تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     11-09-2015

کوئی معیاری ریسٹورنٹ دکھائیں تو مانیں!

غیر معیاری اور ناقص کھانے پیش کرنے والے ریسٹورنٹ اور ہوٹل ڈھونڈنا اور انہیں جرمانے کرنا کون سا بڑا کام ہے۔ بات تو تب ہوتی جب کوئی چھاپہ مار ٹیم کوئی ایسا ہوٹل‘ کوئی ایسا ریسٹورنٹ ڈھونڈ کر سامنے لاتی جس کا کھانا واقعی معیاری ہو ‘جس کا کچن کاکروچوں سے پاک ہو اور جہاں حفظان صحت کے اصولوں کا پورا خیال رکھا جاتا ہو۔ کم از کم اس ملک میں ایسی کوئی جگہ پائی نہیں جاتی اسی لئے اب تک جتنے بھی چھاپے مارے گئے ہر جگہ صفائی کے انتظامات ناقص اور کھانا غیرمعیاری نکلا۔ ان میں چھوٹے ریسٹورنٹ بھی تھے اور بڑے فائیو سٹار ہوٹل بھی۔ حکمران اگر واقعی مخلص ہوتے تو سب سے پہلے وہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران کو حوالات میں ڈال کر پوچھتے کہ اس سے پہلے وہ کہاں سوئے ہوئے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان تمام افسروں کو اپنے اپنے زون میں موجود ہوٹلوں اور بازاروں میں کھانے پینے کی دکانوں کے معیار کا علم نہ ہو ۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ یہ ان سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہوں گے۔ تو کیا یہ صرف خودنمائی ہے۔ کیا چند ہفتے چھاپہ مار مہم کے بعد سلسلہ وہیں واپس آ جائے گا یا پھر تمام ہوٹل اور چھوٹے بڑے ریسٹورنٹ اپنا معیار ہمیشہ کے لئے درست کر لیں گے‘ اس کا تمام تر انحصار حکمرانوں کی نیت اور پلان پر ہے۔ ایک بات سب کو کھٹک رہی ہے کہ نون لیگ کی حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرتی جس میں اسے فائدہ نہ پہنچے۔ یہ فائدہ میڈیا میں خودنمائی کی صورت میں ہو گایا پھر اس سے حکومتی خاندان کے سرکردہ افراد کے ذاتی کاروباروں کو
بڑھاوا ملتا ہو گا ۔ آپ خود سوچیں کہ اڑھائی سال ہونے کو آ گئے حکومت نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس سے عوام کو واقعی ریلیف کا احساس ہوا ہو۔ بات ہمیشہ میٹرو بس سے شروع ہوتی ہے اور میٹرو پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ روزگار‘ صفائی جیسے ایشوز کی حکمرانوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ یہ لاہور میں ڈیڑھ کھرب سے اورنج ٹرین چلانے کا منصوبہ شروع کردیں گے لیکن سرکاری ہسپتالوں کو سی ٹی سکین مشین دینے کیلئے ان کے پاس بیس لاکھ روپے موجود نہیں۔ یہ درست ہے کہ جدید ٹرانسپورٹ کے منصوبے ہر گھر اور ہر معاشرے کی ضرورت ہوتے ہیں لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک گھر کا سربراہ گھر میں ڈیڑھ کروڑ کی لینڈ کروزر لا کر کھڑی کر دے لیکن نہ اس کے پاس اس میں تیل ڈلوانے کے پیسے ہوں نہ بچوں کے علاج معالجے اور تعلیم کے۔ باقی شہروں کو چھوڑیں صرف لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ نہ اس صوبے میں صحت کا کوئی وزیر ہے نہ محکمہ۔ کسی سرکاری ہسپتال میں سی ٹی سکین مشین ناکارہ پڑی ہے تو کہیں ایکسرے مشین خراب ہے۔ آئی سی یوز میں آکسیجن میسر ہے نہ ابتدائی مرہم پٹی کے انتظامات پھر بھی حکمران خاندان خود کو عوام کا خادم کہلانے پر بضدہے۔ 
گزشتہ کئی ہفتوں سے گدھوں اور دیگر حرام جانوروں کے گوشت کی خبریں آ رہی ہیں ۔ اس کے دو تین اثرات ہو رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگ ہوٹلوں وغیرہ سے کھانے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔ دوسرا وہ گائے اور بکرے کے گوشت کو چھوڑ کر مرغی کی طرف آ رہے ہیں کہ چلو مرغی تو اپنے سامنے زندہ ذبح کی جاتی ہے لہٰذا اب اس پر ہی گزارا بہتر ہے اور یہی حکمران چاہتے ہیں۔ اس بار خصوصی منصوبہ بندی کے
تحت کام ڈالا جا رہا ہے اور وہ بھی میڈیا کو استعمال میں لا کر۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گدھوں ‘سور اور دیگر جانوروں کے گوشت کی خبریں تیزی سے پھیلائی جا رہی ہیں تاکہ لوگ ہر قسم کا گوشت چھوڑ کر صرف اور صرف مرغی کھانا شروع کر دیں۔ صرف لاہور میں روزانہ دس سے پندرہ ہزار بکرے کھائے جاتے ہیں اور اس سے دوگنی تعداد میں بڑا گوشت۔خود سوچیں جب یہ سارے لوگ یکدم
مرغی کھانا شروع کر دیں گے تو معاشیات کے سادہ اصول کے مطابق مرغی کی طلب تو یکدم کئی گنا بڑھ جائے گی جس کے ساتھ ہی اس کی قیمت بھی آسمان کی جانب لپکے گی۔ یہ بکرے سے زیادہ نہیں تو اس کے قریب قریب فی کلو کے حساب سے پہنچ جائے گی۔ اس طرح وہ لوگ جو کبھی کبھی مرغی کھا لیتے تھے‘ وہ مرغی کھانے سے بھی جائیں گے جبکہ وہ حکومتی سرکردہ لوگ جو پولٹری کے کاروبار میں ہیں‘ ان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ایک ایک مرغی ان کے لئے سونے کا انڈہ ثابت ہو گی اور وہ بیٹھے بٹھائے اربوں کما لیں گے۔ یہ سب پنجاب میں ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں کیا ہوتا ہے‘ وہ بھی سن لیں۔
کوئی دو ماہ قبل جولائی میں خیبر پی کے میں ٹریفک پولیس کے ایک خصوصی ونگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس فورس کی ذمہ داری تھی کہ وہ صرف اور صرف سرکاری اور بڑی گاڑیوں کو روکے گی اور کالے شیشے او ر دیگر خلاف ورزیوں پر موقع پر چالان کرے گی۔ اس فورس نے پہلے ایک ماہ میں بارہ سو چالان کئے۔ ان میں نو سو سے زائد سرکاری گاڑیوں کے چالان تھے اور تین سو گاڑیوں میں مرسڈیز اور لینڈ کروزر شامل تھیں۔ عجیب بات ہے کہ ان میں سے کسی نے ٹریفک پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی‘ نہ ہی اوپر سے فون کروایا اور نہ ہی وردی اتروانے کی دھمکی دی یا کوشش کی۔ بظاہر یہ چھوٹی سی کاوش ہے مگر اس کے اثرات بہت وسیع اور دیرپا ہیں۔ ایسے کاموں سے عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر قانون کی خلاف ورزی پر عام لوگوں کا چالان ہو سکتا ہے تو کوئی وزیر اور کوئی مشیر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔اسی طرح جب سابق صوبائی وزیر ضیا اللہ آفریدی کو حراست میں لیا گیا تو مخالف بھی دنگ رہ گئے۔ اب یاد کریں کہ پنجاب میں کیا ہوا تھا؟پنجاب کے وزیرتعلیم رانا مشہود کی پیسے لینے کی مبینہ ویڈیو سامنے آئی تو انہیں گرفتار کرنے کی بجائے کمیٹی بنا کر بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ پنجاب کی ٹریفک پولیس بھی آپ کے سامنے ہے جنہیں حکم ہے کہ انہوں نے روزانہ پچاس سے سو فی کس چالان کرنے ہیں‘ چنگ چی رکشے‘ موٹر سائیکل اور آٹھ سو سی سی گاڑیوں کو ہدف پر رکھنا ہے کیونکہ ان کی کوئی سفارش ہوتی ہے نہ رعب دبدبہ۔ یہ ٹریفک وارڈنز سے تھپڑ بھی کھاتے ہیں ‘ سارا دن لائن میں لگ کر چالان بھی بھرتے ہیں اور ایک دن کی روزی روٹی بھی گنواتے ہیں پھر بھی انہیں یہ نعرہ لگانے کو کہا جاتا ہے کہ ‘قدم بڑھائو نواز شریف ‘ہم تمہارے ساتھ ہیں۔کل نون لیگ کے رہنما طلال چودھری ٹی وی پر ببانگ دہل کہہ رہے تھے کہ ابھی دو بھائیوں کی حکومت ہے اور مستقبل میں ایک بھائی اور ایک بہن حکمران ہوں گے۔ طلال چودھری کو پتہ چل چکا ہے کہ نیب کراچی کے بعد پنجاب کا رُخ کر چکی ہے‘ کل سندھ میں ایم پی اے سمیت پیپلزپارٹی کے تین افراد کو پانچ سال تک قید کی سزا سنا دی گئی ہے‘ اب پنجاب کے بڑے مہرے گرنے والے ہیں‘ طلال چودھری نے اسی لئے پارٹی کی آئندہ قیادت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
آخر میں وہی چیلنج کہ حکمران کوئی معیاری‘صاف ستھرا اور صحت بخش کھانے فراہم کرنے والا ہوٹل یا ریسٹورنٹ پکڑکے دکھائیں تو مانیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved