تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     11-09-2015

دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہو؟

چودہ سال پہلے نیویارک میں دہشت گردی کی کارروائی نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک دنیا دہشت گردی کے عفریت سے لڑرہی ہے لیکن کامیابی ندارد۔فاشزم کی طرح دہشت گردی بھی تباہ کن نظریہ ہے اورجب تک اس کی وجوہ کو جڑسے نہ اکھاڑا جائے، یہ ختم نہیں ہوتی۔ صرف فوجی ایکشن سے اس کے خاتمے کی کوشش تاحال دنیا میں کہیںبھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی ایسے مسائل کو ختم کرنے کے وحشیانہ عسکری طاقت استعمال کی گئی تو اس کے منفی نتائج برآمدہوئے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر دنیاکے کسی حصے میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے صرف بندوق کی طاقت استعمال کی گئی تو دنیا کے دیگر حصے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ یہ ایک ایسا ہائیڈرا (ایک دیومالائی سمندری عفریت )ہے جس کا ایک سر کٹنے سے بہت سے سر نمودار ہوجاتے ہیں۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے دنیا بھر کے معاشروں میں انسانی اقدار کااحیاناگزیر ہے۔ صرف اسی طرح اس جن کو بوتل میں واپس ڈالا جاسکتا ہے۔ طاقت کے اندھے استعمال اور لوگوں کو قانونی حقوق سے محروم کرنے سے دنیا بھر میں مزید دہشت گردگروہ ابھر رہے ہیں۔ پیشگی حملے (pre-emptive strikes) کرنے کاتصور صرف ایک عارضی حل ہے، اس سے معاملات مزید خرابی کی طرف بڑھتے ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ضروی ہے کہ دہشت گردی کے لیے دیرپا حل کے لیے مل کر بیٹھیں اور ایک جامع حکمت ِعملی وضع کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیںکہ فساد پھیلانے والے عناصر کو کوئی حکومت سہارادے گی اور نہ ہی کھلی یا پوشیدہ حمایت کرے گی۔ ایسے عناصر کو عالمی سطح پر وارننگ دی جائے اور اگر وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے تباہی کے راستے پر گامزن رہیں تو پھر ان کے ساتھ سختی سے نمٹاجائے۔ اُن بتایا دیا جائے کہ اب اُنہیں دنیا کے کسی معاشرے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 
اس حوالے سے سب سے اہم سوال ، جو نائن الیون کے بعد زیادہ شدت سے پوچھا جارہا ہے، کہ کیا ہم آزادی سے خائف ہیں اور کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں آزاد ہوں؟نائن الیون کوہونے والی دہشت گردی کو آزادی اور جمہوریت پر حملہ قراردیا گیا، لیکن دوسری طرف اس کے ردِعمل میں اُن ممالک نے بھی انتہائی رویے اختیار کرلیے جو آزادی کے چمپئن کہلاتے ہیں۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد وجود میں آنے والی یونی پولر دنیا میںمغربی جمہوریتوں کی ذمہ داری میں کئی گنااضافہ ہوگیا۔ اُنھوں نے دنیا کو احساس دلانا تھا کہ اُن کے ہاتھ میں آنے والی طاقت کا منفی استعمال نہیں ہوگا اور وہ باقی دنیا کے لیے جابرانہ رویے نہیں اپنائیں گے۔ ایک طویل جدوجہد اور اس کی بھاری قیمت چکانے کے بعد دنیا معاشی انصاف، جمہوریت اور مذہبی اور شخصی آزادیوں سے آشنا ہوئی تھی، بڑی مشکل سے رنگ اور نسل کے امتیازات مٹتے دکھائی دیے تھے، لیکن اس دوران بہت سے طاقتور گروہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے دنیا کو تاریک دور کی طرف دھکیلنے کے درپے تھے۔ اُن کی دنیا انسانی حقوق، مساوات اور مذہبی آزادی سے ناآشنا تھی۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں یہ بحث جاری ہے کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے تصور نے کہیں شخصی آزادی اورسول لبرٹی کو کچل کے تو نہیں رکھ دیا۔ 
دہشت گردی دراصل کچھ مخصوص ریاستوں میں فاشزم کے خلاف پیدا ہونے والا رد ِعمل تھا۔ فاشزم ، انتہا پسندی، بنیادی پرستی، عدم برداشت، دقیانوسی سوچ ور دہشت گردی(اس میں ریاستی دہشت گردی بھی شامل ہے)کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا اور نہ ہی یہ تنہائی میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ایک معاشرے میں دکھائی دینے والی معاشی ناہمواری ہو یا عالمگیر سطح پر، اور مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کے لیے کام کرنے والے تحریکیں(جن کے دراصل سیاسی مقاصد ہوتے ہیں) دراصل طاقتور عناصر کی طرف سے کمزوروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے طریقے ہیں۔ ان کی وجہ سے دنیا میں افراتفری اور انتشار کا پھیلائو باعث ِحیرت نہیں ہونا چاہیے۔ 
طاقتور حلقوں میں منطق اور عملی رویوں کے فقدان کی وجہ سے دنیا میں وسائل کے باوجود غربت اور مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ بعض اوقات انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ اتنی سائنسی اور مادی ترقی کے باوجود انسان خوشی سے محروم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوش اور انسانی جذبات طاقتور حلقوں نے اپنی گرفت میں لے لیے ہیں۔ کمزور طبقے مایوسی اور خلفشار کا شکار ہوکر انتہائی اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کی مایوسی کو بھی کچھ حلقے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں ، لیکن اُنہیں اس بات کی خبر نہیں ہوتی۔ اس طرح ہم ایک انتہائی پیچیدہ صورت ِحال سے دوچارہیں۔ دہشت گردی کو فروغ دینے اور اس کا خاتمہ کرنے میں طاقتور گروہوں کا مفاد وابستہ ہے۔ 
اگر ہم اس صورت ِحال میں تبدیلی چاہتے ہیں تواس صورت ِحال کاادراک کرنا ہوگا۔ دنیا کے انسانوں کا ایک بڑا حصہ وسائل سے محروم ہونے کے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی ہے۔ طاقتور افراد چاہتے ہیں کہ دنیا کو اپنے مرضی سے اس طرح چلائیں کہ حالات جو بھی رخ اختیار کریں، اُن کے ہاتھ میں ہی حتمی کنٹرول رہے۔ مظلوم اور کمزور افراد اس کے خلاف مزاحمت اور ردعملِ کااظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ردعمل شدید بھی ہوتا ہے۔ چونکہ دنیا میں بیمار ذہنیت ، مایوسی اور انتہاپسندانہ سوچ غالب ہے ، اس لیے یہ رد ِعمل دہشت گردی کی شکل اختیار لیتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس سے پھر عام افراد کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ 
اس وقت دنیا بھر کے انسان ریاستی اتھارٹی کے سامنے خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔ طاقتورادارے ریاست کا تحفظ کرتے ہیں لیکن عام افراد کی فلاح پس ِ منظر میں چلی گئی ہے۔ یہ صور ت ِحال گزشتہ صدی میں نازی جرمنی کی یاد دلاتی ہے جب معاشی قوت کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے جرمنی اور دنیا کو ہولناک جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ آج کے حکمران یقینا نازی پارٹی کے آمر نہیں لیکن ریاستی سکیورٹی کے نام پر فاشسٹ رویے اپنائے جارہے ہیں۔ عالمی سطح پر اس بات پر اظہار ہونا شروع ہوگیا ہے کہ یہ صورت ِحال دنیا کو گرائونڈ زیرو پر پہنچادے گی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنائی گئی عسکری حکمت ِعملی اس معاملے کا انسانی پہلو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ آزادی اور جمہوریت لازم وملزوم ہیں۔ خیالات کا اظہار ایک طاقت ہے۔ ریاست اور میڈیا اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں ایک مخصوص سوچ کو توانا کرتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اپنی سوچ نہیں رکھتا تو جمہوریت کا کیا مطلب؟ اگر حکومتوں نے ہی عوام کی سوچ اپنی مرضی سے تشکیل دینی ہے تو فاشزم کسے کہتے ہیں؟ یقینا یہ جمہوریت نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے جمہوریت کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت سوچ کو کنٹرول کرتے ہوئے جمہوریت کے لبادے میں فاشزم کو توانا کیا جارہا ہے۔ تو کیا فاشزم دہشت گردی کا مقابلہ کرے گا۔ اس میں جیت کسی کی بھی ہو، جمہوریت کی فتح ہرگز نہیںہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved