کتاب چھپ گئی۔ ''ڈان‘‘ میں اشتہار بھی آنا شروع ہو گیا لیکن کتاب ندارد۔ ایسا لگتا تھا کہ کتاب افضال احمد نے بیچنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی شاندار دکان میں صرف سجانے کے لیے شائع کی ہے۔ اُدھر میں‘ مستنصر حسین تارڑ اور اصغر ندیم سید کشور سے فونو فون ہو رہے ہیں کہ کتاب کہاں ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ابھی تو مجھے بھی نہیں ملی‘ تمہیں کہاں سے دوں۔ پھر خدا خدا کر کے افضال نے کتاب بھجوائی اور ساتھ شاید تلافیٔ مافات کے طور پر اختر وقار عظیم کی ''ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘ بھجوا دی۔ حق تو یہ ہے کہ کشور کی کتاب محض نشہ پورا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ ٹائٹل جو قدوس مرزا کا تیار کردہ ہے‘ کئی اوٹ پٹانگ چیزوں سے سجایا گیا ہے اور واقعی سج گیا ہے‘ کہیں پرس رکھا ہے‘ بلکہ رکھا کیا ہے‘ رکھے ہیں اور کئی اِدھر اُدھر کی چیزیں بھی۔ اس سے شُبہ گزرا کہ میری کتاب ''لاتنقید‘‘ کا ٹائٹل بھی موصوف ہی کا بنایا ہوا ہے جس میں ایک دو کرسیاں‘ بیڈ اور کتاب وغیرہ رکھے ہیں۔
اسے پڑھ کر وہی کیفیت ہوئی کہ ع
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
لیکن یہاں بیان بھی اسی پری وش کا تھا جو اپنے آپ ہی دو آتشہ ہو گیا تھا۔ میرا تو خیال ہے کہ ایسی کتابیں سب ادیبوں کو لکھنی چاہئیں کیونکہ اس طرح سب کی اپنی اپنی یادیں بھی تازہ ہونے لگتی ہیں۔ یہ تین تین چار چار صفحوں کو محیط یادنامے اپنے اختصار کی وجہ سے بھی ایک یادگار چیز بن گئے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ اب اس دنیا میں موجود نہیں‘ وہ بھی ساتھ ساتھ چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ جن ادیبوں کو اس کتاب میں یاد کیا گیا ہے‘ ان میں سے چند نام یہ ہیں:
احمد راہی‘ احسان دانش‘ خوشونت سنگھ‘ گلزار‘ کامنی کوشل‘ ظہیر کاشمیری‘ زُہرہ سہگل‘ ایف ایم حسین‘ منیر نیازی‘ خالد حسن‘ اقبال بانو‘ شمیم حنفی‘ ریشماں‘ یہ خاکسار‘ استاد دامن‘ کجن بیگم اور مہناز‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ شعیب ہاشمی‘ زبیر رضوی‘ انور سجاد‘ باقر مہدی‘ زاہد ڈار‘ مستنصر حسین تارڑ‘ خالدہ حسین‘ آصف فرخی‘ مُنو بھائی‘ اصغر ندیم سید‘ افضال احمد (پبلشر) عبدالحمید عدم‘ حجاب امتیاز علی‘ فہمیدہ ریاض‘ یوسف کامران‘ کیتھی اور پاشا۔
مضامین کے عنوان بجائے خود ایک طرفہ لُطف رکھتے ہیں‘ مثلاً احمد راہی۔ معصوم شخص اور بڑا شاعر‘ احسان دانش۔ شاعر مزدور‘ خوشونت سنگھ۔ بڑا انسان بڑا ادیب‘ گلزار۔ لفظوں کا جادوگر‘ مُسکاتی کامنی کوشل‘ ظہیر کاشمیری۔ پاکستانی انگریز‘ زہرہ سہگل۔ بیسویں صدی کی لاڈلی‘ ایف ایم حسین۔ دنیا کا بڑا مصور‘ منیر نیازی۔ خوشگوار آنکھوں کا متلاشی شاعر‘ خالد حسن۔ ذہین اور حسین شخص‘ شمیم حنفی کا دھیمہ لہجہ‘ ریشماں۔ نئیں لگدا دل میرا‘ ظفر اقبال۔ اپنی طرز کا شاعر‘ استاد دامن۔ بے مثل شخص اور شاعر‘ کجریاں اور خسرو گانے والی کجن بیگم اور مہناز‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ۔ تنقید کا معتبر نام‘ شعیب ہاشمی۔ خوش رو کی خوشبو چلی گئی‘ پرانی بات لکھنے والا ''زبیر رضوی‘‘ انور سجاد۔ میری سہیلی‘ باقر مہدی۔ احتجاجی شاعر اور نقاد‘ زاہد ڈار۔ کتاب محل‘ مستنصر حسین تارڑ۔ کم دوست رکھنے والا مقبول مصنف‘ خالدہ حسین۔ اپنے اسلوب کی اکلوتی افسانہ نگار‘ آصف فرخی۔ ہمہ جہت ادیب‘
منو بھائی کا جنگل اُداس ہے‘ اصغر ندیم سید کا دائرۂ زیست‘ افضال احمد۔ سنگِ میل کا آئینہ‘ عبدالحمید عدم۔ میکدے کی راہ پر چلنے والا‘ حجاب امتیاز علی اور ادا جعفری۔ ادب کی شہزادیاں‘ فہمیدہ ریاض۔ بے مثال شاعرہ‘ یوسف کامران۔ میرا دوست‘ میرا دشمن اور کیتھی اور پاشا۔ میرے ہمدم میرے دوست۔ یہ عنوانات اس لیے بھی دلچسپ ہیں کہ ان میں مضمون الیہ پر کشور ناہید کا کمنٹ بھی ہے‘ اور اس کے ساتھ اپنے تعلق اور محبت کی نوعیت بھی۔
اب اس میں سے چند اقتباسات:
استاد احسان دانش کے حوالے سے لکھتی ہیں: ایک دفعہ مشاعرے میں جانا تھا۔ اپنی شیروانی منگوائی‘ دیکھا تو بُراق سفید دھلی ہوئی تھی۔ دیکھتے ہی بولے: ''ارے شاعر مزدور کیا ایسی شیروانی پہن کر جائے گا‘‘۔ میز پر مٹی پڑی تھی‘ اس پر دو تین دفعہ جھٹکا دے کر میز پر مسلا‘ پھر کہا ''اب یہ شاعر مزدور کے پہننے کے لائق ہو گئی‘‘۔ شورش کاشمیری کا تخلص بھی احسان صاحب نے رکھا۔ چوک میں کھڑے ہو کر اور ترنم سے پڑھ کر دو دو آنے میں کتابچہ بیچا۔ ایک فیکٹری میں نکل کرنے کا کام کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کی تعمیر میں اینٹوں اور گارے کو پانی دینے کا کام کیا۔ اسی طرح شاہی قلعہ لاہور میں بھی مزدوری کی اور اینٹیں ڈھونے کا کام کیا۔ بڑے بڑے گھروں میں سفیدی کی۔
اُس زمانے میں گلی گلی کمیونسٹوں کی تلاش میں انٹیلی جنس والے ترقی پسندوں کی فہرستیں بناتے پھرتے تھے۔ ظہیر کاشمیری کے گھر پہنچے‘ پوچھا‘ کیوں آئے؟ کہا ''آپ کمیونسٹ ہیں؟‘‘ تڑپ کر بولے ''ارے میں تو ا ینٹی کمیونسٹ ہوں‘‘۔ ایجنسی والے بولے‘ ''ارے آپ مانے تو سہی‘‘ اور‘ ان کا نام مجرموں میں داخل کر لیا۔ ایک دفعہ حسب معمول ریگل چوک میں کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ اس زمانے میں نہر سویز پر قبضہ ہونے اور جمال ناصر کے استعفیٰ کے حوالے سے پاکستان بھر میں جلوس نکل رہے تھے۔ علامہ مشرقی بھی اپنے رضاکاروں کا دستہ لیے سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے۔ ظہیر کاشمیری نے پوچھا ''کدھر کا رُخ ہے؟‘‘ بولے ''سیدھے مصر جائیں گے‘‘ ظہیر کاشمیری بولے ''اے ذرا بیڈن روڈ سے نکل جائو‘ نیڑے رہے گا‘‘۔ ایک دفعہ لاہور میں منیر شیخ آیا ہوا تھا۔ میڈم نور جہاں نے اپنی صحت یابی کی دعوت کی تھی۔ میں نے اپنی جگہ خالد حسن کے ساتھ منیر شیخ کو بھجوا دیا۔ منیر شیخ نے میڈم کو بتایا کہ اس کا بھی دو سال پہلے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ میڈم نے پوچھا‘ ڈاکٹر نے کیا احتیاط بتائی تھی؟ منیر بھی بڑا بذلہ سنج تھا۔ بولا ''ڈاکٹر نے آکھیا گُھٹ کے جپھی نہ پانا‘‘ میڈم نے فوراً کہا ''فیر ملن دا کیہ فیدہ؟‘‘ جب دونوں واپس آئے تو ہنس ہنس کر میڈم کا جواب سنا رہے تھے۔
یوسف کامران ماسٹرز میں میرا کلاس فیلو تھا۔ سیزن بھی مباحثوں اور مشاعروں کا تھا۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور اور یونیورسٹی کی ٹیموں میں شامل تھی۔ چونکہ مشاعرے اکثر شام کو ہوتے تھے‘ میرے ساتھ یوسف بھی جاتا کرتا۔ مجھے تسلی ہوتی تھی کہ میرے ساتھ کوئی مرد ہے۔ میں لیڈیز روم میں برقعہ اُتار جاتی‘ انعام لے کر واپس آ کر برقعہ پہن کر گھر جاتی۔ گھر میں انعام کے کپ کو کبھی کُوڑے کے ڈبے میں اور کبھی آٹے کے کنستر میں چھپا دیتی کہ دیکھتے ہی اماں کہتیں ''پھر آ گئی خاندان کا نام اُچھال کر؟‘‘ گھر تک ہمارے معمولات کی خبر میرے چھوٹے بھائی کی‘ جو شماریات میں ماسٹرز کر رہا تھا‘ روز پہنچانے کی ڈیوٹی تھی۔ وہ راز تو یوں کھلا کہ ایک دن پورے خاندان نے جمع ہو کر میری جواب طلبی کی۔ پوچھا‘ کیا چاہتی ہو؟ ہم تھے سوشلسٹ‘ فوراً کہا ''تعلیم مکمل کر کے نوکری کریں گے‘ پھر شادی کریں گے‘‘۔ کہا ''ایسا تو ہمارے خاندان میں نہیں ہوتا۔ ہم نے یوسف کو ڈھونڈ کے لانے کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ آپ لوگوں نے شادی کرنی ہے تو ابھی آدھے گھنٹے میں کرو‘ ہم نے مولوی بُلوا لیا ہے‘‘۔ سچی بات ہے‘ یہ یوسف کا بڑا امتحان تھا کہ میں تو ہر قیمت پر گھر کی دہلیز چھوڑنے کو تیار تھی۔ میرے ترلے منتوں پر یوسف تیار ہو گیا۔ آدھا کلو لڈّو پہ میں رخصت ہو گئی۔
کتاب سنگِ میل پبلی کیشنز نے چھاپی اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔
آج کا مقطع
جو سچ کہوں تو کوئی وقت جا رہا ہے‘ ظفرؔ
زمین ہونے کو ہے زیر و بم درد کا دیر
(درد کا دیر (بلوچی) تھوڑی دیر میں)