تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-09-2015

ضمنی الیکشن کا ڈر

کوئی سیاسی پارٹی‘ حکومت میں بیٹھ کر ‘ضمنی انتخابات سے بھاگ رہی ہو‘ تو اس کے بارے میں کیا اندازہ کیاجا سکتا ہے؟ اس کا جواب‘ ن لیگ والوں سے پوچھا جائے‘ تودلچسپ جواب سننے کو ملیں گے۔کہا جاتا ہے کہ ہم تو جیت گئے تھے۔ اب دوبارہ مقابلے کی کیا ضرورت ہے؟ شیر کے حواریوں میں جتنے گیدڑ‘ بھیڑیئے‘ لگڑ بھگے اور لومڑ وغیرہ ‘ہر وقت ٹی وی چینلز پر للکارتے نظر آتے ہیں‘ ان سب کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ الیکشن تو ہم جیت چکے‘ دوبارہ الیکشن کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خدا کے بندے‘ جواب بھی نہیں سنتے کہ عدالتوں نے شیر کے سارے دبدبے کے باوجود‘ انتخابی نتائج میں دھاندلی کی وجہ سے انہیںکالعدم قرار دے کر‘ ضمنی انتخابات کا راستہ کھولا تھا اور انہی میں سے کچھ نے جواب میں چیخ چیخ کر کہا تھا کہ ہم تو جیتے ہوئے ہیں۔ الیکشن ہمارے نزدیک کیا ہے؟ پھر سے جیت لیں گے۔ مگر جیسے ہی انہوں نے ووٹوں کے لئے عوام کی طرف رجوع کیا‘ تو فوراً دم سادھ کر لوٹ آئے اور اب بیٹھے مختلف حیلے بہانے لگا رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ۔ ہم جیتی ہوئی سیٹ پر دوبارہ کیوں جائیں؟حالانکہ ابھی ابھی مختلف ضمنی انتخابات میں ‘ہماری پارٹی دوبارہ جیت کر آئی ہے۔ ہمیںتو زیادہ اعتماد اور یقین کے ساتھ ضمنی الیکشن میں کودنا چاہیے۔ لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے لئے ‘انہیں جس طرح گھٹنے رگڑنا پڑے‘ اسے یہ ابھی تک نہیں بھولے۔ شیر کے سامنے جاتے ہیں‘ تو سب کہتے ہیں کہ ''شیر جی! آپ کے رعب اور دبدبے کے سامنے کس میں ہمت ہے کہ مقابلے میں آئے؟ اصل میں اپوزیشن ‘ عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا تی ہے۔ ورنہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت ‘ آپ کی شاندار کارکردگی کے سامنے ختم ہو رہی ہے۔ لوگ اس کے جلسوں میں جانا پسند نہیں کرتے۔ خودعمران خان‘ جلسے جلوسوں سے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ ہم خوامخواہ ضمنی الیکشن میں محنت کیوںکریں؟ جبکہ ہم پہلے ہی جیتے ہوئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم گزشتہ انتخابات میں جتنے ووٹ لے کر آئے تھے‘ ہمارے لئے وہی بہت ہیں۔ ہماری پارٹی کے بانی‘ جنرل ضیاالحق نے ‘ریفرنڈم میں اپنے حریفوں کوزبردست شکست دیتے ہوئے‘ 98فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ مخالفین کس منہ سے کہتے ہیں کہ وہ ہمیں شکست دیں گے؟ اصل میں دیکھا جائے‘ تو اتنی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکے‘ ہماری پارٹی کو کم از کم 50سال تک تو حکومت میں رہنا چاہیے تھا۔
درمیان میں مشرف نے کود کر ‘ ہمارے دس بارہ سال کھا لئے۔ پھر بھی اللہ کے فضل سے ابھی کئی سال پڑے ہیں۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ اب بھی جنرل راحیل شریف اگر الیکشن میں کھڑے ہو جائیں‘ تو 98 فیصد سے بھی زیادہ اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمارا کیا مسئلہ ہے؟ ہمارا شیر تو ان کی پارٹی میں بھی ‘وزیراعظم بن کر ملک کی خدمت کر سکتا ہے۔آج بھی جنرل راحیل شریف ہی کی وجہ سے شیر حکومت کر رہا ہے۔ ورنہ ہم تو ہمت چھوڑ بیٹھے تھے۔ ہمارا شیر بھی نوازشریف سمیت استعفیٰ دینے کو تیار ہو گیا تھا۔ وہ تو عمران خان کو حوصلہ نہیں پڑا۔ وہ ڈر گیا اور فوراً قلابازی کھائی اور کہا کہ مجھے تونوازشریف کا استعفیٰ چاہیے۔‘‘ محفل میں کسی نے پوچھ لیاکہ ''عمران نے شیر کا استعفیٰ کیوں نہیں مانگا؟ ‘‘تو اس کا جواب تھا''شیر پر کون بھروسہ کرتا ہے؟ وہ استعفے کے بعد بھی دھرنا دے کر بیٹھ جاتا‘ تو ہمارے دھرنے کا کیا بنتا؟ ہمارا کام اسی صورت میں بن سکتا ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہوں۔ شیر اپنی جگہ خالی کرے اور پھر ہم‘ آہستہ سے آگے بڑھ کر کرسی پر براجمان ہو جائیں؟ جب تک شیر کرسی نہیں چھوڑتا‘ ہم سڑکیں نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
درمیان میں ایک لگڑبھگا بولا''آپ کرسی چھوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ شیر تو کرسی کے ساتھ ملک بھی چھوڑ گیا تھا۔ میں اسی آس میں بیٹھا ہوں کہ شیر کرسی چھوڑے اور میں اس پر بیٹھ جائوں اور شیر بھی بن جائوں۔‘‘ 
''اگر آپ کرسی پر بیٹھ کر شیر نہ بن سکے تو؟‘‘
''یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ نوازشریف پہلے کب شیر تھا؟ کرسی پر بیٹھ کر ہی شیر بنا۔ پہلے وہ سائیکل سوارتھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی مونچھیں نکلیں اور وہ شیر بن گیا۔ ‘‘
''تمہیں کس کمبخت نے کہا ہے کہ شیر بننے کے لئے مونچھیں نکلنا ضروری ہیں؟ میں اگر شیر بنا‘ تو مونچھوں کے بغیر بنوں گا۔‘‘
''پھر آپ کو شیر کون مانے گا؟ ‘‘
''شیر اپنے آپ ہی شیر نہیں بن جاتا۔ اسے کرسی شیر بناتی ہے۔‘‘
''اگر آپ کو کرسی کے بغیر شیر بنا دیا گیا‘ تو آپ کیا کریں گے؟‘‘
''یاد رکھو! جس کو عوام شیر بنا دیں‘ پھر کس کی مجال ہے ‘ جو اس کی مونچھیں دیکھے؟ شیر کی مونچھیں محض دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں۔ اصل کام اس کے دانتوں اور پنجوں کا ہوتا ہے۔ یا پھر اس کی دھاڑ لوگوں کو ڈراتی ہے۔‘‘
''گستاخی معاف! آپ نے تو دھاڑ دھاڑ کے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ لوگوں نے آپ کو شیر کیوں نہیں مانا؟‘‘
''بیوقوف! لوگ جسے ووٹ دے کر شیر بنائیں‘ اسے کون شیر نہیں مانے گا؟‘‘
''آپ نے کب مانا تھا؟ 2013ء میں ووٹ تو عمران کے حق میں زیادہ پڑے تھے۔ آپ نے اسے شیر مانا؟ ‘‘
''میں نے اس لئے نہیں مانا کہ 35 پنکچر لگوا لئے تھے۔ ورنہ کہاں کا شیر اور کہاں کی حکومت؟ ووٹوں کی گنتی صحیح ہو جاتی‘ تو میں دوبارہ سائیکل پر بیٹھا نظر آتا۔‘‘
''سائیکل پر ایک نہ ایک دن تو بیٹھنا پڑے گا۔ کیوں نہ ہم ضمنی الیکشن میں آزمائش کر کے دیکھ لیں؟‘‘
''آزمائش کر کے تو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر خطرہ کون مول لے؟ بائی الیکشن میں ہوا نکل گئی‘ تو پنکچر کون لگائے گا؟ ‘‘
'' موصوف پہلے ہی سے کرسی پر بیٹھے ہیں۔ کس کی ہمت ہے کہ ہوا نکالے؟ عمران چار سیٹیں لے کر بھی شیر تو بن نہیں سکے گا۔ ‘‘
''یہ بات درست ہے۔ مگر ہمارے سپیکر کا کیا بنے گا؟‘‘
''ہمارے پاس کئی متبادل امیدوار موجود ہیں۔‘‘
''تو کیا آپ سردار ایاز صادق کو چھوڑ دیں گے؟‘‘
''ہمیں چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم ضمنی الیکشن کرائیں گے‘ تو کرسی جائے گی۔ جب ضمنی الیکشن ہی نہیں ہو گا‘ تو سردار ایاز صادق کی کرسی کیسے جائے گی؟‘‘
''پھر تو ریلوے کی منسٹری بھی خواجہ سعد رفیق کے پاس ہی رہے گی۔‘‘
''آپ اس کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو وزارت دفاع بھی خواجہ آصف کے پاس ہی رکھیں گے۔‘‘
''وہ کیوں؟‘‘
''ہمیں دفاع کی ضرورت نہیں۔‘‘
'' اگر دفاع کی ذمہ داری خواجہ آصف کے پاس رہی تو پھر ہو چکا دفاع۔‘‘
''لگتا ہے‘ تم بھارت سے ڈرتے ہو۔‘‘
''بھارت سے کون ڈرتا ہے؟ انتخابات میں مقابلہ عمران خان سے ہو گا۔‘‘
''اس کی ایسی تیسی! ہم بھارت سے جنگ چھیڑ کرالیکشن ہی ملتوی کر دیں گے۔‘‘
''ترکیب تو بڑی اچھی ہے۔ ہم سے پہلے بھی ‘جس کی کرسی خطرے میں پڑی‘ اس نے بھارت سے جنگ چھیڑ دی۔‘‘
''کیا وہ جنگ جیت گیا؟‘‘
''نہیں!کرسی گنوا بیٹھا۔‘‘
''اگر کرسی ہی گنوانی ہے تو پھر الیکشن کیوں نہ لڑ لیں؟‘‘

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved