مشورہ ہے‘ جس کے نتائج بھی غیر معمولی برآمد ہوں گے۔ راج ناتھ سنگھ نے واضح کیا ہے کہ وہ بھی آر ایس ایس کے رکن ہیں اور نریندر مودی بھی۔ یہ مشورہ ملنے کے بعد‘ یقینا یہ دونوں سر جوڑ کر بیٹھے ہوں گے اور مل کر سوچا ہو گا کہ اس سوال پر غور و فکر کے بعد بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لئے کیا بہانہ اختیار کیا جائے؟ اور شاید یہ سوال بھی زیرغور آیا ہو کہ اگر بات چیت کا راستہ کھولنا ہی تھا‘ تو 15دن پہلے کیوں نہیں سوچ لیا؟ آر ایس ایس بہت ڈسپلنڈ تنظیم ہے۔ اس کے رکن کبھی عوامی پلیٹ فارم سے ایسا کوئی بیان نہیں دیتے‘ جو ان کے نظریات سے ہم آہنگ نہ ہو۔ کیا وہ وقت قریب آ رہا ہے‘ جب پاکستان اور خطے کے باقی سارے ممالک بھائی چارے کی زندگی گزار سکیں گے؟ لیکن مسائل بہت باقی ہیں۔ مثلاً حال ہی میں حکومت نے مذہب کی بنیاد پر آبادی کے اعداد و شمار جاری کئے تھے‘ جن سے الگ الگ نتائج اخذ کئے گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ
10برسوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ جبکہ ہندو تنظیموں نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ ہندوئوں کی آبادی کا تناسب 80 فیصد سے کم ہوا ہے اور اب آر ایس ایس نے اس پس منظر میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ایک ہندو مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں آبادی کا اضافہ روکنے کے لئے اگر وہ 2 سے زیادہ بچے پیدا کریں‘ تو انہیں سزا دینی چاہیے اور تعلیمی اداروں‘ نوکریوں اور راشن کارڈز تک ان کی رسائی روک دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ آر ایس ایس کی کمیٹی یہ سفارش کرے کہ جیسے بھارت اور پاکستان بھائی بھائی ہیں‘ ویسے ہی ہندو اور مسلمان ‘دونوں کے ہاں بھتیجے اور بھتیجیوں کی پیدائش پر خوشیاں منائی جائیں۔اس کے ساتھ ہندوئوں کی یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ کنبہ چھوٹا ہو گا‘ تو بچوں کی بہتر پرورش کی جا سکتی ہے۔ ایک تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ آج تو اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر ‘ ڈاکٹر عبدالکلام کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ لیکن راتوں رات اس نام کو دوبارہ تبدیل کر دیا گیا‘ تو یہ حیرت کی بات نہیں ہو گی۔ اورنگ زیب نے 3سو سال پہلے اکھنڈ بھارت کا خواب سچ کر کے دکھایا تھا۔ اس کے دور میں مغلیہ سلطنت کی سرحدیں‘ اکھنڈ بھارت کے اس تصور کے قریب قریب تھیں‘ جو آر ایس ایس کے رہنمائوں نے 1960 ء کے عشرے میں پیش کیا تھا۔ اب اورنگ زیب روڈ کو اس کا نام واپس ملتا ہے یا نہیں؟ اس بات کا دارومدار آر ایس ایس کے اس تصور پر ہو گا کہ وہ اورنگ زیب کو اصل اکھنڈ بھارت کا معمار تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ جب ایک انتہا پروان چڑھتی ہے‘ تو اس کے ساتھ ہی دوسری انتہا بھی سر اٹھانے لگتی ہے۔ بھارت میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے اور پاکستان کے بے شمار اہل فکر میں بھی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا خیال پیدا ہو رہا ہے۔جب کوئی سوچ جنم لے کر اپنی پختگی کی طرف آتی ہے‘ تو حقائق حیرت انگیز طور سے بدلنے لگتے ہیں۔ اتنی بڑی تبدیلی اچانک نہیں آیا کرتی۔ لیکن اسے ہم نہیں‘ تو ہماری آئندہ نسلیں ضرور دیکھیں گی‘ کیونکہ دوسری انتہا کی طرف دونوں ملکوں کی مکمل تباہی ہے اور انسان‘ موت پر زندگی کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ایٹمی ملک اسی نتیجے پر پہنچ کر ‘ امن کو مستحکم کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی کبھی نہ کبھی اسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔ جب اتنی بڑی تبدیلی معرض وجود میں آ رہی ہو‘ توچھوٹے چھوٹے مسائل اس کے پیروں کی گرد کی طرح اڑ جاتے ہیں۔
----------------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved