تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     12-09-2015

سرخ قالین ندارد

بالآخر سعودی عرب کے ضعیف العمر نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز امریکہ تشریف لائے‘ مگر بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں ان کا استقبال کرنے کے لیے حسبِ روایت دیدہ و دل فرش راہ نہیں کیے۔ یہ دن ہی کچھ ایسا تھا۔ تین سال کے ایک شامی بچے نے ترکیہ کے ساحل پر جان دے کر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ امریکی صدر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی توثیق کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ شام‘ عراق اور افغانستان کی جنگوں سے اجڑنے والے لاکھوں لوگ ربڑ کی نا قابل اعتبار کشتیوں کو بحیرہ روم میں اتار کر اور کانٹے دار تاروں سے گزر کر مغربی یورپ میں پناہ مانگ رہے تھے‘ اور اس صورت حال نے امریکہ کے اتحادی خطے کو دولخت کر دیا تھا۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر آربن پناہ گیروں کے مخالف ہیں اور مسیحی اقدار کے دفاع میں ایک نئی صلیبی جنگ شروع کرنے پر تیار نظر آتے ہیں‘ جب کہ جرمنی کی چانسلر انجلا مرکل نے واضح کیا ہے کہ ہجرت کے بنیادی حق پر تعداد کی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ دریں اثنا پوپ فرانسس نے یورپ میں اپنے ماننے والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلا امتیازِ مذہب و ملت پناہ کے ہر درخواست گزار کو اپنے ہاں جگہ دیں۔ یورپی کمیشن کے صدر بیچ بچاؤ کرا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک کوٹہ سسٹم تجویز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار پناہ گزینوں کو سارے یورپ میں پھیلا دیا جائے تاکہ یونان‘ اٹلی اور ہنگری پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ ان میں سے آدھے جرمنی‘ فرانس اور سپین قبول کریں گے۔ امریکہ تو ہے ہی مذہبی اور اقتصادی پناہ گزینوں کا وطن۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سینیٹ کے ارکان کو بتایا ہے کہ یہ ملک اگلے سال مزید پانچ ہزار افراد کو آباد کرے گا۔ امریکہ ہر سال ستر سے پچھتر ہزار مہاجروں کو‘ جو جبر و استبداد‘ آمریت‘ جنگ اور مفلسی سے بھاگ کر آتے ہیں‘ ریفیوجی سٹیٹس عطا کرتا ہے۔
ڈیموکریٹک صدر اوباما اپنی باری لے چکے۔ اب انہیں کوئی الیکشن نہیں لڑنا ہے۔ اگر انہیں کسی بات کی فکر ہے تو یہ ان کی legacy ہے‘ جسے ہم ورثہ کہیں گے۔ صدر نے اپنے ورثے کو سنوارنے کی خاطر اسرائیلی حکومت کو ناراض کیا‘ یہود کے زیر اثر امریکی رائے دہندگان کو پریشان کیا‘ ایران کو اگلے دس سال تک ایٹم بم نہ بنانے پر آمادہ کیا‘ اور وہ اس امر کا بھی اہتمام کر رہے ہیں کہ جب کانگرس اس عہدنامے کے خلاف ایک قرارداد منظور کرے‘ تو وہ اسے ویٹو کر دیں‘ جسے قانون ساز ادارہ رد نہ کر سکے۔ اوباما نے اپنے مہمانوں کے پاؤں تلے سے سرخ قالین یہ کہہ کر کھینچا کہ امریکہ کے عرب اتحادیوں کو سب سے بڑاخطرہ اپنے دیرینہ دشمن ایران سے نہیں‘ بلکہ ان کے اپنے نوجوانوں کی جانب سے ہے‘ جو حکمرانی کی پابندیاں جھیل رہے ہیں۔ جولائی میں ایک اخباری انٹرویو میں امریکی صدر اپنی نکتہ چینی کو ایک قدم آگے لے گئے اور بولے تھے: میں مشرق وسطیٰ کے بچوں کے لئے خون کے آنسو روتا ہوں۔ نہ صرف ان کے لئے جنہیں ان کے گھروں سے اجاڑا جا رہا ہے‘ بلکہ عام ایرانی‘ سعودی یا کویتی نوجوانوں کے لئے بھی‘ جنہیں یورپ اور ایشیا کے بچوں کے برابر سہولتیں بھی میسر نہیں۔ اوباما کے خیالات سن کر سعودی بادشاہ کو جو چار ماہ قبل ہونے والی عرب (کیمپ ڈیوس) کانفرنس سے غیر حاضر تھے‘ خوشی نہیں ہوئی ہو گی۔
وائٹ ہاؤس کی میٹنگ میں بھی صدر نے ان موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کی جو سعودیوں کو عزیز ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ یمن میں سعودی مہم جوئی اور ایران سے اس کے ممکنہ تصادم کی بات کرتے‘ انہوں نے اس تشدد کا ذکر کیا‘ جس نے کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ''ہم یمن کے بارے میں اور وہاں ایک قابل کار حکومت کی بحالی کی تشویش میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔ بادشاہ اور صدر نے شام میں ایک ''ہولناک نزاع‘‘ داعش سے مغرب اور علاقے کے ملکوں کی لڑائی اور ایران کے ''نامحکمی عمل‘‘ کے توڑ پر بات چیت کی۔ صدر دراصل یہ جاننا چاہتے تھے کہ ایران سے مغربی معاہدے کے بعد سعودی عرب کہاں جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی غرض سے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اور سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کو ریاض بھیجا گیا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل جبیر نے بین السطور جواب دینے کی کوشش کی‘ جو زیادہ امید افزا نہیں، ''سعودی عرب کی بادشاہت ان یقین دہانیوں سے مطمئن ہے جو گزشتہ دو ماہ کے دوران اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورے کے دوران اسے ملی ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ دنیا کو مشرق وسطیٰ میں ایران کی ''مذموم سرگرمیوں‘‘ پر گہری نظر رکھنے کا موقع دے گا۔
ان ''مذموم‘‘ سرگرمیوں میں سے ایک‘ ممکنہ طور پر‘ پاکستان کے لئے ایک پائپ لائن کی تعمیر ہے‘ جس سے بھارت بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں ایران کو بمشکل 56 بلین ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ اگر ایران اس رقم کا بڑا حصہ اپنی فوج پر صرف کرتا ہے تو بھی امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کے دفاعی اخراجات کے پاسنگ بھی نہ ہو گا‘ جن کا دفاعی بجٹ ایران سے آٹھ گنا زیا دہ ہے۔ اوباما حکومت نے سعودی عرب کے ہاتھ اسلحے کی فروخت کا اعلان نہیں کیا۔ وہ سعودیوں پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ اپنی سپیشل فورسز کی تعمیر اور مہنگے جنگی طیاروں اور حملہ آور ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی بجائے خلیجی اتحادیوں سے خفیہ معلومات کی ساجھے داری اور تعاون پر زیادہ توجہ دیں۔
اس دن یمن سے زیادہ شام خبروں میں تھا۔ اوباما نے یمن پر سعودی حملے کی تعریف کی مگر ساتھ اس فکرمندی کا اظہار بھی کیا کہ اس خانہ جنگی سے وسیع پیمانے پر انسانی تباہی ہو رہی ہے۔ جب سعودیوں نے یمن کے باغیوں پر فوج کشی کی تو پاکستان بھی ایسے تضاد کا شکار ہوا تھا۔ غیر معمولی اندرونی اور بیرونی دباؤ کو رد کرتے ہوئے اسلام آباد نے سعودیوں اور یمنیوں کی لڑائی میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو دنیائے اسلام کی واحد جوہری طاقت ہونے کے ناتے ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا‘ اور اسے اتحاد بین المسلمین کا داعی رہنا چاہیے تھا۔ اگر ریاض اور واشنگٹن کے نزدیک ایران‘ درپردہ یمن کے باغیوں‘ لبنان کی حزب اللہ اور شام کی حکومت کی امداد کرتا ہے تو آخرکار نقصان کس کا ہو گا؟ جنگ میں جو گولی چلے گی وہ تو مسلک کا امتیاز نہیں کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ شام سے اجڑنے والے لوگ یورپ کیوں پہنچے؟ اور انہوں نے شمالی امریکہ کی آرزو کیوں کی؟ انہوں نے ایران یا پاکستان کا رخ کیوں نہ کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ داعش نے نوری المالکی اور بشارالاسد کے نزاع سے فائدہ اٹھایا اور دونوں کے ملکوں کی سرحدیں قلم زد کرکے ان کے بڑے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا۔ بشار نے اپنے ملک کا کباڑہ کر لیا لیکن وہ اقتدار چھوڑنے کے لئے تیار نہیں‘ جو اسے باپ کے ترکے میں ملا تھا۔ ہم نے ہمیشہ اپنے مذہب کو سلامتی کا دین کہا‘ پھر کیا وجہ ہے کہ زیا دہ خلفشار مسلم دنیا ہی میں ہے اور جب بھی اور جہاں کہیں سے بھی مسلمان بے گھر ہوتے ہیں وہ امن اور سکون کی خاطر مغربی ملکوں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ کہیں ان کا نظام ہم سے بہتر تو نہیں؟ پاکستان اور کئی دوسرے ترقی پذیر ملکوں میں کرپشن اور قانون آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ امید ہے کہ اس جدوجہد میں قانون کی فتح ہو گی مگر اس عمل میں کچھ وقت لگے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved