تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-09-2015

گدھے … یہیں کے!

کالمانہ مزاج کیا کم تھا کہ اب نیوز چینلز بھی قیامت ڈھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ نیوز چینلز باقاعدگی سے دیکھتے رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ ہر معاملے کی پشت پر کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنا یا ایسا گمان رکھنا، دوسرے بہت سے پاکستانیوں کی طرح، اب ہمارے مزاج کا بھی ''اٹوٹ انگ‘‘ بن چکا ہے! 
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کے ایک حالیہ اجلاس کی روداد پڑھ کر ہم دنگ رہ گئے۔ وطنِ عزیز کی تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی جمہوری حکومتیں عوام کو یکسر نظر انداز کردیتی ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے متعلق خبر پڑھ کر ہم خوش ہوئے کہ حکومت نے ابھی تک ووٹرز کو یاد رکھا ہوا ہے۔ 
لیجیے، ہم مزید پہیلیاں بجھوانے کے بجائے آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گدھوں کے حالات پر بحث ہوئی۔ کمیٹی کو اطلاعات ملی تھیں کہ ملک کے بہت سے حصوں میں گدھے کا گوشت فروخت کیا جارہا ہے اور کھالیں برآمد کی جارہی ہیں۔ گدھوں سے متعلق تشویشناک خبریں پاکر کابینہ کمیٹی کے بھی کان کھڑے ہوئے اور اس نے اجلاس میں گدھوں کے حال زار پر غور و خوض کے بعد ان کی کھال برآمد کرنے پر پابندی عائد کردی۔ 
ایک زمانے سے یہ ہو رہا ہے کہ جب بھی کسی صوبائی حکومت سے کچھ نہیں بن پڑتا تو عوام کی سلامتی کو مزید خطرات کی زد میں آنے سے بچانے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی عائد کردیتی ہے۔ کابینہ کمیٹی نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ گدھے کی کھال اگر بلند نرخوں پر برآمد ہو رہی ہے تو اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے؟ خدشہ یہ ظاہر کیا گیا کہ کھال کے لیے گدھے کاٹے جارہے ہیں کیونکہ گدھے کی ایک کھال 18 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے جبکہ بھینس کی کھال اس سے ایک تہائی کم میں خریدی جاتی ہے۔ ہم یہ سن کر مزید حیران ہوئے۔ گدھا کون سا سستا آتا ہے کہ اسے کاٹ کر کھال برآمد کی جائے؟ پاکستان میں جوان اور صحت مند گدھے کی قیمت چالیس پچاس ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ ویسے محنت کے معاملے میں ہر گدھا لمبی ریس کا گھوڑا ہوتا ہے! ریس کے گدھے تو اور بھی مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔ 
کابینہ کمیٹی میں گدھوں کے حالات پر غور و خوض کی خبر پڑھ کر ہم کچھ دیر سکتے کی حالت میں رہے۔ نظریۂ سازش پر اعتقاد رکھنے کی روش نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ ایک طرف تو خوشی ہوئی کہ حکومت کو بالآخر گدھوں کی بہبود کا خیال آ ہی گیا۔ مگر پھر یہ خیال بھی آیا کہ حکومت ہمیں یعنی اہل وطن کو کچھ پیغام دینا چاہتی ہے۔ شاید یہ کہ کسی کابینہ کمیٹی میں گدھوں کی بہبود پر تو غور کیا جاسکتا ہے، عوام کے مسائل پر بحث کی فرصت نہیں! ساتھ ہی یہ سوچ کر بھی دکھ ہوا کہ اب تک ہم اس گمان میں تھے کہ حکومت عوام کو گدھے سمجھتی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ وہ تو گدھوں سے بھی گئے گزرے ہوگئے کہ ان کے مسائل دھرے کے دھرے رہ گئے اور گدھوں کے حالات درست کرنے پر غور فرمایا جارہا ہے! 
کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں گدھے کا گوشت فروخت کیے جانے کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا رہا ہے کہ گدھے کا گوشت بالخصوص نہاری میں استعمال ہوتا ہے۔ ہم ایک زمانے سے یعنی بچپن ہی سے نہاری کے رسیا ہیں۔ گدھے کی گوشت والی بات بھی ہمیں نہاری سے متنفر نہ کرسکی۔ ہاں، اتنا فرق ضرور پڑا کہ نہاری سے ہماری رغبت میں کوئی کمی نہ پاکر یاروں نے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع کردیا! سچی بات یہ ہے کہ ہم گدھوں سے نفرت نہیں کرسکے، انہیں کبھی کمتر نہیں جانا کیونکہ ہم نے ہمیشہ اپنے سے زیادہ ان کی قدر افزائی دیکھی ہے! 
گدھے کے گوشت کی فروخت والی بات پر ہمیں ہمیشہ کم ہی یقین آیا ہے کیونکہ گائے بھینس کے مقابلے میں اصلی یعنی چار ٹانگوں والے گدھے زیادہ مہنگے ہونے کی بنیاد پر قصائی کے وارے میں نہیں آسکتے! ہاں، چند بھونکتی ہوئی خبروں کی بنیاد پر ہم نے بکرے کا گوشت کھانا البتہ چھوڑ دیا ہے! 
گدھوں کی قیمت زیادہ کیوں نہ ہو، ان کی افادیت بھی تو زیادہ ہے۔ جی بھر کے وزن اٹھوائیے اور پھر جی بھر کے گالیاں بھی دیجیے۔ بے چارے اُف تک نہیں کرتے۔ اور ڈھینچوں ڈھینچوں بھی اپنی مادہ کو دیکھ کر کرتے ہیں، انسانی نر کو دیکھ کر تو صرف ''بھررر‘‘ کرکے رہ جاتے ہیں! بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ گدھوں کو قدرت نے خاصا جمہوری مزاج عطا فرمایا ہوا ہے! گدھے ووٹ نہیں ڈالتے تو کیا ہوا، ووٹ ڈالنے والوں کے ساتھ رہتے رہتے ان کی طرح سب کچھ سہنا تو انہوں نے بھی سیکھ ہی لیا ہے! جمہوریت کا پودا ایسے ہی مزاج کی زمین میں زیادہ آسانی سے پھلتا پھولتا ہے۔ 
کبھی کبھی ہم یہ سوچ کر دکھی ہو جایا کرتے تھے کہ ہم ہی ہیں کہ زندگی بھر محنت کرتے ہیں مگر کماحقہ صلہ نہیں پاتے۔ صد شکر کہ کابینہ کمیٹی نے ہمارے دل کی رنجش دور کردی۔ اجلاس کی روداد پڑھ کر کچھ طمانیت سی محسوس ہوئی کہ ہماری طرح اصلی یعنی چار ٹانگوں والے گدھوں کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ اب ناقدری کا شکار وہ بھی ہیں، کھال ان کی بھی کھنچ کے رہتی ہے۔ ہاں، یہ بات کچھ رنجیدہ کرگئی کہ ہماری کھنچی ہوئی کھال کسی کام کی نہیں اور گدھوں کی کھال بلند نرخوں پر فروخت ہوجاتی ہے! 
''سازش جُو‘‘ طبیعت نے یہ سوچنے پر بھی مجبور کیا کہ حکومت کو آخر گدھوں کی بہبود کا خیال کیسے آگیا۔ پھر ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ شاید حکومت کو یہ فکر لاحق ہو کہ گندے سلوک سے تنگ آکر گدھے کہیں بدک نہ جائیں! گدھوں کے بارے میں سوچنے کی توفیق کسی جمہوری حکومت ہی کو ہوسکتی ہے۔ آخر کو گدھوں ہی کے دم سے جمہوری حکمرانوں کا ووٹ بینک قائم و دائم اور توانا رہتا ہے! 
کابینہ کمیٹی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گدھوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ پاکستان میں تقریباً 50 لاکھ گدھے پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تعداد اصلی اور قدرتی گدھوں کی ہے۔ باضابطہ کوشش کرکے اور شعوری طور پر یعنی قول و فعل سے خود کو گدھے ثابت کرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے! 
بہر حال، گدھے مبارک باد کے قابل ہیں کہ گوشت اور کھال کی فروخت کے بہانے میڈیا میں in ہیں۔ اب تو پنجاب اسمبلی نے بھی ان کے حق میں قرارداد منظور کی ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ گدھوں اور حسینوں کا تعلق ایک بار پھر تصدیق کی منزل سے گزر گیا ہے۔ کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ گدھے کی کھال کے اجزا خواتین کے حسن کی حفاظت کے لیے بنائی جانے والی بہت سی کریمز اور لوشنز میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں! ہمیں کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ خواتین جب بھی بیوٹی پارلرز کا رخ کرتی ہیں یا گھر میں کاسمیٹکس استعمال کرتی ہیں تو بھگتان متعلقہ گدھوں ہی کو کرنا پڑتا ہے! خواتین کتنی خوش نصیب ہیں کہ گدھے جیتے جی بھی ان کی خدمت کرتے ہیں، ناز اٹھاتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی، یعنی اپنا بیڑا غرق ہوجانے پر بھی، کاسمیٹکس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہوکر ان کے حُسن کا بیڑا پار کرتے ہیں! ایسی پختہ وفاداری ہی کے لیے تو غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے 
مَرے بت خانے میں کعبے میں گاڑو برہمن کو 
گدھے کی کھال کے انوکھے استعمال کا میڈیا نے ایسا ڈھول پیٹا ہے کہ خواتین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ ڈر رہی ہیں کہ کہیں ان کا حُسن ''گدھیا‘‘ نہ جائے! 
چلیے، تھوڑی دیر سے ہی سہی مگر حکومت کو بھی گدھوں پر توجہ دینے اور ان کے مسائل حل کرنے کا خیال آیا تو۔ پہلے مرحلے میں چار ٹانگوں والے گدھوں کی بہبود کا سوچا جارہا ہے۔ دو ٹانگوں والے گدھے امید نہ ہاریں، بہت جلد ان کی بھی باری آئے گی، ان کے بھلے کا بھی سوچا جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved