سب سے چھوٹی تھی اور اسی حساب سے لاڈلی!
وقت دریا کی طرح ہے۔ پہاڑیوں سے نکلنے والا چشمہ شور مچاتا ہے۔ جھاگ پیدا کرتا ہے۔ کناروں سے ٹکراتا ہے مگر جب نیچے میدانوں میں پہنچتا ہے اور دریا کہلاتا ہے تو بالکل پُرسکون! گھن گرج سب پیچھے چھوڑ آتا ہے۔ یہی حال ماں باپ کا ہے۔ پہلے پیدا ہونے والے بچے‘ ماں باپ کی جوانی کا سامنا کرتے ہیں۔ گھن گرج‘ غصہ‘ رعب اور کبھی کبھی پٹائی بھی۔ سب سے چھوٹے بچے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ماں باپ پہاڑیوں سے اُتر کر میدان میں اُتر چکے ہوتے ہیں‘ دل نرم ہو چکے ہوتے ہیں‘ قوتِ برداشت بڑھ چکی ہوتی ہے؛ چنانچہ بڑے بہن بھائیوں کے مقابلے میں چھوٹے ''مراعات یافتہ طبقہ‘‘ کا روپ دھار لیتے ہیں‘ نقصان یہ ہوتا ہے کہ پڑھائی کے حوالے سے بھی ماں باپ سست ہو چکے ہوتے ہیں‘ بڑے بچوں پر محنت کرنے والے اور خود پڑھانے والے والدین‘ چھوٹے بچوں کے تعلیمی معاملات سے لاپروا نہیں تو بے نیاز ضرور ہو جاتے ہیں۔
رضیہ سب سے چھوٹی تھی۔ اسی حساب سے لاڈلی بھی! خاص طور پر باپ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت دوستانہ اور فرینک! بڑی بہن ماہ وش جن باتوں پر ٹوکی جاتی تھی اُن پر رضیہ کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ تماشا اُس وقت دلچسپ ہوتا تھا جب کسی بات پر ماں یا باپ رضیہ کو تنبیہ کرتے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تب ماہ وش مسکراتے ہوئے‘ آنکھوں میں شرارت بھر کے‘ ایک میٹھا سا طعنہ لڑھکا دیتی۔ ''کیے کا پھل‘‘ ہوتے ہوتے یہ چنچل محاورہ ہمارے گھر میں روز مرہ کا حصہ بن گیا۔
تاجر جو کچھ اس ریاست کے ساتھ کر رہے ہیں‘ اُسے دیکھ کر یہی کہنے کو دل چاہ رہا ہے۔ ''کیے کا پھل‘‘۔ گزشتہ نصف صدی سے جتنے ناز نخرے پاکستان کی ریاست نے تاجروں کے اٹھائے ہیں اور جتنا لاڈلا اس طبقے کو رکھا ہے‘ اس کا حساب ہے نہ شمار! یہ کہنے میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ تاجروں کا طبقہ شترِ بے مہار رہا ہے۔ جتنی من مانی اس گروہ نے کی ہے اتنی سیاست دانوں نے کی ہے نہ جرنیلوں نے‘ نوکر شاہی نے نہ ڈاکٹروں‘ وکیلوں اور انجینئروں نے! آپ تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے‘ سیاست دان ہر وقت کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ میاں نوازشریف سے لے کر چودھری شجاعت تک۔ ایم این ایز سے لے کر صوبوں کے منتخب نمائندوں تک‘ ہر ایک کا دیا ہوا یا نہ دیا ہوا ٹیکس ٹی وی پر اچھالا جاتا ہے‘ اخبارات میں لکھا جاتا ہے۔ عوام سے لے کر نیب اور ایف آئی اے تک ہر کوئی سیاست دانوں کا تعاقب کر رہا ہے۔ فوجی افسروں سے ایک ایک پائی ٹیکس کی وصول کی جاتی ہے۔ یہی حال بیوروکریسی کا ہے۔ وکیل‘ ڈاکٹر‘ پٹواری‘ تھانیدار‘ ہر کوئی جلد یا بدیر قانون کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ اگر کوئی گروہ مادر پدر آزاد ہے تو وہ تاجروں کا گروہ ہے۔ ریاست ان سے رعایت برتتی ہے۔ تیس سال سے لاہور کی بزنس فیملی برسرِ اقتدار ہے۔ پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ یہ فیملی تاجر حضرات کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے اس لیے کہ دونوں کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے۔
لیکن جلد یا بدیر ریاست کو بیدار ہونا پڑتا ہے۔ حکومت نون لیگ کی ہو تب بھی قاعدے قانون تک بات آ ہی جاتی ہے۔ آخر تاجروں پر کون سا ظلم کردیا گیا ہے؟ اگر آپ ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اگر آپ گوشوارے جمع کرا رہے ہیں تو وِد ہولڈنگ ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیے جائیں گے۔ کیا آپ جنگل میں رہ رہے ہیں کہ ٹیکس بھی نہیں دینا‘ گوشوارے بھی نہیں جمع کرانے‘ دستاویزات سے بھی دور بھاگنا ہے۔ ریاست اگر اپنی رٹ بحال کرنا چاہتی ہے تو آپ کبھی شٹر ڈائون ہڑتال کرتے ہیں اور کبھی لانگ مارچ کی دھمکی دیتے ہیں۔ آپ قانون کی دھجیاں اُڑانے کی آزادی مانگتے ہیں۔ یہ آزادی نہ ملے تو آپ شاہراہیں بند کرنے اور پارلیمنٹ کا گھیرائو کرنے کے پروگرام بناتے ہیں۔ خدا کا خوف کیجیے! آپ لوگ اپنے بچوں کے پیٹ میں کس قسم کی چوگ ڈالنا چاہتے ہیں۔
تاجروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹیکس حکومت کو نہیں‘ ریاست کو ادا کیا جاتا ہے۔ ایف بی آر مسلم لیگ نون کا نہیں‘ ریاست پاکستان کا ادارہ ہے۔ طارق باجوہ حکومت کا نہیں‘ ریاست کا ملازم ہے۔ اسحاق ڈار کو اسحاق ڈرون کہہ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ آپ لوگوں کی اکثریت متشرع ہے۔ کیا کلام پاک کے اس حکم کا اطلاق آپ پر نہیں ہوتا کہ لوگوں کے نام تمسخر اور تحقیر سے نہ رکھو۔
آل پاکستان انجمن تاجران کے عہدیداروں سے کوئی پوچھے کہ آج آپ ریاست پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ آپ کی ساری تنظیمیں آناً فاناً متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہیں‘ مگر آپ اُس وقت کہاں چھپے ہوتے ہیں جب تاجر خوراک میں‘ دوائوں میں‘ یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ میں بے شرمی اور بے رحمی کی حد تک ملاوٹ کرتے ہیں۔ کیا گدھے کا گوشت بیچنے والے تاجر نہیں؟
ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات لکھ رہے ہیں کہ اس ملک کے تاجر چھ ایسے افعال کا کھلم کھلا ارتکاب کر رہے ہیں جنہیں مذہب‘ معاشرہ اور قانون صرف اور صرف جرائم کا نام دے سکتا ہے۔ ہم یہ بات بھی ٹھوک بجا کر کہہ رہے ہیں کہ جو کوئی اِن چھ جرائم کا یا ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب کر رہا ہے اس کی آمدنی حلال نہیں رہ سکتی۔ خواہ وہ پانچ کے بجائے پچاس نمازیں پڑھ ڈالے سال میں درجنوں عمرے کر لے اور چندے کی صندوقڑیاں لبالب بھر دے۔ یہ چھ جرائم مندرجہ ذیل ہیں: اول‘ تاجر ٹیکس نہیں ادا کرتے (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی گروہ میں سو فیصد لوگ مجرم نہیں ہوتے۔ ہم جب ''تاجر‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد تاجروں کی اکثریت ہے۔ اس گروہ میں یقینا ایسے خوش بخت ارکان موجود ہیں جو ان جرائم سے بچے ہوئے ہیں‘ ہم ان کی قدر کرتے ہیں)۔ بدقسمتی سے ان تاجروں سے چندہ اکٹھا کرنے والی مذہبی قوتیں انہیں یہ سبق پڑھاتی ہیں کہ ٹیکس اسلام کی رُو سے جائز نہیں۔ حالانکہ ریاست کے قوانین پر عمل پیرا ہونا دیانت داری کا اولین تقاضا ہے۔ تاجر حضرات محکمہ ٹیکس کے اہلکاروں اور افسروں کو کرپٹ کرتے ہیں حساب کتاب کے رجسٹر دُہرے دُہرے رکھتے ہیں اور ہر ممکن حیلہ ٹیکس سے بچنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ دوم‘ تاجر برادری ملاوٹ کے بھیانک جرم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ گوشت سے لے کر دودھ تک‘ مرچوں سے لے کر بیسن تک‘ آٹے سے لے کر شہد تک سر پر لگانے والے شیمپو سے لے کر خواتین کے میک اپ کے سامان تک‘ ہر شے میں ملاوٹ یہ تاجر ہی تو کر رہے ہیں۔ اتنی ملاوٹ شاید ہی کسی اور مسلمان ملک میں کی جا رہی ہو! سوم‘ اکثریت ان کی شے بیچتے وقت گاہگ کو شے کے نقص سے آگاہ نہیں کرتی۔ یہ جرم اتنا عام ہے کہ پاکستان کا ہر صارف اس پر گواہی دیتا ہے۔ ان تاجروں کی کوشش ہوتی ہے کہ خراب مال ٹھکانے لگاتے رہیں۔ ان کا تکیۂ کلام ہے کہ ''کوئی شکایت آج تک نہیں آئی‘‘! ایک تو پاکستان میں شکایت اور احتجاج کرنے کا رواج ہی نہیں‘ دوسرے‘ کم ہی تاجر ایسے ہیں جو شکایت کرنے والے کی دادرسی کریں! چہارم‘ ان کی اکثریت جھوٹ اور وعدہ خلافی کا ارتکاب کرتی ہے اور رات دن کرتی ہے۔ یہ وقت پر مال نہیں دیتے‘ پھیرے لگواتے ہیں‘ شادی بیاہ کے ملبوسات اور زیورات کا اس ملک میں کروڑوں اربوں کا بزنس ہے۔ یہ سارا کام‘ زیادہ تر‘ خواتین کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ ان خواتین کو جس طرح یہ لوگ زچ کرتے ہیں‘ اس کا ہم میں سے ہر شخص گواہ ہے۔ پچانوے فی صد تاجر ان خواتین کو کئی کئی پھیرے ڈلواتے ہیں‘ وعدہ خلافی کرتے ہیں‘ پھر یہ خواتین اپنے مردوں کو لانے پر مجبور ہو جاتی ہیں جن سے یہ تاجر معذرت کرنے کے بجائے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ مکان بنوانے والے بھی گواہی دیں گے کہ اینٹوں کی سپلائی ہو یا سیمنٹ کی یا لوہے کی‘ یا باتھ روم کے سامان کی‘ طے شدہ وقت کا احترام بالکل نہیں کیا جاتا۔ پنجم‘ ان کی ''ری فنڈ‘‘ پالیسی کا کہیں وجود ہی نہیں۔ پوری مہذب دنیا میں آپ خریدا ہوا مال واپس کر سکتے ہیں اور تبدیل بھی۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں تاجروں نے دس دس فٹ لمبے بینر لگائے ہوتے ہیں جن پر صارفین کو کمال بے شرمی سے بتایا جاتا ہے کہ ''خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہوگا‘‘۔ یہ حق صارف کو شریعت بھی دیتی ہے‘ قانون بھی اور تہذیب بھی! ششم! اس ملک کے تاجروں کا سب سے زیادہ بھیانک جرم ناجائز تجاوزات ہیں۔ یہ مسئلہ رہائشی گھروں کا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ننانوے فی صد تجاوزات بازاروں میں ہیں۔ فٹ پاتھوں پر تاجروں نے قبضے کیے ہوئے ہیں‘ سڑک اور دکان کے درمیان جس زمین کے یہ مالک نہیں‘ اس پر ان کا سامان دھڑلے سے پڑا ہوا ہے۔ کبھی ریڑھی والوں سے رقم بٹورتے ہیں اور کبھی سٹال لگانے والے سے۔ دارالحکومت کے جی ٹین سیکٹر میں پورا پارکنگ گرائونڈ ناجائز سٹالوں سے بھرا ہے‘ سامنے والا دکاندار سٹال کے پیسے لیتا ہے۔ متعلقہ سرکاری محکمے کے اہلکار اس جرم میں برابر کے شریک ہیں‘ پورے ملک میں شاہراہیں ان تاجروں کے ناروا تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک کے لیے تنگ پڑ رہی ہیں۔ زمین سرکاری ہو یا کسی فرد کی‘ اس پر ناجائز قبضہ کر کے حلال آمدنی کا دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو خوفِ خدا سے بے نیاز ہو۔
تاہم سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اپنے اعصاب مضبوط رکھ سکے گی؟ حکومت پر لازم ہے کہ ''اب یا کبھی نہیں‘‘ کو ذہن میں رکھے۔ قوم حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔