تیس پینتیس سال پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ عمانویل لوتھر کا اندیشہ حقیقت کے طور پر اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنے گا۔
عمانویل لوتھر لاہور کی صحافتی زندگی کا دلچسپ کردار تھا۔ خوش خوراک‘ خوش لباس اور خوش گفتار۔ کھانے پینے میں جتنی صفائی‘ ستھرائی کا لحاظ عمانویل لوتھر رکھتا تھا‘ کوئی اور شاید و باید۔ محدود مالی وسائل میں بھی وہ چائے‘ صاف ستھرے اور پانی میں اُبلے برتنوں میں پیتا اور کھانے کے انتخاب میں چٹخارے کے بجائے حفظان صحت کے اصولوں کو برقرار رکھتا۔ اطہر مسعود کبھی کبھی ہنس کر کہتے: ''لوتھر تجھے تو کسی انگریز کے گھر میں پیدا ہونا چاہیے تھا‘‘۔
مہینے کے ابتدائی دنوں میں جب تنخواہ ملتی تو ہم چند دوست مل کر چرغہ کھانے کا پروگرام بناتے۔ ان دنوں کسی فوڈ سٹریٹ نے جنم لیا تھا‘ نہ جگہ جگہ فاسٹ فوڈ کی دکانیں کھلی تھیں۔ پرانی انار کلی‘ لکشمی چوک‘ نسبت روڈ چٹخارے دار کھانوں کے اڈے تھے یا پھر نعمت کدہ کا چرغہ مشہور تھا۔ ڈیوس روڈ پر ہم جس اخبار میں کام کرتے تھے‘ اس سے متصل ریستوران نے بھی چرغہ بیچنا شروع کیا‘ تو ہم نے کھانا شعار کیا‘ مگر لوتھر شریک محفل ہونے کے باوجود چرغہ کھانے سے گریز کرتا‘ الگ سے سالن منگوا لیتا۔ چرغہ نہ کھانے کی وجہ یہ بیان کرتا کہ نہیں معلوم یہ زندہ مرغی کا ہے یا مُردہ کا۔ وہ ہمیشہ سوال کرتا کہ محلے میں ایک مرغی مر جائے تو سب کو علم ہوتا ہے‘ مرغی خانوں میں روزانہ سینکڑوں نہیں تو درجنوں مرغیاںضرور مرتی ہوں گی‘ وہ کہاں جاتی ہیں؟ چرغہ فروشوں کے سوا کون خریدتا ہو گا؟
لاہور میں ریستورانوں‘ ہوٹلوں اور گوشت فروشوں کی چیکنگ کے جو نتائج سامنے آئے وہ عمانویل لوتھر کے اندیشے کی تصدیق اور گوشت خور شہریوں کے لیے ڈرائونا خواب ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مردہ مرغیوں اور مضر صحت دودھ کی فروخت سب سے زیادہ ہے‘ جبکہ گدھے اور دوسرے جانوروں کا گوشت بھی خوش خوراک لاہوریوں کو دھڑلے سے کھلایا جا رہا ہے۔ عائشہ ممتاز کے چھاپوں کے بعد یقین نہیں کہ یہ سلسلہ رک گیا ہو‘ کیونکہ عموماً گرفتاریاں خوردہ فروشوں کی ہو رہی ہیں یا ان سپلائرز کی جو معاوضہ لے کر یہ کام کرتے ہیں۔
حرام کا یہ کاروبار جاری رکھنے والے طاقتور لوگوں پر ابھی تک کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا اور اس کاروبار سے اب تک چشم پوشی کرنے والی حکومت اور بیوروکریسی سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے‘ ناک کے نیچے اور دور حکمرانی میں عرصہ دراز سے یہ سب کچھ ہوتا رہا‘ کبھی روک تھام کا خیال کیوں نہ آیا؟ اور عائشہ ممتاز کو کہاں چھپا کر رکھا تھا‘ جو ان دنوں بروئے کار آئیں‘ جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔
پاکستان کا کون سا شہر اور قصبہ ایسا ہے جہاں قصابوں‘ دودھ فروشوں اور پرچون فروشوں سے یہ پوچھنے کا رواج ہے کہ وہ جو کچھ بیچ رہے ہیں‘ وہ اصلی ہے یا نقلی‘ خالص ہے یا ملاوٹ شدہ اور اس میں ملاوٹ کسی حرام اور مضر صحت چیز کی ہے یا غیر مضر شے کی۔ محفلوں میں بیٹھ کر فخریہ یہ بات کی جاتی ہے کہ اصل کی نقل تیار کرنے میں چین کے بعد ہمارے لوگ ماہر ہیں یہاں جو جتنا بڑا اُچکا‘ دو نمبر اور نوسر باز ہے اتنا ہی معزز اور ذہین‘ سمجھا جاتا ہے۔ شریف اور ایماندار یہاں بے وقوف ہے۔ ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے سے قاصر۔
ایوب خان کے دور میں مارشل لاء حکام نے گوشت اور دودھ دہی کی دکانوں پر جالیاں لگوائیں‘ جو مستحسن اقدام تھا۔ آج تک ایوب خان کے اس اقدام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ میاں محمد اظہر میئر لاہور تھے‘ تو انہوں نے شہر سے تانگے ختم کرنے کا فیصلہ کیا‘ کیونکہ ٹریفک میں خلل پڑتا تھا اور گھوڑوں کی لید مختلف بیماریاں پھیلانے کا باعث۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں اور میڈیا نے مخالفت کی۔ پہلے تانگہ بانوں کی روٹی روزی کا سوال اٹھا‘ جب میاں اظہر نے کہا کہ انہیں قسطوں پر رکشے اور چھوٹی ویگنیں فراہم کی جائیں گی‘ تو شور مچا کہ تانگہ لاہور کے کلچر کی علامت ہے۔ میاں اظہر ازراہ مذاق کہا کرتے: ''تانگہ گھوڑا نہیں‘ تشنج کی بیماری بانٹنے والی لید ہمارا کلچر ہے‘‘۔
مردہ مرغیوں‘ گدھوں اور دیگر حرام جانوروں کے گوشت کی شہر میں ترسیل اس سال شروع نہیں ہوئی‘ عرصہ دراز سے جاری ہے کچھوئوں اور مردہ جانوروں کا گوشت کئی بار پکڑا گیا۔ آج تک کسی کو علم نہیں ہو سکا کہ گرفتار افراد سے کیا سلوک ہوا‘ پیسے دے کر چھوٹ گئے یا ضمانتوں پر رہا ہوئے۔ اینٹوں کے کچرے اور لکڑی کے برادے کو مرچوں کے طور پر فروخت کرنے‘ خشک باسی روٹیاں پیس کر آٹے میں ملانے اور دودھ میں جوہڑ کا پانی ملا کر اسے خالص دودھ کے طور پر فروخت کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ غیر معیاری‘ جعلی اور ناقص ادویات کا دھندہ عروج پر ہے‘ مگر مجال ہے کہ کبھی روک تھام کی سنجیدہ کوشش ہوئی ہو۔ دو نمبر مشروبات‘ جام جیلی اور دیگر اشیائے خور و نوش کی فیکٹریاں جگہ جگہ سرعام چل رہی ہیں۔ ہر باخبر آدمی جانتا ہے کہ کہاں کہاں واقع اور کس کی ملکیت ہیں‘ مگر سرکاری ادارے اپنا حصہ رسدی وصول کر کے آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں کیونکہ‘ آنکھیں بند کرنے کی منہ مانگی قیمت ملتی ہے اور چیکنگ کی صورت میں ملازمت جانے یا او ایس ڈی بننے کا خطرہ رہتا ہے۔ کون جانے اس مکروہ کاروبار کا سرپرست کتنا بڑا سرکاری عہدیدار اور طاقتور سیاستدان ہے۔
جس شہر میں ریڑھی والے فخر سے بتائیں کہ فٹ پاتھ پر قبضہ فلاں وزیر اور اس سے بھی اوپر کے عہدیدار کے حکم پر کیا ہے اور کوئی مائی کا لال اسے وہاں سے اٹھا نہیں سکتا‘ وہاں حرام گوشت بیچنے کی جرأت کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا اور دو نمبر مال بنانے والی فیکٹریاں محض علاقے کے تھانیدار یا لیبر انسپکٹر کی چشم پوشی و ملی بھگت سے چلانا ممکن نہیں۔ یہ وسیع اور منافع بخش کاروبار ہے جس کی بندش کے بجائے نمائشی قسم کے اقدامات سے وقتی واہ واہ کرائی جاتی ہے۔ دور رس نتیجہ ماضی میں تو کبھی نہیں نکلا اب نکلے تو خوش قسمتی کی بات ہے۔
جو لوگ یہ کاروبار ڈھٹائی سے جاری رکھے ہوئے ہیں وہ مسلمان ہیں اور انسان بھی مگر کبھی نہیں سوچتے کہ معمولی نفع کی خاطر وہ لوگوں میں بیماریاں بانٹ رہے ہیں اور بالآخر اس کا نشانہ وہ خود اور ان کی آل اولاد بھی بنے گی۔ مگر جب پیسہ ہی ایمان اور مقصد حیات بن جائے تو یہ سوچنے کی فرصت کہاں؟ حکومت اور سرکاری ادارے تو خیر قصوروار ہیں کہ روک تھام ان کی ذمہ داری ہے لیکن شہریوں کو خود بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اردگرد مردار بیچنے اور بیماریاں بانٹنے والوں کو روکنا ان کی بھی ذمہ داری ہے۔ آخر کوئی خلائی مخلوق تو یہ کام نہیں کر رہی ہے کہ جس کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ ذمہ دار اداروں کی آنکھ پر پٹی بندھی ہے عوام کی آنکھوں پر تو نہیں۔ حتی المقدور گھر کے کھانے پر اکتفا کرنا چاہیے جو زیادہ چٹخارے دار نہیں مگر ان آلائشات سے بڑی حد تک پاک ہوتا ہے۔
جس ملک میں جمہوریت میں موروثیت کی ملاوٹ ہو‘ سیاست میں دو نمبری کامیابی کا تیر بہدف نسخہ اور بددیانتی و ضمیر فروشی سکہ رائج الوقت وہاں رونا کس بات کا‘ خاندانی حکمرانی پر جمہوریت کا لیبل لگ سکتا ہے‘ ذاتی ملازمین پارٹی عہدیدار کہلا سکتے ہیں‘ تو گدھے کے گوشت کو گائے بھینس کے گوشت کے طور پر بیچنا اور مردہ مرغیوں کو پروٹین سے بھرپور غذا کے طور پر پیش کرنا معیوب کیونکر؟ مردار سیاست‘ بدبودار جمہوریت اور حرام خور قیادت کے شوقین ووٹروں اور پیروکاروں کو صاف ستھرا‘ پاکیزہ گوشت‘ خالص دودھ اور اصلی ادویات کی خواہش نہیں پالنی چاہیے۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔
اب تو ملاوٹ کو بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ ملاوٹی چیز میں کسی نہ کسی تناسب سے اصل کی آمیزش ہو گی۔ جمہوریت اصلی نہ گوشت اور نہ دودھ۔ نقل ہی نقل بلکہ مُردار‘ مُضرصحت اور باعث شرم۔ سوال اٹھائو تو لوگ گلے پڑتے ہیں لہٰذا خاموشی ہی بہتر ہے۔ لکشمی چوک کے جس ریستوران سے میں دوپہر کو کھانا منگوایا کرتا تھا‘ بالآخر وہ بھی سیل ہو گیا۔ ٹفن خریدنا پڑے گا۔