تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-09-2015

سرخیاں‘ متن اور اقتدار جاوید کی نظم

ن لیگ نے ایٹمی دھماکہ کر کے دفاع
کو ناقابلِ تسخیر بنایا... شہباز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ن لیگ نے ایٹمی دھماکہ کر کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا‘‘ جبکہ بھائی جان کی تو اس وقت ٹانگیں کانپ رہی تھیں‘ لیکن فوج نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور دھماکہ کر دیا‘ جسے بھائی جان کو بھی طوعاً و کرہاً قبول کرنا پڑا حالانکہ امریکہ سے فون پر فون آ رہے تھے لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اب انہی حضرات نے ضربِ عضب شروع کر کے ہماری نیندیں حرام کردیں اور ہمارے تعلقات کو بھی پیش نظر نہ رکھا جس پر ہم اپنے محسنوں سے معذرتیں ہی کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب ان کی حمایت سے محرومی کے بعد صاف نظر آ رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ہمارا کیا حشر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاک فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑدی‘‘ حالانکہ ٹانگ وغیرہ توڑنا ہی کافی تھا‘ اتنی سختی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم کی قیادت میں ملکی معیشت کو مضبوط بنائیں گے‘‘ کیونکہ وہ اپنی معیشت کو ماشاء اللہ کافی مضبوط بنا چکے جو اب بھی اپنے آپ ہی مضبوط تر ہوتی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
بلدیاتی انتخابات میں (ن) لیگ کی اینٹ 
سے اینٹ بجا دیں گے... بلاول بھٹو زرداری 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ کیونکہ وہ اینٹ سنبھال کر رکھی ہوئی ہے جو والد صاحب نے جرنیلوں کی اینٹ سے بجانی تھی لیکن ضعف دماغ کی وجہ سے بھول گئے‘ حتیٰ کہ انہیں وہ سارے کارنامے بھی فراموش ہو چکے ہیں جو پارٹی نے اپنے عہدِ اقتدار میں سرانجام دیئے تھے کہ عمر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم مفاہمت پر نہیں بلکہ مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ اور یہ یقین تو پہلے بھی تھا لیکن آٹھ دس سال تک محض منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے مفاہمت اختیار کرنا پڑی تھی اور اب جبکہ منہ کا ذائقہ کافی خراب ہو چکا ہے تو کچھ عرصے کے لیے مزاحمت اختیار کر رہے ہیں کیونکہ مفاہمت کے بغیر نہ ہمارا گزارا ہوتا ہے نہ ن لیگ والوں کا جبکہ اب تو سیاست میں گزارا ہی کرنے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی عہدیداروں سے خطاب کر رہے تھے۔ 
سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت
کو یقینی بنایا جائے... زرداری 
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے‘‘ جس طرح ہماری وفاقی حکومت میں ہر طرف شفافیت ہی شفافیت تھی اور اندھوں کو بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ ماشاء اللہ کون کیا کر رہا ہے اور یہ بھی کہ کس حد تک کر رہا ہے بلکہ حدیں تو ساری ہی پار کر دی گئی تھیں کیونکہ دن رات خدمت کرنے سے کوئی حد باقی رہ بھی نہیں جاتی؛ اگرچہ اس لحاظ سے سندھ بھی کافی شفاف چلا آ رہا ہے جہاں ایک ایک وزیر کے گھر سے دو دو ارب روپے برآمد ہو رہے ہیں اور روپوں سے بھری لانچیں پکڑی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نااہل وزیروں کی کابینہ میں جگہ نہیں‘‘ جن کا ہر روز کوئی نہ کوئی سکینڈل پکڑا جاتا ہے اور ان کے اپنے آدمی ان کے خلاف بیان بھی دیتے پائے جاتے ہیں‘ کم از کم ہمارے وقت میں ایسا نہیں ہوتا تھا‘ بلکہ پوری ٹیم میں ایک مثالی ہم آہنگی اور تعاون سے کام لیا جاتا تھا۔ آپ اگلے روز دبئی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ 
پیپلز پارٹی پر دہشت گردی اور کرپشن کے 
الزامات جھوٹے ہیں... اعتزاز احسن 
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی پر دہشت گردی اور کرپشن کے الزامات جھوٹے ہیں‘‘ اور کرپشن کے الزامات تو سراسر ہی جھوٹے ہیں جبکہ ہر دو وزرائے اعظم کرپشن کا قلع قمع کرنے والوں کے سرخیل تھے اور کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ کرپشن کسے کہتے ہیں کیونکہ کرپشن کو اس زمانے میں کرپشن کی بجائے شیرِ مادر اور حق الخدمت ہی سمجھا جاتا تھا اور یہ بدعت تو رینجرز وغیرہ کی ہی پھیلائی ہوئی ہے جبکہ سب سے زیادہ خدمات کا سہرا بجا طور پر ہمارے قائد آصف علی زرداری کے سر بندھتا ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق عزیزی بلاول رہی سہی خدمات سرانجام دینے کے لیے میدان میں اُتر آئے ہیں۔ پنجابی محاورے 'گھوڑی چلے پانچ کوس اور بچھیری چلے دس کوس‘ کے مطابق پارٹی کو مایوس نہیں کریں گے کیونکہ ان کی تربیت ہی ایسے پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے جس میں زرداری صاحب کو روشنی کے مینار کی حیثیت حاصل ہے اور عزیزی اسی روشنی میں اپنے کمالات دکھائیں گے‘ آپ دیکھیں تو سہی۔ آپ اگلے روز لاہور میں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
اور اب اقتدا ر جاوید کی ایک نظم:
زنبور 
زنبور... زنبور خانے سے باہر نہ آنا!... زمانہ تو پھولوں سے... اور شہد سے میٹھے لوگوں سے لبریز ہے... اونچے پیڑوں کی... پھلدار شاخیں جھکی ہیں... فضا میں بہت دور... تم سے بہت دور... بادل کے ٹکڑے رُکے ہیں... وہ ٹکڑے نئی نعمتوں سے لبالب بھرے ہیں... کہیں دور‘ تم سے کہیں دور... چشموں پہ رنگیں پرندے اُترتے ہیں... منقاریں بھرتے ہیں... اُڑتے ہیں‘ مُڑتے ہیں... تتلی پروں کو ہلاتی ہے... صدرنگ منظر بناتی ہے... تتلی کے کومل پروں پر... کئی تل ہیں... تل جیسے خواہش بھرے دل ہیں... زنبور... زنبور خانے سے باہر نہ آنا... نہ تکنا... بھلا کس طرح پیڑ پھلتا ہے... پتھر پگھلتا ہے... اندر سے جلتا ہے... باہر سے پھلتا ہے... پھل والا آتا ہے... سیڑھی لگاتا ہے‘ پھل لے کے جاتا ہے... زنبور زنبور خانے سے باہر نکلتے ہو... خورشید کی طرح... اپنی ہی آتش میں جلتے ہو... ایسے دہکتے ہو... تنور جیسے دہکتا ہے... گھروالی کہتی ہے... ریشم کے لچھے ہو... پھولوں سے کومل ہو‘ پھولوں سے اچھے ہو... ذی روح کے جسم میں نیش بوتے ہو... نایاب ہو‘ زہر آمیز ہو... زہر سے کتنے لبریز ہو! 
آج کا مقطع 
ٹھہر ٹھہر کے نہ رئوڑا‘ ظفرؔ خوشی کی خبر 
سبھی ہیں گوش بر آواز‘ ایک دم رئوڑا 
(رئوڑا‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ''لا‘‘ یا ''لے آ‘‘)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved