تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-09-2015

کس کس کو الٹا لٹکائیں؟

جمعرات کے اخبارات میں ایک شہ سرخی ہے جس کے مطابق میاں شہباز شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ نیب نندی پور سکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں الٹا لٹکا دے۔ اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ میڈیا ان کا ٹرائل کرنا بند کرے۔ 
میں حیران ہوں کہ نیب کس کس کو الٹا لٹکائے؟ پہلے تو نیب اپنے ان دو سابق چیئرمینوں کو الٹا لٹکائے‘ جنہوں نے اپنے ایک طاقتور اور کاروباری ملزم کو بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف کی طرف سے بغاوت کے بعد گرفتار کیا‘ اس سے ایل پی جی کوٹے لے کر اس کے کاروباری پارٹنر بن گئے اور وہ اپنی مرضی کی ڈیل کر کے نکل گیا۔ نیب کے ایک اور نام نہاد سابق چیئرمین عقل مند نکلے اور اپنے ایک دوست کے نام پر کوٹہ لیا‘ جب کہ ایک سابق وزیرداخلہ نے اپنے بھتیجے کے نام پر ایل پی جی کنگ اور نیب کے ملزم سے کوٹہ لیا ۔ ایک سونے کا انڈہ دینے والی مرغی نیب کے سابق فوجی افسروں کے ہاتھ لگ گئی تھی جسے سب نے خوب نچوڑا۔ نہ صرف ان بڑے فوجی افسران نے ایل پی جی کوٹے لیے بلکہ اس ایل پی جی کنگ کے ساتھ پلی بارگیننگ بھی کی تھی۔ ان سابق فوجی افسران نے بھی کوٹے لیے۔ بات یہاں پر نہ رکی۔ جنرل مشرف کے سیکرٹری محسن حفیظ کو پتہ چلا تو انہوں نے بھی ایل پی جی کا کوٹہ لے لیا۔ یوں یہ جنرلز اور دیگر افسران گھر بیٹھے ایک ٹن پر دس لاکھ روپے مفت وصول کرتے اور ان میں سے کسی نے دس ٹن سے کم نہیں لیا ۔ جنرل مشرف کی سفارش پر بھی ایل پی جی کوٹے ملتے رہے۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے۔ 
یا نیب پہلے اپنے اس سابق چیئرمین کو الٹا لٹکائے جس نے اوگرا سکینڈل میں توقیر صادق کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور اسے نیب کے افسر وقاص احمد خان نے گرفتار کر لیا ۔ اس دوران اوپر سے ایک فون چیئرمین نیب کو آیا تو انہوں نے کہا کہ اسے چھوڑ دو کیونکہ وارنٹ غلطی سے جاری کیے گئے تھے۔ وارنٹ کو وہیں پھاڑ دیا گیا اور توقیر صادق کو رہا کر دیا گیا ۔ جب جہانگیر بدر کے قریبی عزیز توقیر صادق دو دن بعد طورخم کے راستے افغانستان اور پھر دوبئی نکل گئے تو اسی چیئرمین نے دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور بعد میں کئی ماہ کی محنت کے بعد عدالت کے دبائو پر توقیر صادق کو چالیس لاکھ روپے خرچ کر کے واپس لایا گیا۔ 
یا پھر نیب اپنے اس چیئرمین کو ٹانگ دے جس نے ڈاکٹر عاصم حسین کا نام اوگرا سکینڈل سے خاموشی سے نکال دیا۔ 2013ء میں ان سے پہلے چیئرمین‘ جس نے توقیر صادق کے وارنٹ پھاڑے تھے، نے وقاص احمد خان انکوائری افسر کی رپورٹ پر عاصم حسین کا نام ریفرنس میں ڈالا تھا۔ ایک سال بعد نئے چیئرمین نے نئی انکوائری کرائی اور چپکے سے ڈاکٹر عاصم حسین اور اقبال زیڈ احمد کا نام اربوں روپے کے اس ریفرنس سے نکال دیا گیا ۔ نئی جھوٹی انکوائری موجودہ چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری کی فرمائش پر کیسے ہوئی اور عاصم حسین کا نام کیسے نکالا گیا‘ وہ اپنی نوعیت کا ایک اور سکینڈل ہے۔ اس پر پھر کبھی سہی۔ 
یا نیب اپنے ان کرپٹ افسران کو لٹکائے جو لوگوں کو ہراساں کر کے پلی بارگیننگ پر مجبور کر کے اپنا حصہ کھرا کرتے رہے‘ مال پانی بناتے رہے اور اس دوران ایک کروڑ روپے کا مفت کھانا بھی عوام کے پیسوں سے اپنی کینٹین پر کھا پی گئے۔ 
یا نیب اس سابق ڈی جی نیب پنڈی کو الٹا لٹکائے جس نے انجم عقیل خان کے چھ ارب روپے کے سکینڈل کو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود دبا دیا اور مضاربہ سکینڈل کے ملزم قاری احسان کو‘ جو بیس ارب روپے سے زائد کے فراڈ میں ملوث تھا‘ صرف پینتالیس کروڑ روپے پر پلی بارگیننگ کر کے چھوڑ دیا۔ باقی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے خود کیا کچھ لیا ہوگا۔ اس سابق ڈی جی نیب پنڈی کو آپ کتنی دفعہ لٹکائیں گے کیونکہ موصوف آج کل اس بڑی کمپنی کی ملازمت کر رہے ہیں‘ جس کے مالک کبھی ان کے سامنے سکینڈلز میں ملزم کے طور پر پیش ہوتے رہتے تھے۔ انہوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی کی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا‘پاکستان کا کیا ہے‘ یہ تو اسحاق ڈار صاحب کی بدولت ہر سال پانچ ارب ڈالر کا قرضہ لے کر چل ہی رہا ہے۔ یوں آج کل وہ اس کرپٹ گروپ کے ایڈوائزر ہیں جس کے خلاف وہ کبھی تحقیقات کرتے تھے۔
ویسے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھول گئے ہیں کہ انہوں نے آصف زرداری کو بھی الٹا لٹکانا تھا؟ لاہور کی گلیوں میں گھسیٹنا تھا؟ جب کراچی میں پچھلے دنوں پوچھا گیا تو موصوف معصومیت سے بولے: وہ ان کی غلطی تھی‘ انہوں نے زرداری صاحب سے معذرت کر لی تھی۔ کیا ان ہزاروں لوگوں سے بھی کوئی معافی مانگی گئی جن کے سامنے ووٹ لینے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ زرداری کو الٹا لٹکائیں گے‘ پھر گھسیٹیں گے اور پھر اس کا پیٹ پھاڑ کر دولت نکالیں گے؟
ویسے نندی پور سکینڈل میں وہ کسے لٹکانا چاہتے ہیں؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ دنیا نیوز نے مجھے میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد جولائی 2013ء میں چین کے پہلے دورے کے موقع پر اپنے خرچے پر کوریج کے لیے بھیجا تھا۔ وہاں بڑی خبر بریک کی گئی کہ جناب شہبازشریف نے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ چینی کمپنی‘ جو دو سال پہلے پیپلز پارٹی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے نندی پور کا بائیس ارب روپے کا پروجیکٹ چھوڑ آئی تھی‘ اب ستاون ارب روپے لے کر دوبارہ شروع کرے گی اور راتوں رات پاکستان روشن ہوجائے گا ۔ ہم سب نے وہیں سے بیپر اور خبریں دینا شروع کر دیں۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ دو سال میں کیا افتاد پڑی کہ منصوبہ بائیس سے ستاون ارب روپے کا ہوگیا۔ پاکستان لوٹے تو پتہ چلا کہ سابق ایم ڈی پیپکو منور بصیر نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا کہ انہوں نے یہ منصوبہ خود بنایا تھا۔ دو سال بعد مہنگائی وغیرہ ملا کر بھی اس کی قیمت اڑتیس ارب روپے سے زیادہ نہیں بنتی‘ یوں چینی کمپنی کو بیس ارب روپے زیادہ ادا کیے جارہے ہیں‘ مگر افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ شریفوں کے احترام میں خاموش رہی اور منصور بصیر کے خط پر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ 
تاہم جب معاملہ کھلا تو اسے دبانے کے لیے اسحاق ڈار صاحب نے 13جولائی کو ای سی سی کے اجلاس میں انکوائری کا حکم دیا ۔ انکوائری کی ذمہ داری احسن اقبال پر ڈالی گئی۔ مزے کی بات دیکھیں کہ چند دن پہلے اسحاق ڈار نے چینی کمپنی کو بائیس کی بجائے ستاون ارب روپے ادا کرنے کی منظوری احسن اقبال کی وزارت کی سفارش پر ہی دی تھی‘ اب وہی ایک دوسرے کی انکوائری کا ڈرامہ کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے بھی فوراً ایک اور انکوائری کا حکم دے دیا ۔ سیکرٹری پلاننگ نے وہی ڈرامہ دہرایا کہ سب کچھ ٹھیک تھا ۔ ایک جنرل نیاز شاہد صاحب سے کہا گیا کہ وہ انکوائری کریں ۔ وہ رپورٹ آج تک سامنے نہیں لائی گئی ۔ سب نے مل کر ایک دوسرے کو کلین چٹ دے دی ۔ 
پھر ایک دن نیپرا نے پبلک ہیئرنگ کی تو پتہ چلا کہ نندی پور کی لاگت تو چوراسی ارب روپے ہوچکی ہے اور اگر ڈیزل پر اس کو چلایا گیا اور گیس نہ دی گئی تو ایک یونٹ اکتالیس روپے کا ہوگا ۔ اتنی دیر میں یعنی ایک سال قبل میاں نواز شریف نے کروڑوں روپے لگا کر نندی پور کا افتتاح بھی کر دیا۔ میاں صاحب اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے نندی پور پاور پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ڈی ایم جی افسر محمد محمود کو ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا۔ ایک اور ستارۂ امتیاز بہاولپور سولر پروجیکٹ کے سربراہ کو دیا گیا ۔ لاہور میٹرو بس کے پروجیکٹ سربراہ ڈی ایم جی افسر احد چیمہ کو بھی ستارۂ امتیاز ملا۔ جبکہ پنڈی اسلام آباد میٹرو بس کے حوالے سے کمشنر پنڈی کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ اب ایک سال بعد میاں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ نندی پور واقعی ایک سکینڈل تھا‘ اس کی ایک اور انکوائری کرائیں جب کہ شہباز شریف بہاولپور سولر پلانٹ کی کارکردگی پر پریشان ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ سب کو لٹکایا جائے۔ 
اب بتائیں کس کس کو لٹکائیں؟ ویسے اگر ان ڈی ایم جی افسران نے یہ مطالبہ کر دیا کہ پہلے ان کو الٹا لٹکایا جائے جنہوں نے چین جا کر نندی پور پروجیکٹ کو بائیس سے ستاون ارب روپے تک پہنچا دیا اور پھر ستاون سے چوراسی ارب کیا اور بہترین کارکردگی پر ستارۂ امتیاز بھی بانٹے... پھر ہم کیا کریں گے ؟ 
ویسے اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ کل کلاں کو جب یہاں شہبازشریف کا جوشِ خطابت کچھ دھیما پڑے گا تو وہ پاکستانی تاریخ کے ان بدترین سکینڈلز کے مرکزی کرداروں سے اسی طرح معذرت کر لیں‘ جیسے انہوں نے آصف زرداری سے کرلی ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved