تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-09-2015

محوِ حیرت

تحریکِ انصاف نے اپنی قدرتی حلیف جماعتِ اسلامی کے علاوہ اپنے پانچ سالہ دور میں آٹھ ہزار ارب روپے کا قرض ڈکار جانے والی پیپلز پارٹی ، طاہر القادری ، مجلس وحدت المسلمین ، جمعیت علمائِ پاکستان اور سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میںسات رکنی اتحاد تشکیل دیا ہے ۔ سپاہِ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی ٹھکرائے جانے اور اپنی بے توقیری پریقینا آزردہ ہوں گی۔جہاں تک جمعیت علمائِ پاکستان ، عوامی تحریکِ، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ آئیے تین تین بار سورۃ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ کر بھان متی کے اس کنبے کے لیے دعا کریں ۔ 
تحریکِ انصاف میں دم خم تھا اور ہے کہ نون لیگ کو وہ تنہا شکستِ فاش سے دوچار کر سکے۔ 30اکتوبر 2011ء کے جلسے کے بعد ملک بھر سے نیک نام اور قابل امیدوار اور پارٹی عہدیدار منتخب کیے جا سکتے تھے ۔ 2013ء کے الیکشن میں تمام تر غلط فیصلوں کے بعد بھی اس نے 80لاکھ ووٹ حاصل کیے ۔ تحقیقات ہوئیں اور طے پایا کہ 2012ء کے پارٹی الیکشن چوری ہوئے۔پارٹی الیکشن ٹربیونل نے فیصلہ دیا کہ فلاں فلاں عہدیدار ملوّث تھے ‘ انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے ۔ اس پر عمران خاں نے کہا : جسٹس صاحب ، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کے بغیر پارٹی چل نہیں سکتی ۔ وہ دن رات بلا معاوضہ کام کرتے ہیں ۔ حیرت اور صدمے سے جسٹس وجیہہ الدین احمد نے پوچھا کہ 80لاکھ لوگوں میں سے ایک بھی پارٹی کا سیکرٹری جنرل اور پختون خوا کا وزیرِ اعلیٰ بننے کے لائق نہیں ؟ خان صاحب یہ تسلیم کرتے تھے کہ پارٹی الیکشن سرے سے ہی اغوا کر لیے گئے اور وہ جانتے ہیں کہ کون لوگ اس میں ملوّث ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ''ناگزیر‘‘لوگوں کے بغیر پارٹی چل نہیں سکتی۔دو ہفتے قبل ''ناگزیر ترین‘‘ ہی کے جہاز میں وہ اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوئے تھے۔ 80لاکھ ووٹر جنہوں نے 2013ء کے الیکشن میں تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا تھا او رکم و بیش بیس پچیس لاکھ ، جو بد انتظامی کی وجہ سے ووٹ نہ ڈال سکے ۔یہ ایک کروڑ لوگ اگر چندہ کریں تو کپتان کے لیے ایک ذاتی جہاز خریدا جا سکتا ہے ، جس کے بعد وہ ناگزیریت کی اس کیفیت سے باہر نکل کر میرٹ پر فیصلے کر سکیں ۔ 
پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد؟ پانچ سال میں 8ہزار ارب روپے کا قرض ۔ ملک دیوالیہ ہوگیا۔ کرپشن ایک سائنس بن گئی ۔ خاکروب سے لے کر اعلیٰ ترین آئینی عہدوں پر تقرریوں کے ریٹ مقرر کیے گئے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابل پیپلز پارٹی نے اپنا عسکری ونگ بنایا، اے این پی نے بھی ۔ پانچ ہزار افراد قتل ہوئے ۔ دو وزرائِ اعلیٰ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی اپنے اپنے اہلِ خانہ اور رشتے داروں کے ہمراہ نیب اور ایف آئی اے کے چکر لگا رہے ہیں ۔ مخدوم امین فہیم بھی ۔ حاجیوں کی جیب کاٹی گئی ۔ ایفی ڈرین کی سمگلنگ ہوئی ۔ فی کمپنی 500کلو کوٹہ مقرر ہوتاہے ، بغیر جانچ پڑتال دو کمپنیوں کو دس ہزار کلو کے قریب کوٹہ تھما دیا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں ایک کلو کی قیمت سوا لاکھ ڈالر۔ قومی خزانہ خالی۔ ڈیم نہیں بنائے جا سکے ۔ گیس درآمد نہ ہوئی۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھتی گئی ۔ توانائی بحران سے بے روزگاروں کی ایک عظیم الشان فوج تیار کی گئی ۔ملک کا خزانہ خالی کر کے اسے دیوالیہ کر دیا جائے ، اس سے بڑی غدّاری اور کیا ہو سکتی ہے ۔ مشکوک غیر ملکیوں کو تھوک کے حساب سے ویزے جاری ہوئے ۔ ان میں سے ایک کانام ریمنڈ ڈیوس تھا۔ سوات اور جنوبی وزیرستان کے کامیاب ترین آپریشنوں کے باوجود دہشت گردی کی وبا تھم نہ سکی ۔ اس لیے کہ خود وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے الفاظ میںحکومت اوراس وقت کی وزارتِ داخلہ کو ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیاں کرنا تھیں ، جن میں دہشت گردوں کے سیلپنگ سیل چلانے والے پکڑے جاتے ۔ یہ کام رحمن ملک کے بس کا نہ تھا۔ ان کے فرائض منصبی روٹھی ہوئی ایم کیو ایم کو واپس منا لانے تک محدود تھے ۔ 
خان صاحب، پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد ؟ اس کے ساتھ ،جسے آپ کہتے تھے کہ نون لیگ کے ساتھ اس نے مک مکا کر رکھا ہے؟ علّامہ طاہر القادر ی کے ساتھ ، ہر دو سال بعد کینیڈا سے جو پاکستان تشریف لاتے اور اس کا سیاسی استحکام برباد کر کے لوٹ جاتے ہیں ؟ مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل ؟یہ ہے تبدیلی؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتاہے نہیں 
''محوِ حیرت ہوں کہ پارٹی کیا سے کیا ہو جائے گی ‘‘
لاہور میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی پانچ تحاریکِ انصاف پائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے ایک کے سربراہ کو ایاز صادق کے مقابل میدان میں اترنا ہے ۔ خدا کرے کہ پی ٹی آئی جیت جائے کہ جیت کے نشے میں نون لیگ کی گردن کا سریا فولاد بن جاتاہے لیکن زندگی خواہشات نہیں ، ٹھوس حقائق پر بسر کی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی الیکشن ٹربیونل کا کہنا تو یہ تھا کہ علیم خان ان لوگوں میں شامل ہیں ، جو کنٹونمنٹ الیکشن میں لاہور سے پارٹی کی بدترین شکست کے ذمہ دار تھے ۔ عبد العلیم خان کو اگر جیتنے کا گر آتا اور لاہور میں پارٹی معاملات اگر درستگی سے چل رہے ہوتے تو ملک بھر میں کنٹونمنٹ کی چالیس نشستیں جیتنے والی پی ٹی آئی کیا لاہور میں بد ترین ہزیمت کا سامنا کرتی ؟ جسٹس صاحب کا کہنا تو یہ تھا کہ لاہور سے کنٹونمنٹ کے امیدواروں کو ٹکٹیں فروخت کی گئیں ۔ کپتان نے وجیہہ الدین احمد کو ہی نکال باہر کیا۔ نہ ہوگا بانس ، نہ بجے گی بانسری۔
2012ء میںپارٹی کے سیکرٹری جنرل سمیت، دیگر عہدوں کے لیے انتخاب جاری تھا۔ تحریکِ انصاف کی ایک معتبر لیڈر سے صورتِ حال دریافت کی۔ ٹھنڈی آہ بھر کے انہوں نے بتایا : اسلام آ باد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں نوٹوں کے تھیلے کھلے ہیں ۔ ووٹوں کی خرید و فروخت جاری ہے ۔ یہی پرویز خٹک تھے، وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ واپس لینے کے لیے کپتان کو ان کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلانا پڑی ۔ 
گزشتہ سال وہ وقت تھا، جب ملک بھر میں پی ٹی آئی کی اندرونی دھڑے بندیوں کا خاتمہ کیا جاتا۔ پارٹی کو بدنام کرنے والوں ، گزشتہ الیکشن خریدنے والوں کو نکال باہر کیا جاتا۔ ایسے نیک نام اور تجربہ کار لوگوں کے تحت، جو کسی پارٹی عہدے کے امیدوار نہ ہوتے ،مناسب انتظامات کے بعد صاف شفاف انتخابات منعقد کیے جاتے ۔ اس کے بعد پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی ناک رگڑ دی جاتی ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جو کپتان میانوالی سے اپنی جیتی ہوئی نشست ایک خاندان کے نام پر ہار گیااور پشاور کی بھی، کیا وہ پنجاب کا بلدیاتی انتخاب جیتے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved